’لیاقت سائیں‘: ایک ’لاوارث لاش‘ کی وراثت جو دو شہروں کے بیچ تنازعے کا باعث بنی


آپ نے لوگوں کو گھروں، اراضی اور وراثتی مال و اسباب کے لیے لڑتے تو شاید دیکھا ہی ہو گا لیکن کسی 'لاوارث لاش' کے حصول کے لیے دو خاندانوں نہیں بلکہ دو شہروں کے لوگوں کو آمنے سامنے آتے شاید ہی سُنا ہو گا۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفرآباد کے شہری ’لیاقت سائیں‘ کے نام سے بخوبی واقف ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ گذشتہ کئی دہائیوں سے انھیں شہر کی سڑکوں پر رسی کی مدد سے بڑی سی دیگ گھسیٹے ہوئے متعدد بار دیکھ چکے تھے۔ دیگ گھسیٹنے کی اُن کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔تاہم کم ہی لوگوں کو یہ اندازہ تھا کہ شہریوں کی جانب سے ’سائیں‘ قرار دیے گئے اس شخص کی لاش کا حصول اور تدفین ناصرف سوشل میڈیا پر وائرل ہو گی بلکہ یہ دو شہروں میں تنازعے کا باعث بھی بنے گی۔لیاقت کی نماز جنازہ جمعرات کے روز مظفر آباد میں ادا کی گئی جس میں کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی جس کے بعد انھیں مظفر آباد میں ہی دفنایا گیا۔’لیاقت سائیں‘ کون تھے؟مظفر آباد شہر کی سڑکوں پر لیاقت نیم برہنہ اور میلی کچیلی حالت میں اکثر گھومتے ہوئے پائے جاتے تھے اور اُن سے متعلق مشہور قصوں کی بنیاد پر شہر کے لوگ اُن کا احترام کرتے تھے۔مظفر آباد میں اُن کے اہلخانہ ہونے کے دعویدار افراد کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی طور پر صحتمند نہیں تھے اور اسی لیے انھیں اہلخانہ اور علاقہ مکینوں کی طرف سے 'سائیں' کہہ کر پکارا جاتا تھا۔لیاقت گذشتہ 40 سال سے زائد عرصے سے مظفرآباد شہر کی سڑکوں پر دیگچے گھسیٹتے نظر آتے تھے۔ انھیں دیگ یا دیگچے کے سڑک پر رگڑ کھانے سے پیدا ہونے والی آواز پسند تھی اور وہ اکثر اوقات شہریوں سے نئی دیگ یا دیگچہ خریدنے کر دینے کی فرمائش کرتے تو بہت کم لوگ انھیں منع کر پاتے۔مظفر آباد کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ عید الاضحی سے ایک روز پہلے کہیں غائب ہو گئے اور کسی کو دکھائی نہیں دیے۔اُن کا بھائی ہونے کے دعویدار شخص نے چھ جون کو اُن کی گمشدگی کی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کروائی۔ اُن کے مطابق چونکہ وہ اکثر کئی روز کے لیے غائب ہو جاتے تھے چنانچہ رپورٹ درج کروانے میں تین دن کا انتظار کیا گیا۔اُن کا بھائی ہونے کے دعویدار شخص نے نو جون کو اُن کی گمشدگی کی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کروائی۔ اُن کے مطابق چونکہ لیاقت اکثر اوقات کئی روز کے لیے غائب ہو جاتے تھے چنانچہ رپورٹ درج کروانے میں تین دن کا انتظار کیا گیا۔پولیس کو موصول کردہ اس درخواست میں لیاقت کا حلیہ بتایا گیا ہے اور پولیس کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ چھ جون کو اپنی رہائش گاہ سے غائب ہوئے اور آئندہ تین روز تک ان کو تلاش کیا گیا مگر وہ نہیں مل سکے۔ اس درخواست میں پولیس سے استدعا کی گئی ہے وہ لیاقت کو ڈھونڈنے میں مدد کرے۔تاہم بعد ازاں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے گولڑہ موڑ سے 11 جون کو اُن کی ڈیڈ باڈی ملی جسے اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے سرد خانے میں منتقل کر دیا گیا۔مظفر آباد کے رہائشیوں کے مطابق لیاقت اکثر مقامی افراد کی گاڑیوں میں سوار ہو کر راولپنڈی، اسلام آباد آ جاتے تھے اور پھر اسی طرح ان کی واپسی ہو جاتی تھی۔ہسپتال میں میت کے حصول پر تنازعاسلام آباد اور مظفر آباد کی انتظامیہ کے لیے اس وقت صورتحال پیچیدہ ہو گئی جب اُن کی میّت کے ایک سے زائد دعویدار سامنے آ گئے۔ایک طرف مظفرآباد میں ان کے مبینہ رشتہ دار تھے تو دوسرے جانب پنجاب کے علاقے مری کے کچھ رہائشی تھے جو ان کے رشتہ دار ہونے کے دعویدار تھے۔ اور جب تنازع بڑھا تو ہسپتال انتظامیہ نے کسی بھی دعویدار کو میت دینے سے انکار کر دیا۔معاملہ زیادہ بڑھا اور مقامی عدالت میں پہنچا تو جج نے میت کا ڈی این اے کروا کر اس بنیاد پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تاہم بعدازاں معاملہ ’افہام و تفہیم‘ سے طے پا گیا۔مظفر آباد کے ڈپٹی کمشنر مدثر فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں جب ایک لاوارث میت لائی گئی تو ہسپتال انتظامیہ نے ورثا کی تلاش کے لیے اشتہار دیا جس کے بعد مظفر آباد کے چند رہائشی ان کی میت لینے کے لیے ہسپتال پہنچے۔ تاہم جب میت دی جانے لگی تو اسی وقت مری کے کچھ مقامی افراد بھی وہاں پہنچے اور دعویٰ کیا کہ وہ لیاقت کے رشتہ دار ہیں، جس کے بعد صورتحال متنازع ہو گئی۔‘ڈپٹی کمشنر مدثر فاروق نے بتایا گیا کہ 'پمز ہسپتال میں مظفرآباد اور مری دونوں کے شہری بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے اور اس موقع پر میت چھیننے کی کوشش بھی کی گئی تاہم اس وقت میت کو واپس ہستال میں جمع کروا دیا گیا۔'