میں وہاں کھڑا صرف دیکھ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے...پولیس حملہ آوروں کی شناخت اور گرفتاریاں کیسے کر رہی ہے؟

 
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نو مئی کو گرفتاری کے بعد جب لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس میں مشتعل مظاہرین توڑ پھوڑ کر رہے تھے تو اس وقت وہاں احتجاج کے لیے علی حمزہ (فرضی نام) بھی موجود تھے۔
 
علی گریجویشن کے بعد امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے چکے ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے ووٹر ضرور ہیں لیکن کوئی سرگرم کارکن نہیں ہیں۔ ان کے مطابق وہ اس دن کور کمانڈر ہاؤس میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ میں شریک نہیں تھے۔
 
نو مئی کو علی کے ایک دوست نے انھیں احتجاج کے لیے لاہور کے لبرٹی چوک چلنے کا کہا لیکن راستے میں ہی انھوں نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز دیکھیں جن میں لوگ کور کمانڈر ہاؤس کے باہر جمع ہو رہے تھے۔
 
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی بتاتے ہیں کہ ’میں نے اسے کہا کہ یار دفع کرتے ہیں بلاوجہ پھنس جائیں گے۔ جس پر اس نے کہ کہا کہ ’ڈرتا کیوں ہے، ہم شغل دیکھنے ہی جا رہے ہیں۔‘ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت توڑ پھوڑ ہو چکی تھی اور گیٹ بھی ٹوٹا ہوا تھا۔‘
 
علی کے مطابق ’ہم نے سوچا اسی بہانے کور کمانڈر ہاؤس اندر سے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اندر گئے اور وہاں چند منٹ کھڑے ہونے کے فوراً بعد باہر نکل آئے جب لگا کہ حالات خاصے خراب ہیں۔
 
’پھر ہم گھروں کو چلے گئے۔ اگلے ہی روز میں کسی کام سے شہر سے باہر آ گیا۔‘
 
علی جس علاقے کے رہنے والے ہیں، وہاں ان کے گھر اور پولیس تھانے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے اور وہاں پولیس ان کے خاندان کو اچھے سے جانتی ہے۔
 
 
علی بتاتے ہیں کہ ’مجھے وہاں کے ایس ایچ او کی کال آئی کہ بیٹا تم کہاں پہنچے ہوئے تھے۔ تم اور تمھارے گھر والے شریف لوگ ہیں لیکن تمھارا نام گرفتاریوں والی فہرست میں کیسے آیا ہے۔
 
’میں نے انھیں بتایا کہ میں دوست کے ساتھ گیا تھا لیکن میں نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی۔ میرے گھر والوں نے مجھے اسی وقت کہا کہ تم روپوش ہو جاؤ۔‘
 
علی کے مطابق ان کے گھر والوں نے پولیس سے جا کر معافی بھی مانگی اور فوج میں موجود کچھ جاننے والوں کے ذریعے بھی کہلوانے کی کوشش کی اور وکیلوں کو بھی اس مسئلے میں شامل کیا لیکن ’ہر طرف سے یہی جواب ملا کہ لڑکا تو گرفتار ہوگا۔‘
 
انھوں نے کہا کہ ’ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ آپ کے کسی اور بندے کو نہیں پکڑیں گے اور نہ ہی پولیس آپ کے گھر آئے گی۔ لیکن لڑکا آپ کو ہر حال میں ہمارے حوالے کرنا ہو گا۔‘
 
علی جیسے کئی افراد نو مئی کو کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے دوران وہاں موجود تھے۔ ان کے نام گرفتاریوں کی فہرست میں آنے سے متعدد سوالات نے جنم لیا ہے۔
 
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے ان افراد کی شناخت کیسے کی گئی اور اس بات کا تعین کیسے کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے کون سا شخص بے قصور اور کون واقعی توڑ پھوڑ میں ملوث تھا۔
 
 
’میں وہاں کھڑا صرف دیکھ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے‘
علی حمزہ کے علاوہ اور بھی ایسے کئی لوگ ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ وہ حملے میں ملوث نہیں تھے اور کور کمانڈر ہاؤس کے باہر صرف پُرامن احتجاج کے لیے پہنچے تھے۔ لیکن ان کے نام بھی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر دیے گئے۔
 
مثال کے طور پر ایک نجی چینل کی ڈی ایس این جی کا ڈرائیور اپنی ڈیوٹی کرنے کے لیے وہاں موجود تھا لیکن اب وہ اس لیے روپوش ہے کیونکہ اس کی تصویر بھی مطلوب افراد کی تصاویر کے ساتھ اخبار میں شائع کی گئی ہے۔
 
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے دفتر کے لوگوں نے بتایا کہ ’جب اس کی تصویر اخبار میں آئی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ تم اندر کیا کرنے گئے تھے۔ تو اس نے بتایا کہ میں تو صرف کھڑا دیکھ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے میں بھی کیمروں کی زد میں آ گیا۔‘
 
خیال رہے کہ پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 3200 سے زیادہ افراد کو پُرتشدد مظاہروں کے الزام میں پنجاب بھر سے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا سے تقریباً تین سو سے زیادہ افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔
 
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں بھی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہروں میں شامل افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
 
 
گرفتار افراد میں سے کئی ایسے لوگ ہیں جنھیں دفعہ 144 کے تحت پکڑا گیا ہے جبکہ کئی دیگر دفعات کے ساتھ مشتعل مظاہرین کو مختلف مقدموں کے تحت بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
 
