ہم چار بہنیں اپنے والد کے لیے بیٹوں سے کم نہیں ہیں۔
یہ کہنا ہے، طوبیٰ اعجاز کا جو چار بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ طوبیٰ
اسلام آباد میں اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر اپنے والد اور دادا کا لکڑی کا
خاندانی کاروبار چلا رہی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں عموماً بیٹوں کو ہی خاندان کا وارث تصور کیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے خاندانی کاروبار سمیت جائیداد کا بڑا حصہ ان کے ہی حصے میں آتا
ہے مگر طوبیٰ، ایمن، سدرہ اور ہاجرہ اس روایتی سوچ کو ختم کر رہی ہیں۔
لکڑی سے فرنیچر تیار کرنا آسان کام نہیں ہے، اس کے لیے پلائنگ، بڑی بڑی
مشینوں پر کٹائی کرنے کے ساتھ ساتھ بازار سے لکڑی کی خریداری سمیت کئی محنت
طلب کام شامل ہیں۔
چاروں بہنیں بازار سے لکڑی خریدنے سے لے کر فرنیچر کی ڈیلیوری تک ہر کام
خود کرتی ہیں۔ اس کام میں آغاز میں ان کی رہنمائی ان کے بیمار والد نے کی،
مگر اب یہ اس کام میں ماہر ہو گئی ہیں۔ ایک گھر میں چھوٹا سا شروع ہونے
والا کاروبار آج ان بہنوں کی پہچان بن گیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تیسری بہن ایمن اعجاز نے بتایا کہ ’ہم بچپن سے
ہی اپنے داد کی ورکشاپ میں جاتی تھیں۔ وہاں لکڑیوں اور بڑے بڑے درختوں کی
کٹائی دیکھا کرتی تھیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں بڑی بڑی مشینیں استعمال
کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا۔‘
ایمن نے دو سال قبل ہی اپنی بہنوں کو اس بات کے لیے راضی کیا کہ وہ اپنے
والد کے کاروبار کو مل کر آگے لے کر جائیں۔ ایمن سمیت تمام بہنوں نے اس کام
سے متعلق کہیں سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ بس یوٹیوب اور والد سے سیکھ کر ہی
مہارت حاصل کر لی۔
آج یہ چار بہنیں دوسری خواتین کے لیے مثال قائم کر کے معاشرے میں روایتی
سوچ کو ختم کر رہی ہیں۔
’والد نے بچپن سے ہی
بیٹوں کی طرح پالا ہے‘
|