|
|
یہ خط ایک سفید پوش پاکستانی شہری کی جانب سے لکھا گیا
ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خط کسی ایک پاکستانی کی طرف سے نہیں بلکہ ملک کی ان
بائیس کروڑ کی اکثریت کی جانب سے ہے جو اس مشکل وقت میں اپنی عزت بچانے کے
کوشش میں بے حال ہو رہے ہیں- |
|
جناب وزیر اعظم صاحب، |
یقیناً آپ صحت کی بہترین حالت میں ہوں گے کیوںکہ ہمارے
ملک میں اقتدار کی کرسی میں ایسی طاقت ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بیماری کو صحیح
کر دیتی ہے۔ اپنا تعارف سفید پوش کے طور پر کروانے کی جسارت صرف اس لیے کر
رہا ہوں کہ ماضی بعید میں ہمارے طبقے کو سفید پوش اس لیے کہا جاتا تھا کہ
ہماری سگھڑ خواتین ہمارے کپڑے اس جفاکشی سے دھوتی تھیں کہ ہمارے کپڑوں کی
سفیدی ان کے پرانے پن پر حاوی نہ ہو پاتی تھی اور ایسا صرف اس لیے کیا جاتا
تھا کہ کسی کو یہ نہ پتہ چل سکے کہ ہمارے معاشی حالات کیسے ہیں؟ |
|
بدقسمتی سے اب حکومت کے کیے گئے اقدامات اور مہنگائی کے سبب ہماری سفید
پوشی پارہ پارہ ہو گئی ہے۔ ہم عوام کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی
آمدنی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب اونٹ کے منہ میں زيرے کے مصداق ہو گئی ہے- |
|
|
|
گزشتہ دن اگرچہ مہینے کی ابتدائی تاریخیں ہی تھیں مگر جب
میری بیٹی کے بخار کے سبب مجھے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا تو میں نے ایک
خیراتی کلینک کا رخ کیا کیوں کہ اگر ڈاکٹر کے مشورے کی فیس 200 روپے دے
دیتا تو دواؤں کے پیسے کہاں سے لاتا؟ |
|
ایک لمبی قطار کے بعد جب باری آئی تو ڈاکٹر نے جو دوائيں
لکھ کر دیں ان میں سے بیشتر میڈیکل اسٹور پر موجود نہ تھیں کسی نے کہا کہ
بخار کی یہ دوا ساری سیلاب زدگان کے پاس چلی گئی اور کسی نے کہا کہ یہ دوا
بلیک میں دستیاب ہے- |
|
بخار کی دوا اور بلیک میں! وزیراعظم صاحب ان حالات میں
آپ کو اپنے بستر پر نیند کیسے آجاتی ہے جب کہ ملک کے معصوم بچے دوا نہ ملنے
کے سبب رات بھر بخار سے کراہتے رہتے ہیں؟ |
|
وزیر اعظم صاحب ہم سفید پوش افراد کا تو جینا مرنا اسی ملک میں ہے ہم بیرون
ملک جانے کی طاقت تو نہیں رکھتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے بچوں نے تعلیم بھی
اسی ملک میں حاصل کرنی ہے جہاں کے آدھے سے زيادہ سرکاری اسکول سیلاب میں
بہہ گئے ہیں اور باقی ماندہ سرکاری ملازمین کی رشوت ستانی کے سبب آخری
سانسیں لے رہے ہیں- ایسے میں پرائيویٹ اسکول میں بچوں کو تعلیم دلوانا ہی
واحد حل رہ جاتا ہے مگر جب پہلا آپشن پیٹ کا ایندھن بھرنا، بجلی کے بل دینا
گھر کا کرایہ دینا ہو تو تعلیم دلوانے کے خواب صرف ایک خواہش ہی رہ جاتی ہے- |
|
وزیراعظم صاحب اگر یہ کہا جائے کہ ملک کا سفید پوش طبقہ مہنگائی کے طوفان
سے سب سے زيادہ متاثر نہیں ہوا بلکہ تباہ ہو گیا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
ہماری خوراک گوشت اور مرغی سے زيادہ سبزیاں اور دالیں ہوتی تھیں مگر اب سب
سے سستی سبزی آلو پیاز بھی ہماری قوت خرید سے باہر ہو چکا ہے- |
|
|
|
کل کسی پڑوسی نے بتایا کہ آپ کی مہربانی سے
عوام کے لیے سبسڈائزڈ آٹا ٹرکوں پر فروخت کیا جا رہا ہے تو میں نے بھی کوشش
کی کہ کم از کم گھر والوں کو سستا آٹا ہی فراہم کر دوں- مگر وہاں ایک عجب
طوفان بدتمیزی نے مجھے اس قابل نہ چھوڑا کہ میں اس جگہ جا کر کھڑا ہو سکوں
جہاں بھیک کی طرح آٹا بانٹا جا رہا تھا جب کہ اس کی قیمت بھی لی جا رہی تھی- |
|
محترم وزیراعظم یہ سب حالات بتانے کا مقصد صرف
آپ تک ملک کی حقیقی صورتحال بتانا تھا جو کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کے مشیر
اور وزرا آپ تک پہنچنے نہیں دیتے ہوں گے۔ |
|
آخر میں صرف ایک درخواست کرنا چاہوں گا کہ ملک
کی اس صورتحال میں جب کہ خودکشی کے لیے زہر بھی میسر نہیں ہے سفید پوش
افراد اپنے بچوں کو قتل کر کے خودکشی نہ کریں تو اور کیا کریں- |
|
آپ نے جو حلف اٹھایا ہے اس اعتبار سے آپ پر ذمہ
داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کے لیے ایسے اقدامات کریں جو ان کی زندگی کو
آسان بنا سکے ورنہ یاد رکھیے گا کہ قیامت کے دن آپ کا دامن اور ہمارا ہاتھ
ہو گا اس دن کی تیاری کر لیں- |
ایک سفید پوش شہری |
|