حراست میں لیے جانے والوں میں پاکستان تحریک انصاف کے متعدد کارکن بھی شامل ہیں جنھیں یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا ہے کہ یہ ’سہولت کاری‘ میں ملوث تھے یا پھر انھوں نے ’اشتعال دلوایا۔‘
 
اس معاملے پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ ہم مختلف طریقوں سے لوگوں کی شناخت اور نشاندہی کر رہے ہیں۔
 
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے باقائدہ 32 مقامات کی جیو فینسنگ کی ہے، سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز اور سیف سٹی (شہر بھر کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیوز) کا ڈیٹا جمع کیا ہے اور موقع پر بننے والی تمام ویڈیوز بھی دیکھی ہیں۔
 
’ہم نے وہ ڈیٹا نادرا کو بھجوایا جہاں ان کی شناخت کی گئی۔ جبکہ آئی بی مختلف علاقوں سے لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کر کے لا رہی ہے، جس سے ان لوگوں کی گرفتاری میں مدد مل رہی ہے۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے موقع سے بھی لوگوں کو گرفتار کیا۔‘
 
آئی جی پنجاب نے دعویٰ کیا کہ ’جو لوگ حملوں میں ملوث تھے ان کی گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے واٹس ایپ گروپس بنے ہوئے تھے جس میں سے ہمیں کافی ڈیٹا بھی ملا اور ویڈیوز بھی۔ اس کی مدد سے ہم نے مزید لوگوں پکڑا ہے۔‘
 
 
کیا پولیس نے 18 سال سے کم عمر بچوں کو بھی گرفتار کیا؟
سوشل میڈیا پر ایسی اطلاعات بھی شیئر کی جا رہی ہیں کہ پولیس کی جانب سے نو عمر بچوں کو بھی حراست میں لیا جا رہا ہے۔ یہ اطلاعات خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شیئر کی جا رہی ہیں۔
 
تاہم آئی جی پنجاب سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس کم عمر بچے نہیں ہیں اور 18 سال سے کم کوئی نہیں ہے۔‘
 
خواتین کی گرفتاری اور ان کے ساتھ مبینہ طور پر کیے گئے ناروا سلوک کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس باقائدہ ثبوت موجود ہیں کہ خواتین ان کارروائیوں میں ملوث تھیں اور تمام تر منصوبہ بندی کا حصہ تھیں۔ اس لیے انھیں قانون کے مطابق پکڑا گیا ہے، اس کے علاوہ بیمار افراد کو طبی سہولیات کے لیے ہسپتال بھیجا ہے۔‘
 
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کئی ویڈیوز ایسی ہیں جن میں پولیس کی جانب سے خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔
 
ایسے میں یہ تنقید بھی سامنے آئی ہے کہ مطلوبہ شخص کے موجود نہ ہونے کی صورت میں گھر کے دوسرے افراد کو اٹھا لیا جاتا ہے۔
 
 
کیا آپریشن میں پولیس عسکری حکام سے ہدایات لے رہی ہے؟
گرفتاریوں کے حوالے سے جاری آپریشن میں کون سے ادارے شریک ہیں اور کیا فوج یا آئی ایس آئی سے بھی اس حوالے ہدایات لی جا رہی ہیں، اس سوال کے جواب میں آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ایسا ’بالکل نہیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس، آئی بی اور سی ٹی ڈی سپیشل برانج اس پر کام کر رہے ہیں۔‘ جبکہ دوسری جانب بعض پولیس ذرائع کے مطابق ان تمام تر معاملات کی نگرانی آئی ایس آئی سمیت عسکری حکام کی جانب سے کی جا رہی ہے۔
 
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے پیر کو کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا تھا کہ عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
 
اب تک گرفتاریوں کے بعد چند ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں پولیس کی جانب سے رہا ہونے کے بعد نقاب پوش نامعلوم افراد کی جانب سے کچھ افراد کو اٹھا لیا گیا ہے جن میں اینکر پرسن اور یوٹیوبر عمران ریاض بھی شامل ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر گذشتہ روز عمران ریاض کے اغوا کا مقدمہ تھانہ سول لائن سیالکوٹ میں درج کیا گیا ہے۔
 
تاہم آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مختلف گروپس بنائے ہیں جن میں ہم نے توڑ پھوڑ کرنے والے لوگوں کو الگ کیا ہے اور موقع پر موجود لوگوں کو الگ رکھا گیا ہے۔
 
’جیسا کہ لاہور کور کمانڈر ہاؤس میں حملے کے دوران اس گھر کی چاردیواری میں 499 افراد موجود تھے جن میں سے 142 سے زیادہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جبکہ ورکرز اور کارکنان کو الگ لسٹ میں رکھا ہے۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’ان سب لوگوں کو ان کے جرم کے مطابق سزا ہو گی جبکہ اگر کوئی بے قصور ہے تو ہم آئی بی اور دیگر محکموں سے تصدیق کرنے کے بعد انھیں چھوڑ بھی رہے ہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu

سیاست

خدیجہ، صنم جاوید، طیبہ کی ضمانتیں مسترد - مریم نواز کا جھگڑا اور ضمانت میں اصل رکاوٹ

شہباز (ن) لیگ کے صدر مریم نائب صدر۔۔ سیاسی جماعتیں یا فیملی لمیٹڈ کمپنیاں

’الحمدللہ، میں ٹھیک ہوں‘: یوٹیوبر عادل راجہ سامنے آگئے٬ گرفتاری سے متعلق کیا بتایا؟

پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر چند گانے جو فٹ بیٹھتے ہیں

مزید سیاست...