|
|
وطن عزیز میں صحافت کے شعبے میں خواتین انتہائی کم تعداد
میں ہیں۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں، عدم تحفظ، معاشرتی رکاوٹیں اور پذیرائی
نہ ملنا، پھر بھی تمام چیلنجز کے باوجود پاکستان میں خواتین صحافت میں اپنے
قدم جمائے ہوئے ہیں ان میں سے ایک زرنگین گھٹالہ ہیں جو انتہائی مضبوط،
باہمت اور پختہ ایمان کی حامل خاتون ہیں- |
|
انہوں نے پوری زندگی بہت جدوجہد کی ہے۔ 13 سال کی عمر سے،
ماں باپ کی وفات کے بعد، تن تنہا انہوں نے معاشرے کی سختیوں کا سامنا کیا-
اس کے علاوہ مشکل حالات کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کو بھی ان حالات میں
پالا ہے کہ ایک گود میں تھی اور ایک کی انگلی پکڑ کے چلتی تھی- مگر انہوں
نے کبھی ہار نہیں مانی انہوں نے کمزوریوں کو ہمیشہ اپنی طاقت بنا کر انکا
استعمال کیا ہے انہوں نے اپنے درد اور تکلیف کوہمت بنا کر زندگی گزار دی۔ |
|
انہوں نے اپنی پہلی نوکری معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ
سے شروع کی جس وقت انہوں نے کام شروع کیا اس وقت کالج میں پڑھ رہی تھیں۔
17سال کی عمر میں ایک اخبار میں ملازمت کی۔ اس وقت صحافت میں خواتین بہت کم
تھیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی کیرئیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ
کیونکہ انکی تمام فیملی کا تعلق لکھنے لکھانے سے ہی تھا اورجب مشکل وقت پڑا
تو صحافت ہی نظر آئی کہ میں یہ کام ہی کرسکتی ہوں۔ |
|
انہوں نے صحافت کا آغاز 2001 سے کیا اور ان کا پہلا ادارہ "روزنامہ قومی
اخبار"تھا جس کو وہ ایک اکیڈمی کا درجہ دیتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ انکی
صحافتی تربیت میں زیادہ ہاتھ مدیر"روزنامہ قومی اخبار" الیاس شاکر صاحب کا
ہے انہوں نے اس وقت میری ہمت بندھائی جس وقت میں زیر تعلیم تھی اور میر ے
لیے نوکری کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا تھا۔ |
|
|
|
انہوں نے دوران صحافت ہی گریجویشن کیا۔ حالات کچھ بہتر
ہوئے ہی تھے کہ اچانک ایک واقعے نے انکی زندگی پھر بدل دی۔ یہ فروری 2010
کی بات ہے جب شہر قائد میں جگہ جگہ بدامنی عروج پر تھی۔ آئے روز بم دھماکے
ہو رہے تھے۔ اک روز وہ صحافتی امور کی انجام دہی کیلئے جناح اسپتال بم
دھماکے کی کوریج کے لیے گئیں تو اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر دوسرا بم
دھماکہ ہوا، جس میں زرنگین زخمی ہوگئیں۔ وہ بتاتی ہیں "میں نے اس دن موت کو
بہت قریب سے دیکھا جگہ جگہ خون پھیلا ہوا تھا اور لوگ مجھے اٹھا کر
ایمرجنسی کے اندر لے کر جارہے تھے۔ مجھے ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آئی تھی۔ |
|
لیاری میں جب انتہاپسندی عروج پر تھی اس وقت
رپورٹرز وہاں جاتے ہوئے کتراتے تھے میں اس وقت بھی گولیوں کی بوچھاڑمیں
وہاں رپورٹنگ پر جایا کرتی تھی مگر کبھی اپنے پیشے سے منہ نہیں موڑا، ہمیشہ
امتحان سمجھا کیونکہ ہر امتحان کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ بطور صحافی مجھے اکثر مکالماتی سیشن
میں مدعو کیا جاتا ہے جہاں میں نوجوانوں سے ایک بات پر ہی اصرار کرتی ہوں
کہ جب تک معاشرے سے عدم برداشت اور عدم تحفظ کو ختم نہیں کیا جائے گا اس
وقت ہم ایک پرامن معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے۔ |
|
انہوں نے کہا کہ میں اپنے تجربات آگاہی سیشن
میں ضرور شئیر کرتی ہوں تاکہ آنے والی نئی لڑکیوں کوفیلڈ میں درپیش چیلنجز
کا اندازہ ہو اور ان کے اندر اعتماد پیدا ہو تاکہ وہ ان تمام مسائل کو سمجھ
سکے جو دوران ملازمت پیش آتے ہیں۔ ان کا مانناہے کہ معاشرے میں عورت ہی
بدلاؤ لاسکتی ہے انہوں نے وہ سب کچھ برداشت کیا جو ایک عام عورت کیلئے مشکل
تھا بطور صحافی معاشرے کو پرامن بنانے اور خواتین میں عدم تحفظ کو ختم کرنے
کیلئے وہ اپنی تحاریر اور آرٹیکلز کی صورت میں اپنا فرض بخوبی ادا کررہی
ہیں۔ |
|
|
|
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ نوکری
کے بڑے مسائل رہے لیکن شکر ہے کہ ایک جگہ سے نوکری گئی تو دوسری جگہ سے
پیشکش ہوگئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دوران رپوٹنگ کئی بار ایسا ہوا کہ کئی
بار عورت ہونے کی وجہ سے اسائنمنٹ مجھے نہیں دیا گیا کہ میں نہیں کرسکوں گی
مگر اگلی بار وہ ہی کام کرکے میں نے ثابت کیا کہ خاتون رپورٹر بھی وہ سب
کام کرسکتی ہے جو ایک مرد رپورٹر کر سکتا ہے۔ زرنگین گھٹالہ دوسری خواتین
رپورٹرز کیلئے مشعل راہ ہیں جنہوں نے تمام چیلنجز کے باوجود اپنے آپ کو
منوایا اور ثابت قدمی سے صحافتی فرائض انجام دے رہی ہیں۔ |