"میں نے اپنی والدہ سے بار بار پوچھا کہ آخر ہمارا قصور کیا تھا؟ زارا نے ایسا کیا کیا تھا کہ آپ نے اتنا بڑا قدم اٹھایا؟ ہماری ہنستی بستی زندگی کیوں اجاڑ دی؟ لیکن ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، بس یہی کہا کہ سب اچانک ہو گیا، اور اب وہ خود بھی شرمندہ ہیں۔ نہ ماں کو پیسوں کی کمی تھی، نہ بہن کو، پھر آخر یہ سب کیوں کیا؟"
سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں زارا کے قتل کی لرزہ خیز کہانی نے ہر سننے والے کو ہلا کر رکھ دیا۔ شوہر قدیر، جو سعودی عرب سے لوٹ کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی ٹریجڈی کا سامنا کر رہے ہیں، نے اپنی ماں اور بہن کے ہاتھوں اپنی بیوی کے قتل پر دل دہلا دینے والے سوالات اٹھائے۔
قدیر نے اپنی بے بسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خاندان خوشحال تھا، اور انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی ماں اور بہن ایسی سفاک حرکت کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں نے ہمیشہ ماں اور بہن کا خیال رکھا، ہر ضرورت پوری کی، لیکن ان کے دل میں زارا کے لیے اتنی نفرت کیوں تھی، یہ سمجھ سے باہر ہے۔"
زارا کے والد شبیر احمد، جو خود پولیس اہلکار ہیں، نے بتایا کہ ان کی بیٹی ان کی زندگی کا واحد سہارا تھی۔ شادی کے ابتدائی دنوں سے ہی زارا اپنی نندوں کے سخت رویے کا سامنا کر رہی تھی، لیکن کبھی بھی مسئلہ بڑھانے کی اجازت نہیں دی۔ شبیر احمد کے مطابق، "ہم نے ہمیشہ صبر سے کام لیا تاکہ بیٹی کا گھر بستا رہے، لیکن ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ حالات اتنے سنگین ہو جائیں گے۔"
زارا کی ساس اور بڑی نند یاسمین کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ قدیر اب بیوی کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتا تھا۔ یہی حسد ان کے اندر ایک ایسا طوفان لے آیا جس نے انہیں انسانیت کے دائرے سے نکال دیا۔ زارا، جو ایک دیندار خاتون تھیں اور کئی عمرے بھی کر چکی تھیں، ان کی زندگی حسد، جلن، اور نفرت کی آگ میں جھونک دی گئی۔
10 نومبر کی رات، زارا کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ پہلے ان کا سانس بند کیا گیا، پھر ان کی لاش کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ سفاکیت کی انتہا یہ تھی کہ زارا کے چہرے کے نقوش مٹانے کے لیے ان کے سر کو جلایا گیا۔ تمام ثبوت مٹانے کے لیے لاش کے ٹکڑوں کو دھویا گیا اور نالے میں بہا دیا گیا۔ اگلے دن ملزمہ صغراں بے حسی کی انتہا پر تھی کہ وہ وہی چولہا ٹھیک کرانے لے گئی جس پر زارا کا سر جلایا گیا تھا۔
زارا کا جرم شاید صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایسی دنیا میں جی رہی تھیں جہاں محبت اور صبر کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے والد نے مطالبہ کیا کہ ان کی بیٹی کے قاتلوں کو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی اور کی بیٹی کو ایسی بے رحمی کا نشانہ نہ بننا پڑے۔
زارا کے قتل کی یہ دل دہلا دینے والی کہانی ہر اس شخص کے لیے ایک سوال چھوڑ جاتی ہے جو یہ سوچتا ہے کہ نفرت اور حسد انسان کو کس حد تک گرا سکتے ہیں۔