آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ بیانکا جونز اور ہولی باؤلز دنیا گھومنے کے لیے پہلی بار کسی بین الاقوامی سفر پر گئی تھیں۔مغربی ممالک کے کئی نوجوانوں کی طرح انھیں بھی بیک پیکنگ کر کے جنوب مشرقی ایشیا میں سڑک کے ذریعے سفر کرنے سے ایک رومانس سا تھا۔ یہاں کے کھانے، یہ دونوں ہی لوگوں کی مہمان نوازی اور قدرت کے حیرت انگیز نظارے دیکھنے کی بے حد شوقین تھیں۔بیانکا اور ہولی کے فٹ بال کوچ نِک ہیتھ نے بتایا کہ ’انھوں نے سکول اور یونیورسٹی کے بعد بیرون ملک سفر کرنے کے لیے کافی رقم بچائی تھی جیسا کہ ہمارے یہاں بہت سے بچے کرتے ہیں۔‘دونوں سہیلیاں 12 نومبر کو لاؤس پہنچیں اور وہاں ملک کے وسط میں دریا کے کنارے واقع شہر وانگ ویانگ میں ٹھہریں۔وانگ ویانگ میں وہ ایک بین الاقوامی سیاحوں کے لیے مشہور ہاسٹل میں رکیں جہاں مہمانوں کا اکثر خیر مقدم کرنے کے لیے انھیں مفت شراب پیش کی جاتی تھی۔لاؤس میں اپنے ہوسٹل پہنچنے کے چند دنوں بعد دونوں سہیلیاں تھائی لینڈ کے ہسپتالوں میں لائف سپورٹ پر پہنچ گئیں۔تاہم بیانکا کی موت کا اعلان 21 نومبر کو ہوا جبکہ ہولی کی موت اس ایک دن بعد واقع ہوئی۔ ساتھ ہی ایک اور 28 سالہ برطانوی خاتون سیاح سیمون وائٹ کی بھی موت کا اعلان کیا گیا۔ڈنمارک کی دو خواتین، جن کی عمریں 19 اور20 سال تھیں، گزشتہ ہفتے ان کی بھی موت واقع ہو گئی جبکہ ایک امریکی مرد بھی ہلاک ہوا ہے۔ ان میں سے تاحال کسی کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ مزید کتنے لوگ بیمار ہوئے ہیں لیکن بین الاقوامی پولیس کے مطابق ان اموات کی تحقیقات جاری ہیں۔فی الوقت تحقیقات کی زیادہ تر توجہ نانا بیک پیکر نامی ہاسٹل کے جانب مرکوز ہے جہاں مبینہ طور پر کچھ متاثرین قیام پذیر تھے۔ بیانکا اور ہولی نے رات کو باہر جانے سے پہلے وہیں سے مفت شراب پی تھی۔پولیس کو شک ہے کہ کہیں ہاسٹل میں ملنے والی مفت شراب میں میتھانول زہریلی مقدار میں تو شامل نہیں تھا۔ اسی سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے ہاسٹل مینیجر کو پولیس سٹیشن لے جایا گیا ہے۔تاہم ہاسٹل مینیجر نے الزام کی تردید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اُس رات کم از کم 100 دیگر مہمانوں کو بھی وہی مشروبات پیش کی گئی تھیں اور ان کی جانب سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔Getty Imagesدریا کے کنارے شراب خانے جنھیں حکام نے بند کرا دیا تھابیانکا اور ہولی کے فٹ بال کوچ نِک ہیتھ نے ہولی بولز کے خاندان کی جانب سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں لڑکیاں میتھانول کی وجہ سے ہی بیمار پڑی تھیں لیکن ’یہ واقعی کسی کو نہیں معلوم کہ کس جگہ اور کیسے میتھانول ان کے جسم میں داخل ہوئی۔‘معاملے کی تفصیلات جاننے کے لیے بی بی سی نے دیگر بیک پیکرز اور ایک سفارت کار سے علاقے کے بارے میں بات کی۔ہماری رپورٹنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ جس قصبے میں یہ مسافر بیمار پڑے یہ دراصل ایک بدنام زمانہ ’پارٹی ٹاؤن‘ کہلاتا ہے۔ سفارت خانے اور ٹورزم آپریٹرز اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہاں زہریلی شراب عام ہے لیکن سیاح اس بات سے لاعلم دکھائی دیتے ہیں۔بدنام زمانہ پارٹی ٹاؤن کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟وانگ ویانگ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے مشہور ہے۔ قصبہ چونے پتھر کے خوبصورت پہاڑ اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے۔لیکن شہر بطور پارٹی ٹاؤن سیاحوں میں زیادہ مقبول ہے جبکہ پچھلی ایک دہائی سے لاؤس کے حکام قصبے کا یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔یہاں ہاسٹلز میں ایک رات کے لیے بنک بیڈ کے ایک بنک کی 10 ڈالر سے کم قیمت چارج کی جاتی ہے جبکہ بیئر کی ایک بالٹی کی قیمت اس کی آدھی سے بھی کم ہے۔یہاں چرس اور مشروم جیسی منشیات باآسانی میسر ہیں اور کیفے اور ریستوران میں ان کے اشتہارات عام نظر آ رہے ہوتے ہیں۔سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2010 کی دہائی کے اوائل تک وانگ ویانگ قصبے میں ہونے والی ہارڈ کور پارٹیز اور ریور ٹیوبنگ (دریا میں ٹیوب میں بیٹھ کر تیرنا) جیسی سرگرمیوں کی وجہ سے کافی مشہور تھا۔لیکن ان سرگرمیوں میں سیاحوں کے زخمی ہونے یا ان کی موت کی وجہ سے حفاظتی معیارات میں اضافہ کیا گیا تھا۔لیکن جب ان ہی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی سیاح زخمی ہوئے اور کچھ کی موت واقع ہوئی تو یہاں کے ناقص حفاظتی انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے حکام نے اقدامات لیے۔خطے میں ایک مغربی سفارت کار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دریا میں ریور ٹیوبنگ کے دوران ہونے والی اموات سے نمٹنے کے لیے حکام نے دریا کے کنارے شراب خانوں کو بند کر دیا۔ لوگ دریا میں تیرتے ہوئے ان شراب خانوں سے ووڈکا کی بالٹیاں خریدتے تھے۔‘لاؤس کے حکام کا مقصد قصبے کو صرف نوجوانوں اور نشے میں دھت افراد کے لیے ایک مرکز کے بجائے ماحولیاتی سیاحت کے لیے ایک پر کشش جگہ کے طور پر دوبارہ بحال کرنا تھا۔’اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ پچھلی دہائی سے یہاں کافی بدلاؤ بھی آیا ہے۔ یہاں کافی صفائی ہوئی ہے۔ پہلے کے مقابلے یہ جگہ کافی جدید بھی ہو گئی ہے۔‘’لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسی وجہ سے نوجوان مسافر یہ بھول جاتے ہیں کہ اوہ ایک غریب ملک میں ہیں جہاں ضوابط اور حفاظتی تدابیر کی کوئی خاص پیروی نہیں کی جاتی۔‘سفارت کار نے بتایا کہ سفارت خانوں اور ٹورزم آپریٹرز کو میتھانول پوائزننگ کے مسئلے سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔سفارت کار نے نوٹ کیا کہ قونصل خانوں کو باقائدگی سے ایسے کیسز سے نمٹنا پڑ رہا ہے جہاں سیاح ناقص مشروبات کی وجہ سے بیمار ہوئے ہیں۔جعلی شراب کیسے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے اور اس کی شناخت کیسے کی جائے؟انڈیا میں جب لڑکیاں شراب خریدنے نکلیںنوجوانی میں شراب نوشی زیادہ عمر میں شراب نوشی سے زیادہ خطرناک’شراب کتنی بھی کم پی جائے صحت کے لیے محفوظ نہیں‘Getty Imagesریور ٹیوبنگ کرتے ہوئے سیاحجنوب مشرقی ایشیا میتھانول پوائزننگ کے حوالے سے بدترین خطہ سمجھا جاتا ہے۔ سستی شراب تیار کرنے والے مقامی پروڈیوسرز اکثر شراب بنانے کے عمل کے دوران پیدا ہونے والے میتھانول کی زہریلی سطح کو صحیح طریقے سے کم نہیں کرتے ہیں۔ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کے مطابق خطے میں ہر سال اسی وجہ سے ہزاروں اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔لیکن سیاحوں کی زہریلی شراب کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے۔برطانوی بیک پیکر سریشا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ حال ہی میں نانا بیک پیکر میں مقیم تھیں تو انھوں نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ مفت ملنے والی شراب میں کوئی ملاوٹ بھی ہو سکتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ باقی ہاسٹلز کی طرح یہاں بھی روزانہ ’ہیپی آر‘ منایا جاتا ہے۔(’ہیپی آر‘ اس ایک مخصوص مدت کو کہتے ہیں جس میں رستوران الکحل مشروبات کی مختلف ڈیلز اور رعایتی قیمتیں پیش کرتے ہیں۔)سریشا نے بتایا کہ ہیپی آر کے علاوہ یہاں مہمانوں کو شکریہ کے طور پر مقامی ووڈکا کے مفت شاٹس بھی پیش کیے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وانگ ایناگ موج مستی کرنے کے لیے بہترین شہر ہے۔علاقے میں سیاح خبردارGetty Imagesبیک پیکرز پارٹی کرتے ہوئےتاہم حال ہی میں ہونے والی اموات کی خبر کے بعد سے شہر میں موجود سیاح خبردار ہو گئے ہیں اور حفاطتی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔نانا بیک پیکر سے 10 منٹ کی دوری پر ہاسٹل میں مقیم 19 سالہ میکا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اور ان کے دوست اموات کی خبر سے دو دن پہلے شہر پہنچے تھے۔ وہ اب صرف بوتل بند بیئر کا آرڈر دے رہے تھے اور ریور ٹیوبنگ کے لیے جانے پر دوبارہ غور کر رہے ہیں۔ریور ٹیبونگ کی جانب وہ اس لیے بھی راغب ہو رہے تھے کیونکہ اس میں مفت شاٹس پیش کیے جا رہے تھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ چونکہ انھیں اب اس بارے میں علم ہو گیا ہے تو وہ واقعی وہاں نہیں جانا چاہتے۔22 سالہ برطانوی خاتون نتاشا مور نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے موت کی خبر سن کر نانا بیک پیکر میں اپنی بُکنگ کینسل کر دی ہے۔ٹِک ٹاک ویڈیو میں انھوں نے باقی سیاحوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سب کچھ بہت خوفناک ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میں موت کے منھ میں آتے آتے بچی ہوں۔‘نتاشا اور ان کے دوست اموات کے دو دن بعد نانا بیک پیکر ہاسٹل پہنچے تھے اور ’اُس وقت تک بھی واقعے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جا رہی تھی۔ کسی کو کوئی معلومات نہیں تھیں کہ کیا چل رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ انھیں علم تھا کہ کئی سیاحوں نے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ہاسٹل میں جگہ جگہ سیاحوں کو مشروبات کے بارے میں محتاط رہنے کے لیے پوسٹرز لگے ہوئے تھے۔نتاشا نے بتایا کہ وہ کہیں بھی سفر کرتی ہیں تو نہ جانے کتنی مفت مشروبات پی جاتی ہیں لیکن وانگ ویانگ آ کر گذشتہ پانچ دنوں سے انھوں نے صرف بوتل بند شراب پی ہے وہ بھی خود خرید کر۔’ہم بیرون ملک سفر کرنے کے لیے بچت کرتے ہیں اور اس کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ ہمارے لیے باہر سفر کرنا ایک بہادری کا کام ہے لیکن پھر ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔‘نان الکحولِک بیئر، وائن اور دیگر مشروبات صحت کے لیے کتنے فائدہ مند ہیں؟نوجوانی میں شراب نوشی زیادہ عمر میں شراب نوشی سے زیادہ خطرناکشراب پرسکون کرنے کے لیے ہوتی ہے: حقیقت یا فسانہ؟’آٹو بریوری سنڈروم‘: وہ نایاب مرض جس میں جسم خود بخود الکوحل بنا کر انسان کو نشے میں مبتلا کر دیتا ہےجعلی شراب کیسے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے اور اس کی شناخت کیسے کی جائے؟’شراب کتنی بھی کم پی جائے صحت کے لیے محفوظ نہیں‘