|
|
آج کے اس دور میں اگر ہم بچوں کو یہ بتائيں کہ ہم اس نسل
سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ سارے دن کی خبریں صرف پانچ بجے یا پھر نو بجے ہی
سننے کو ملتی تھیں اس کے علاوہ دنیا میں کچھ بھی ہو جائے اس کے بارے میں آپ
کو پتہ نہیں چلتا تھا تو موبائل اور انٹرنیٹ کے دور کے بچے ہمارا مذاق
اڑائيں گے- |
|
پاکستان ٹیلی وژن کا
خبرنامہ: |
اسی کی دہائی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو وہ وقت یاد
ہوگا جب کہ نو بجے کے ٹائم بچوں کو مائيں یا تو کھانا کھلا کر سلا دیتی
تھیں یا پھر ان کو خاموشی کا حکم نامہ مل جاتا تھا کیوں کہ ابو نے خبرنامہ
سننا ہوتا تھا۔ پورے نو بجتے ہی گھر میں خاموشی چھا جاتی تھی نو بجتے ہی
گھڑی دکھائی جاتی اور اس کے بعد اپنی بارعب آواز کے ساتھ اظہر لودھی یا
خالد حمید ماہ پارہ صفدر یا ثریا شہاب کے ساتھ اسکرین پر شیروانی پہنے نظر
آتے ان کے ساتھ خاتون میزبان نے ہلکے رنگ کے کپڑے پہنے ہلکے میک اپ کے ساتھ
دکھائی دیتی تھیں۔ |
|
خبرنامے کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا تھا اور اس کے بعد
سلام کیا جاتا پھر انتہائی دھیمے انداز میں بغیر کسی سنسنی کے خبریں سنائی
جاتی تھیں جس کو سب انتہائی انہماک سے سنتے تھے-آج بھی لوگ یہ جاننا چاہتے
ہیں کہ یہ سب لوگ کہاں چلے گئے ان میں سے کچھ لوگوں کے بارے میں ہم آپ کو
آج بتائيں گے- |
|
1: اظہر لودھی |
اظہر لودھی کو پاکستان کا سب سے پہلا میزبان اور نیوز
کاسٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ان کی خاص شہرت سابق صدر ضياالحق صاحب کی
تدفین کی ٹرانسمیشن کی میزبانی کرنے کے بعد سے ٹی وی سے جدا کر دیا گیا تھا
وہ اس وقت بھی پاکستان میں رہائش پزیر ہیں- |
|
|
2: ماہ پارہ صفدر |
ماہ پارہ صفدر جن کا یہ کہنا ہے کہ ان کے استاد خبریں
پڑھنے کو باقاعدہ ایک ہنر قرار دیتے تھے انہوں نے اپنے کیرئير کا آغاز
لاہور سے اپنی یونی ورسٹی کے دور میں کیا جس کے بعد خبروں میں جب ان کو
بطور نیوز کاسٹر پڑھنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنے درست تلفظ اور ادائگی
سے بہت نام کمایا- |
|
|
3: خالد حمید |
خالد حمید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ریڈيو
پاکستان میں بہت کام کیا جس کے سبب انہوں نے اپنے الفاظ کی ادائیگی اور
تلفظ پر بہت کام کیا اس وقت واشنگٹن میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور اب
بھی اپنے دور کو یاد کرتے ہوئے اس وقت کو بہترین ترین قرار دیتے ہیں۔ خالد
حمید اب بھی بی بی سی سے وابستہ ہیں اور بی بی سی میں اردو خبریں پڑھتے نظر
آتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بریکنگ نیوز نے آج کی خبروں کو ایک
چیخ پکار میں تبدیل کر دیا ہے۔ اور اس میں غلطی ان لوگوں کی بھی کہ وہ اپنی
مصروفیات کے سبب نئی نسل کو ایسی کوئی تربیت گاہ نہیں فراہم کر سکے جہاں وہ
خبریں پڑھنا سیکھ سکتے- |
|
|
4: ثریا شہاب
|
ثریا شہاب نے ٹیلی وژن میں اپنے کیرئير کا آغاز
بطور نیوز کاسٹر 1973 شروع کیا مگر اس سے قبل دس سال تک ایران کے ریڈيو
زيدان میں نوجوانوں کے ایک پروگرام کی میزبانی کر کے کافی شہرت حاصل کر چکی
تھیں۔ بطور نیوزکاسٹر ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ ان کی آواز کو عوام کی
دلوں کی آواز قرار دیا جاتا تھا۔ جس کے بعد 1984 میں بی بی سی کو جوائن کر
کے لندن شفٹ ہو گئيں اور ان کی آواز کا تعلق پاکستان کی آواز سے ٹوٹ گیا
اور ان کا انتقال دسمبر 2019 کو اسلام آباد میں ہو گیا تھا- |
|
|
5: زبیر احمد
|
کراچی ٹی وی سے خبریں پڑھنے والے زبیر احمد اس
وقت کینیڈا میں وہاں کے ایک اردو چینل کے لیے خبریں پڑھتے ہیں۔ مگر پاکستان
ٹیلی وژن سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا ہے ان کو خاص طور پر کراچی کی علاقائی
خبریں پڑھنے کی ذمہ داری دی جاتی تھی- |
|
|
6: عشرت فاطمہ |
سادہ لباس سر پر دوپٹہ مگر ناک میں ہیرے کی لونگ عشرت فاطمہ کی پہچان ہوتی
تھی جن کو اکثر اوقات خواتین ان کی لونگ کے لیے خاص طور پر دیکھتی تھیں جچے
تلے انداز میں ان کی دھیمے دھیمے انداز میں خبریں پڑھنے کا انداز اتنا موثر
ہوتا کہ انہوں نے ماہ پارہ صفدر اور ثریا شہاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا- |
|
|
یہ تمام نیوز کاسٹر ثریا شہاب کے علاوہ سب ماشا اللہ بقید حیات ہیں۔ یہ
تمام لوگ ملک کا وہ سرمایہ ہیں جن سے آج کے دور میں فائدہ اٹھانے کی ضرورت
ہے۔ تاکہ آج کے نیوز چینل پر خبریں پڑھنے والے اس سے سبق سیکھ سکیں اور تیز
میک اپ اور خوبصورتی کے بجائے ان کے لہجے پر توجہ دیں تاکہ خبروں کا وقار
دوبارہ سے بحال ہو سکے- |