انھوں نے بتایا کے مظفرآباد انتظامیہ کو معاملے کا علم ہونے پر یہاں سے اسلام آباد میں پولیس اور انتظامیہ سے بات کی گئی۔ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ’مظفر آباد کے رہائشی خاندان نے لیاقت سے متعلق ضروری شناختی دستاویزات کے ساتھ ساتھ ان کی گمشدگی سے متعلق درج کروائی گئی رپورٹ بھی پیش کی، جس کے بعد میت ان کے حوالے کر دی گئی۔‘مدثر فاروق کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ دونوں علاقوں کے لوگ بڑی تعداد میں ہسپتال میں موجود تھے تاہم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اور پولیس کی مدد سے میّت کو ہسپتال کے دوسرے دروازے سے نکالا گیا تاکہ مزید کوئی بدمزگی نہ ہو۔ اس کے بعد میّت کو مری کے بجائے براستہ ایبٹ آباد مظفر آباد لایا گیا۔‘مظفر آباد کے ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ انھیں بتایا گیا ہے کہ مظفر آباد میں تدفین عمل میں آنے کے بعد بھی انھیں اطلاعات ملی ہیں کہ تنازع کسی حد تک برقرار ہے اور انھوں نے انتظامیہ اور پولیس کو کہہ رکھا ہے کہ کسی بدمزگی سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔میت کا ڈی این اے کروانے کا فیصلہلیاقت کا بھائی ہونے کے دعویدار مظفر آباد کے شہری محمد عارف نے صحافی نصیر چوہدری کو بتایا کہ لیاقت سمیت وہ سات بھائی تھے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ لیاقت کے علاوہ ان کے پانچ بھائی وفات پا چکے ہیں اور اب وہ صرف دو بھائی حیات ہیں۔ ’لیاقت نے بچپن گھر میں رہ کر گزارا تاہم گذشتہ 40 سال سے وہ اسی شہر میں دیگچا لے کر پھرتے تھے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’10 جون کو ہمیں انٹرنیٹ پر پوسٹ کیا گیا ایک اشتہار ملا جس پر لیاقت کی تصویر تھی، یہ اشتہار تھانہ شمس کالونی کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ ہم ریکارڈ لے کر پمز ہسپتال پہنچے تو وہاں پر کچھ اور لوگ بھی وراثت کا دعوے کرنے آ گئے۔‘محمد عارف نے بتایا کہ ’ہم نے ان لوگوں کو زندگی میں پہلی بار دیکھا۔ ہم نے اپنا ریکارڈ پیش کیا تو پولیس اور ہسپتال انتظامیہ نے ہمارا ریکارڈ دیکھنے کے بعد ڈیڈباڈی ہمارے حوالے کر دی لیکن دوسرے گروپ نے حملہ کر دیا کہ وارث ہم ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صورتحال دیکھ کر ہم نے ڈیڈ باڈی واپس ہسپتال کے سرد خانے میں منتقل کر دی۔‘مری سے سامنے آنے والے دعویدار لیاقت عباسی اور نزاکت عباسی کا دعویٰ تھا کہ لیاقت اُن کے سگے بھائی ہیں۔ نزاکت عباسی کے وکیل عثمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مؤکل کا دعویٰ ہے کہ لیاقت کا اصل نام محبوب عباسی تھا اور وہ 35 سال پہلے گم ہو گئے تھے۔دونوں خاندانوں کی جانب سے دعوے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد میں مقامی عدالت میں درخواست دی گئی کہ لاش کِس کے حوالے کی جائے۔ مقامی عدالت کی جج نے میت کا ڈی این اے کروانے کا حکم دیا اور فیصلہ کیا کہ ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر لاش ورثا کے حوالے کی جائے۔لیاقت کا بھائی ہونے کے دعویدار مظفر آباد کے شہری محمد عارف نے کہا ’ہم عدالت کے اس فیصلے پر بے فکر تھے کیونکہ ہمارا ریکارڈ درست تھا اور ہمیں ڈی این اے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘تاہم وکیل عثمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دونوں جانب سے اتفاق رائے کیا گیا کہ چونکہ ڈی این اے رپورٹ آنے میں بہت دن لگ جاتے ہیں اس لیے میت کے احترام میں تدفین جلد کی جائے اور ڈی این اے نہ کروایا جائے۔‘وکیل عثمان عباسی کا کہنا تھا کہ ’میرے موکل نے تین شرائط رکھی تھیں کہ لیاقت کا ایک جنازہ مری میں کروایا جائے، دوسرا یہ کہ اُن کی تدفین مظفر آباد میں اُن کی مرضی کے مقام پر کی جائے اور تیسرا قبر کا کتبہ محبوب عباسی کے نام کا ہو۔ تاہم تینوں شرائط نہیں مانی گئیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’لیاقت سے متعلق نادرا میں تو کوئی ریکارڈ نہیں تاہم مظفرآباد میں ان کے لینڈ ریکارڈ، وراثتی دستاویزات اور شجرے میں ان کا نام تھا اس کے علاوہ والدین کی قبروں کے کتبوں پر بھی ان کا نام تھا جو ثبوت کے لیے پیش کیے گئے۔‘وکیل عثمان عباسی نے بتایا کہ ’ہم نے اتقاقِ رائے سے میّت مظفرآباد جانے دی کیونکہ انھوں نے ساری عمر وہاں گزاری تھی۔‘اگرچہ میّت کی تدفین کی جا چکی ہے تاہم ڈی این اے ٹیسٹ نہ کیے جانے کی وجہ سے، بقول وکیل عثمان عباسی، ’یہ تنازع شاید ہمیشہ تنازع ہی رہے گا۔‘پانی کے ذریعے لاش کو دفن کرنےکا ’ماحول دوست‘ طریقہیہودیت سے تائب ہو کر مسلمان ہونے والے صوفی سرمد جن کا ’برہنہ رہنے‘ اور کلمہ پورا نہ پڑھنے‘ پر سر قلم کیا گیاوتایو فقیر، امر جلیل اور خدابرطانیہ میں نئی نسل میت کو غسل دینا کیوں سیکھ رہی ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ.. تل ابیب دھماکوں کی گونج سے لرز اٹھا

ایران کے اسرائیل پر جوابی حملوں میں کم از کم دو افراد ہلاک، دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر حملے جاری رکھنے کا اعلان

ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد قُم کی جمکران مسجد پر سرخ پرچم کیوں لہرایا گیا؟

نومولود افغان بچے کی اجنبی کے ساتھ پشاور پہنچنے کی کہانی: ’ماں بار بار فون کر کے پوچھتی رہی کہ اسے دودھ پلایا ہے؟‘

ہماری تنصیبات کو نشانہ بنایا تو سنگین نتائج ہوں گے، امریکا کی ایران کو دھمکی

کراچی میں اگلے ہفتے کس دن گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے؟ محکمہ موسمیات نے خوشخبری سنا دی

ایرانی حکومت کو اسرائیل پر حملے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا، نیتن یاہو

ایران نے اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر کو بھی نشانہ بنایا، بڑی خبر

اسرائیلی اخبار ہاریٹز کا ایرانی حملوں سے متعلق بڑا دعویٰ

اگلے کچھ دنوں تک بات نہیں کرسکوں گی۔۔ ایئرانڈیا کے تباہ ہونے والے طیارے کی 21 سالہ ایئرہوسٹس کی کہانی

ایران کا اسرائیل پر جوابی بیلسٹک میزائل حملہ: اسرائیل کا شہریوں کو حملوں کی نئی لہر کا انتباہ، تہران پر اسرائیلی حملے جاری

ایران کا اسرائیل پر جوابی بیلسٹک میزائل حملہ: تل ابیب میں متعدد عمارتوں کو نقصان، 40 افراد زخمی

ایران کا اسرائیل پر جوابی بیلسٹک میزائل حملہ: تل ابیب میں متعدد عمارتوں کو نقصان، کم از کم 30 افراد زخمی

ایران کا اسرائیل پر جوابی بیلسٹک میزائل حملہ: تل ابیب میں ہنگامی سائرن کی آوازیں اور عمارتوں کے قریب دھوئیں کے بادل

ایران کا اسرائیل پر جوابی میزائل حملہ: تل ابیب میں ہنگامی سائرن کی آوازیں اور عمارتوں کے قریب دھوئیں کے بادل

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی