جہانگیر ترین اور عمران خان میں دوریاں
صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق اقتدار کے چند ہی ماہ میں جہانگیر
ترین کا قریبی حلقہ اثر عمران سے دور ہوتا گیا یا دور کر دیا گیا۔
ان کے مطابق ترین اور عمران میں فاصلے بڑھنے لگے مگر ’جب بھی کوئی بڑا
معاملہ ہوتا کسی پارٹی سے ڈائیلاگ یا اتحاد کی بات ہوتی تو جہانگیر ترین کو
بلایا جاتا۔ مگر پھر وقفے بڑھتے گئے۔‘
’اس دوران عمران کی نئی کچن کابینہ بن گئی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، فرسٹ
لیڈی بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری اس کابینہ کے اہم ترین رکن بن گئے۔ یوں
جہانگیر ترین کا رہتا سہتا اثرو رسوخ اور بھی کم ہو گیا۔‘
ان کے مطابق ’ترین کے دوستوں کا الزام ہے کہ عمران اور جہانگیر ترین میں
غلط فہمیوں کا آغاز آئی بی کی ایک رپورٹ سے ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ
جہانگیر ترین، سپیکر اسد قیصر، پرویز خٹک اور کچھ دوسرے وزرا نے ایک غیر
رسمی اجلاس میں پارٹی لیڈر اور پالیسیوں کے خلاف گفتگو کی۔‘
’عمران کے قریبی حلقے میں یہ بات زیر گردش رہی مگر پھر دم توڑ گئی۔ بعد
ازاں خان کے قریبی حلقے میں اسد عمر بھی شامل ہوگئے جو ترین کے خلاف پہلے
سے ہیں۔ اس سے ترین مخالف حلقہ اور طاقتور ہو گیا۔‘
’خان اور ترین کے درمیان فاصلے اس وقت بڑھے جب دونوں خاندانوں کی خواتین
میں بھی بن نہ سکی۔ اس کی ایک وجہ فرسٹ لیڈی کی روحانی کرامات کے حوالے سے
ترین خاندان کی خواتین کی غیر محتاط گفتگو بھی بتائی جاتی ہے۔‘
’دوسری طرف ترین نے بھی معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ اور
بامقصد منصوبہ بندی نہ کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم خان، ترین کی
زراعت، آٹا اور چینی کے حوالے سے کارکردگی پر بھی ناراض تھے۔‘
ملک میں چینی کے بحران پر کمیشن بنایا گیا تو کمیشن کی رپورٹ میں الزام
عائد کیا گیا کہ مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری
شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران،
پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے۔‘
اسی دور میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) نے جہانگیر خان
ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی درج کیا
گیا۔
|