کرشن چندر جن کی لاہور سے محبت مرتے تک دم تک برقرار رہی


او ہنری عالمی ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ اگرچہ شاعر بھی تھے مگر اُن کو شہرت افسانہ نگار کے طور پر حاصل ہوئی۔ انہوں نے افسانہ نگاری کے فن کے بارے میں ایک بار کہا تھا:’میں آپ کو افسانہ لکھنے کا ایک راز بتاتا ہوں۔ اس کا اصول نمبر ایک یہ ہے: وہ کہانیاں لکھیں جو لکھ کر آپ خوشی محسوس کریں۔ اصول نمبر دو کوئی نہیں ہے۔‘داستان ہو یا ناول، ڈراما ہو یا مختصر افسانہ، یہ کہانی بیان کرنے کے مختلف انداز ہیں جن کے ذریعے ایک تخلیق کار درحقیقت اُن حقیقتوں کو بیان کر رہا ہوتا ہے جنہیں بیان کرنا اُس کے خیال میں اہم ہوتا ہے یا جنہیں بیان کر کے وہ خوشی محسوس کرتا ہے مگر ہر کہانی میں ایک قدرِ مشترک ہے اور وہ ان میں انسانی جذبات و احساسات کا بیاں ہے جس میں کرشن چندر یدطولیٰ رکھتے تھے۔ وہ کرشن چندر جن کے ذکر کے بغیر اُردو ادب کی افسانوی روایت کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ٹوٹے ہوئے تارے‘ جیسے افسانے اور ’شکست‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘جیسے ناول تخلیق کرنے والا یہ مصنف آج ہی کے روز 23 نومبر 1914 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر وزیرآباد میں پیدا ہوا۔ کچھ تاریخی ماخذوں میں اُن کا جائے پیدائش بھرت پور (راجھستان) لکھا ہے۔کرشن چندر کا بچپن چوں کہ پونچھ (ریاست جموں و کشمیر) میں گزرا جہاں اُن کے والد ڈاکٹر گوری شنکر چوپڑا معالج کے طور پر تعینات تھے تو اس وجہ سے اُن کی تحریروں میں جابجا کشمیر کی جنت نظیر وادیوں کا ذکر ملتا ہے۔سنہ 1967 میں مشہور ادبی رسالے ’شاعر‘ نے کرشن چندر نمبر شائع کیا تھا جس میں مصنف کے ہم عصر قلم کار خواجہ احمد عباس کا دل چسپ مضمون ’کرشن چندر کی کہانی‘ بھی شامل تھا، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’کرشن چندر نے اپنا بچپن کشمیر میں گزارا ہے اور اس کی کہانیوں پر کشمیر کے حسن کی گہری شاعرانہ چھاپ ہے۔ اس نے کشمیر کے بارے میں کتنی ہی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔’یہی نہیں کہ کشمیر کی زندگی نے اس کو افسانوی مواد دیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت میں اور اس کے ادبی سٹائل میں کشمیر کا قدرتی حسن ہمیشہ کے لیے گھل گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر اور کشمیر کی یاد نے اس کی کتنی ہی کہانیوں کو انسپائر کیا ہے۔‘کرشن چندر کے افسانوں اور ناولوں میں اسلوب کے تجربات ہیں، موضوعات کی رنگا رنگی اور ہمہ گیریت ہے، جس کے باعث وہ اپنے ہم عصروں سے منفرد نظر آتے ہیں۔ممتاز نقاد ڈاکٹر عبادت بریلوی ’تنقیدی زویے: اُردو افسانہ نگاری پر ایک نظر‘ میں کرشن چندر کے فن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘کرشن کا اسلوبِ بیاں اور طرزِ ادا دل کش ہے اور شاید ایسی پیاری زبان اور شعریت سے بھرپور اسلوبِ بیاں اُردو کے بہت کم افسانہ نگاروں کو نصیب ہوا ہے۔‘ڈاکٹر اقبال آفاقی کی رائے بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ اپنی کتاب ’اُردو افسانہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کرشن چند کے قلم میں پہاڑی ندی کا سا تیز بہاؤ ہے اور میدان میں بہنے والے دریا کا سا پھیلاؤ۔‘کرشن چندر 23 نومبر 1914 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر وزیرآباد میں پیدا ہوئے۔ (فوٹو: چنار شیڈ)یہ درست ہے کہ کرشن چندر بسیار نویس تھے۔ انہوں نے بہت زیادہ لکھا جس کے باعث اُن کے بعض افسانوں پر تنقید کی جا سکتی ہے مگر اُن کے ایسے افسانوں کی تعداد بھی کم نہیں جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔’دردِ گردہ‘ کی نرس مس جائے کا کردار ہو یا ’پانی کے درخت‘ کی بانو… کرشن چندر کی کہانیوں کے کردار سانس لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور اُن کی شعریت میں گندھی نثر قاری کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔’پانی کا درخت‘ سے یہ اقباس دیکھیے:’بانو اور میں۔ دونوں چپ چاپ ایسا جیسے ساری دنیا کالی ہے کبھی ایسی خاموشی جیسے سارے آنسو سو گئے ہیں۔ چشمے کے کنارے بیٹھی ہوئی بانو آہستہ آہستہ گھڑے میں پانی بھرتی رہی۔ آہستہ آہستہ پانی گھڑے میں گرتا ہوا بانو سے باتیں کرتا رہا، اس سے کچھ کہتا رہا، مجھ سے کچھ کہتا رہا۔ پانی کی باتیں انسان کی بہترین باتیں ہیں۔‘’مہالکشمی کا پُل‘ میں ایک ایسا کرشن چندر نظر آتا ہے جو اپنی دنیا اور اُس کی حقیقتوں سے الگ تھلک نہیں ہے اور جو ایک سیاسی فکر رکھتا ہے اور اُس کا کھل کر اظہار بھی کرتا ہے۔ اس افسانے کا اختتام کچھ یوں ہوتا ہے: ’دیکھیے، میں آپ سے اشتراکی بننے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں، میں آپ کو جماعتی جنگ کی تلقین بھی نہیں کر رہا ہوں، میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ مہالکشمی کے پُل کے دائیں طرف ہیں یا بائیں طرف۔‘اُردو ادب کے ممتاز محقق اور ادیب ڈاکٹر قمر رئیس کرشن چندر کے بارے میں درست ہی تو لکھتے ہیں کہ ’ایسا جادو گر جو ذہین سے ذہین قاری کو بھی حسن و عشق کی رنگینیوں اور فطرت کی رعنائیوں کی سیاحت کراتا ہوا چپکے سے زندگی کی المناک حقیقتوں کے دہانے پر لاکھڑا کرتا ہو جس کی رواں دواں حقیقتوں میں حریر و اطلس کی نرمی اور تیر و نشتر کی تیزی ہو۔‘کرشن چندر نے بھی تقسیم کے وقت منٹو کی طرح ہجرت کا دُکھ سہا تھا۔ انہوں نے بھی تقسیم پر اعلٰی پایے کا ادب تخلیق کیا۔ اُن کے ناول ’غدار‘ میں بیج ناتھ کا قصہ ہے جسے ایک روز یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور اُسے صرف اس لیے غدار قرار دے دیا جاتا ہے کہ وہ کسی کا قتل نہیں کرتا۔کرشن چندر کے افسانوں اور ناولوں میں اسلوب کے تجربات ہیں۔ (فوٹو: لنک شاپ)کرشن چندر نے تقسیم کے پس منظر میں بہت سے افسانے بھی لکھے جن میں ’پشاور ایکسپریس‘، ’ایک طوائف کا خط‘، ’جانور‘ اور ’جیکسن‘ نمایاں ہیں۔زاہدہ حنا اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں کہ ’لاہور اور کشمیر نے کیا کمال کا پھل پیدا کیا اور وہ کرشن چندر کے نام سے اردو اور ہندی ادب کی دنیا میں مشہور ہوا۔ انہوں نے کمال کے اور بے مثال افسانے لکھے۔وہ سفید کاغذ پر لکھتے چلے جاتے یا شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اپنے قلم کی نوک سے لفظوں کی مالا پروتے چلے جاتے۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ کرشن چندر بچپن میں اُردو زبان میں بہت کمزور تھے جس کے باعث انہوں نے سنسکرت رکھ لی مگر جب فارسی پڑھنا پڑھی تو اُن کی جان پر بن آئی۔ اس وقت اُن کے استاد بلاقی رام تھے جن سے وہ روز پٹا کرتے۔ چناںچہ انہوں نے ’پروفیسر بلیکی‘ کے نام سے ایک طنزیہ مضمون تحریر کیا اور شائع ہونے کے لیے اُس دور کے مشہور پرچے ’ریاست‘ میں بھیج دیا۔اس اخبار کے مدیر دیوان سنگھ مفتون تھے۔ یہ کرشن کی خوش قسمتی تھی یا بدقسمتی کہ یہ مضمون کسی قسم کی قطع و برید کے بغیر شائع ہو گیا جس پر استاد سے تو پٹائی ہوئی ہی بلکہ والد نے بھی خوب سرزنش کی اور وہ اگلے دو سال تک کچھ نہ لکھ سکے۔کشمیر کے لوکیل میں تو کرشن چندر کے بہت سے افسانے اور ناول مل جائیں گے مگر کرشن چندر کی زیست کا بیاں لاہور کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے جو یہ کہا کرتے تھے کہ لاہور آدمی کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔کرشن چندر کا پہلا افسانہ سنہ 1929 میں اُن کے دورِ طالب علمی میں لاہور کے ایف سی کالج کے میگزین ’فولیو‘ میں چھپا جبکہ اُن کی ادبی زندگی کے اہم ماہ و سال بھی اسی شہر میں گزرے۔ وہ کالج میگزین کے مدیر بنائے گئے۔ اُن کی اس زمانے کی زیادہ تر تحریریں انگریزی زبان میں ہیں۔اُن کے ادبی سفر کا آغاز سنہ 1936 میں اُس وقت ہوا جب ان کا افسانہ ’یرقان‘ لاہور کے معروف جریدے ’ادبی دنیا‘ میں شائع ہوا جس پر رسالے کے مدیر نے یہ مختصر نوٹ لکھا کہ ’یہ شخص ہماری زبان کا زبردست ادیب ثابت ہو گا۔‘کرشن چندر کے ادبی سفر کا آغاز سنہ 1936 میں اُس وقت ہوا جب ان کا افسانہ ’یرقان‘ لاہور کے معروف جریدے ’ادبی دنیا‘ میں شائع ہوا۔ (فائل فوٹو: چنار شیڈ)کرشن چندر کے اگلے افسانے ’لاہور سے بہرام گلہ تک‘ اور ’جہلم میں ناؤ پر‘ جریدے ’ہمایوں‘ میں شائع ہوئے جن کے بارے میں اس جریدے کے مدیر میاں بشیر احمد نے یہ پیش گوئی کی کہ ’عمر اور تجربے کی منزلیں طے کرنے کے بعد یہ شخص اُردو کا مایہ ناز ادیب ثابت ہو گا۔‘ان افسانوں کی اشاعت کے بعد کرشن چندر کا نام لاہور کے ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا تھا۔کرشن چندر کے ہم عصروں میں سے ایک شاعر، مصنف اور صحافی گوپال متل بھی تھے جن کی کتاب ’لاہور کا جو ذکر کیا‘ میں کرشن چندر کی زیست کے چند اہم پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔وہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین پنجاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’انجمن کے پہلے سیکریٹری سومناتھ چپ تھے جو انگلستان سے اعلٰی تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔ سیکریٹری بننے کے کچھ ہی دن بعد انہیں بہت اچھی سرکاری ملازمت مل گئی۔ اُن کے جانشین کرشن چندر بنے جن کی دوستی کا مجھے شرف حاصل تھا۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’کچھ ہی مدت بعد وہ بھی آنکھوں میں آنسو بھر کر تشریف لائے اور دردناک خبر سنائی کہ انہوں نے سرکاری ملازمت قبول کر لی ہے یا خود ان کے اپنے الفاظ میں خود کو فروخت کر دیا ہے۔‘’وہ غالباً اس امید میں آئے تھے کہ میں ان سے اظہارِ ہمدردی کروں گا اور بہت ممکن ہے کہ گالیاں بکنے لگوں لیکن جب میں نے مبارک باد پیش کی تو انہیں یک گونہ صدمہ ہوا۔‘گوپال متل لکھتے ہیں کہ ’کرشن چندر مجھ پر واقعی مہربان تھے۔ وہ خود سلیقے کی زندگی بسر کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ میں بھی سلیقے کی زندگی بسر کروں۔ اپنے لباس کے بارے میں وہ کافی محتاط تھے اور مراسم قائم کرنے اور انہیں نباہنے کے آداب بھی انہیں آتے تھے۔‘’مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ کامیابی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے: اچھا لباس اور رہنے کی معقول جگہ جہاں دوستوں کی مدارات کی جا سکے۔‘کرشن چندر کی پہلی شادی اُن کے والدین کی پسند سے ہوئی۔ اس بارے میں گوپال متل لکھتے ہیں کہ ’ایک دن کرشن چندر نے بتایا کہ اس پر ایک افتاد پڑی ہے۔ ان کی شادی ہو رہی تھی اور اُن کے والدین نے طے کی تھی۔ میری شقاوتِ قلبی نے اس بار بھی مجھے اظہارِ ہمدردی سے باز رکھا بلکہ میں اسے تسلی دینے لگا کہ جب تحریک کا قائد سجاد ظہیر برادری میں شادی کر سکتا ہے تو اسے اس معاملے میں اپنے ماں باپ کی اطاعت سے انکار کیوں ہو؟‘کرشن چندر کی پہلی شادی اُن کے والدین کی پسند سے ہوئی۔ (فائل فوٹو: چنار شیڈ)کرشن چندر کی یہ شادی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ اُن کے اس شادی سے تین بچے ہوئے۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ انہوں نے دوسری شادی ناول نگار سلمٰی صدیقی سے کی جو انجمنِ ترقی پسند مصنفین کی ممتاز رُکن تھیں۔ یہ اُن کی بھی دوسری شادی تھی۔لاہور سے مگر کرشن چندر کی محبت مرتے دم تک برقرار رہی۔ وہ تقسیم کے وقت اپنی روح اس شہرِ بے مثل میں ہی چھوڑ گئے تھے۔ انہوں نے احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’لاہور کا ذکر تو کجا اس شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔‘یہ عظیم مصنف آٹھ مارچ 1977 کو ممبئی میں چل بسا مگر اُن کا ادب ہمیشہ زندہ رہے گا۔ جاتے جاتے خواجہ احمد عباس کے مضمون ’کرشن چندر کی کہانی‘ سے اقتباس پیشِ خدمت ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’کرشن چندر نے سینکڑوں کہانیاں لکھی ہیں۔ کشمیر کی سندر وادیوں سے لے کر بمبئی کی گندی چالوں اور ’مہالکشمی کے پل‘ تک اس کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ اس نے ’اکسٹرا گرل‘ کی کہانی بھی لکھی ہے اور ’کالو بھنگی‘ کی بھی۔‘’بنگال کے قحط کی بھی اور ’پانچ روپے کی آزادی‘ کی بھی۔ اس ’غالیچہ‘ کی کہانی بھی جس پر جوانی نے شراب لنڈھائی ہے اور اس ’لال باغ‘ کی کہانی بھی جہاں انسان نے انسان کا خون گرایا۔ پشاور ایکسپریس‘ کی بھیانک کہانی بھی اور ’پورے چاند کی رات‘ کی مدھر پریم بھری کہانی بھی۔ یہاں تک کہ جب وہ دنیا کی ہر چیز کی کہانی لکھ چکا تو اس نے ’کہانی کی کہانی‘ بھی لکھ ڈالی۔ کرشن چندر کا دماغ ایک ایسی آٹومیٹک مشین ہے جس کی پکڑ میں آ کر اس کا ہر تجربہ اور مشاہدہ، اس کا ہر دکھ اور ہر سکھ، اس کا ہر دوست اور دشمن کسی کہانی کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

پنجاب بھر میں دفعہ 144 کا نفاذ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

اب فرش یا گاڑی دھونا بھی مشکل، ہزاروں روپے کا جرمانہ ہو گا

تین دن میں مرغی کا گوشت 26 روپے سستا

اسلام آباد کے امن کو خراب کرنے والے ہر شخص کو گرفتار کرنا ہے، وزیر داخلہ کی پولیس کو ہدایت

اپنا گھر بنانے کے خواہشمند افراد کیلئے بڑی خوشخبری آگئی

زیادہ رقبے پر گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو اربوں روپے مالیت کے انعامات دینے کا فیصلہ

حکومت بلوچستان نے صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی

اسلام آباد کے داخلی راستے بند، اہم سرکاری عمارتوں پر رینجرز تعینات

باجوڑ: دو دھماکوں میں پولیس اہلکار سمیت 2 افراد جاں بحق

ملک میں چاول کی برآمدات میں اضافہ

قانون ہاتھ میں لینے والے کسی بھی شخص کو واپس نہیں جانے دینا، وزیر داخلہ کی پولیس کو ہدایت

کرشن چندر جن کی لاہور سے محبت مرتے تک دم تک برقرار رہی

کرشن چندر جن کی لاہور سے محبت مرتے دم تک برقرار رہی

پی ٹی آئی احتجاج، اسلام آباد میں میٹرو بس سروس بھی بند

لاہور کے تمام داخلی و خارجی راستے بند، کنٹینرز لگا دیے گئے

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی