
پاکستان سے ہنرمند اور غیرہنر مند افراد چھ دہائیوں سے بیرون ملک روزگار کے حصول کے لیے دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔وزارت اوورسیز ایک عرصے سے بین الاقوامی لیبر مارکیٹ میں پاکستانی ورکرز کے لیے مزید مواقع تلاش کر رہی ہے۔اسی تناظر میں پاکستان نے ملائیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، اور حالیہ برسوں میں رومانیہ، پولینڈ اور ہنگری جیسے یورپی ممالک سے بھی معاہدے کیے مگر ان پر مکمل عمل درآمد کی رفتار سست رہی۔کچھ ممالک میں نجی بھرتی ایجنسیوں کی بدعنوانی، غیرقانونی راستوں سے یورپ جانے کی کوششوں نے نہ صرف انسانی المیے کو جنم دیا بلکہ پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔تاہم اب پاکستان اور بیلاروس کے درمیان ایک معاہدے طے پایا جس کے تحت فوری طور پر ڈیڑھ لاکھ ہنرمند اور نیم ہنرمند پاکستانی ورکرز کو وہاں بھیجا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی اتنی بڑی تعداد میں ورک فورس بیلاروس جا رہی ہے۔وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے چند ماہ قبل بیلاروس کا سرکاری دورہ کیا، اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ بیلاروس اس وقت مختلف صنعتی و زرعی شعبوں میں ورکرز کی شدید قلت کا شکار ہے۔انہوں نے معاملہ بیلاروس کے صدر کے سامنے رکھا۔ بیلاروس کے صدر نے ورکرز کی فراہمی کے لیے پاکستان کی پیشکش کو قبول کیا۔وزارت اوورسیز کے مطابق بیلاروس کے ساتھ طے پانے والا یہ معاہدہ ایک ایسا متبادل راستہ فراہم کرتا ہے جو محفوظ، شفاف اور مکمل طور پر قانونی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (بی ای این او ای) نے اس معاہدے پر عمل کے لیے خصوصی اور جامع ایس او پیز تیار کیے ہیں۔ جن کے ذریعے ورکرز کے مکمل تحفظ، قانونی تقاضوں اور غیرقانونی امیگریشن کی روک تھام کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔اردو نیوز کو دستیاب ان ایس او پیز کے مسودے کے مطابق بیلاروس میں روزگار حاصل کرنے کے خواہش مند ہر پاکستانی ورکر کے لیے لازم ہو گا کہ وہ صرف رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز (او ای پی) کے ذریعے درخواست دے۔ بھرتی سے قبل تمام ملازمتوں، آجر کے مالی حالات اور معاہدہ شدہ شرائط کی تصدیق پاکستان کے سفارت خانے کی جانب سے کی جائے گی تاکہ دھوکہ دہی اور جھوٹے وعدوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔عام طور پر جب بھی کسی نئے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں تو ایجنٹ ان سے لاکھوں روپے کا تقاضا کرتے ہیں تاہم بیلاروس کے لیے کمپنی یا ۤجر کی جانب سے ورکر کو جس تنخواہ کی پیش کیش کی جائے گی اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر اس ورکر سے صرف اس کی دو ماہ کی تنخواہ کے مساوی فیس لے سکے گا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بیلاروس میں ملازمت کے خواہش مند پاکستانی ورکرز پر بہت زیادہ مالی بوجھ بھی نہ پڑے۔پاکستان اور بیلاروس کے درمیان طے پایا کہ فوری طور پر ڈیڑھ لاکھ ہنرمند اور نیم ہنرمند پاکستانی ورکرز کو بیلاروس بھیجا جائے گا (فائل فوٹو: پی ایم او)ان ایس او پیز میں غیرقانونی امیگریش کی روک تھام کے لیے بھی کئی مؤثر اقدامات شامل کیے گئے ہیں۔ ہر ورکر کو حلف نامہ جمع کرانا ہو گا جس میں وہ وعدہ کرے گا کہ وہ بیلاروس میں قیام کے دوران معاہدے کی شرائط کی پابندی کرے گا اور یورپی یونین کے کسی ملک میں غیرقانونی طور پر داخل نہیں ہو گا۔یہ حلف نامہ نادرا سے جاری کردہ فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ (ایف آر سی) پر درج کسی قریبی عزیز کے ہمراہ دستخط شدہ ہوگا تاکہ معاشرتی اور خاندانی دباؤ کی ایک اخلاقی ذمہ داری بھی شامل ہو۔اگر کوئی ورکر معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا یا غائب ہو گا تو نہ صرف اسے بلیک لسٹ کیا جائے گا بلکہ اس کا قومی شناختی کارڈ (شناختی کارڈ) نادرا اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سسٹم میں فلیگ کر دیا جائے گا تاکہ وہ مستقبل میں کسی بھی ملک کے لیے ویزہ یا روزگار نہ حاصل کر سکے۔ورکرز کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے روانگی سے قبل انہیں خصوصی تربیتی سیشنز دیے جائیں گے جن میں بیلاروس کے مقامی قوانین، ثقافتی اصولوں، رہن سہن اور ملازمت کے معاہدوں کی تفصیلات کے بارے میں آگاہی دی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان سفارت خانہ ایک ہیلپ لائن اور واٹس ایپ سپورٹ سروس کے ذریعے ورکرز کے ہر قسم کے مسائل کے فوری حل میں مدد فراہم کرے گا۔سفارت خانہ تمام ورکرز کا ایک ڈیٹا بیس بھی رکھے گا جس میں ان کے معاہدے، آجر، قیام کی مدت اور کسی بھی قسم کی شکایت یا خلاف ورزی کا اندراج ہوگا۔بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے بیلاروس کے ساتھ معاہدے پر عمل کے لیے جامع ایس او پیز تیار کیے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)ورکرز یا ان کے خاندان کی جانب سے اگر کسی آجر یا اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر کے خلاف شکایت درج کرائی جائے تو سفارت خانہ اس کی ابتدائی تحقیق کرے گا اور ایک ماہ کے اندر اندر بیورو آف امیگریشن کو مکمل شواہد کے ساتھ رپورٹ پیش کرے گا تاکہ قانون کے مطابق کارروائی ہو سکے۔یہ نظام ورکرز کے حقوق کی شفاف اور مؤثر انداز میں حفاظت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کو استحصال سے محفوظ رکھا جا سکے۔ڈی جی بیورو آف امیگریشن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان بیرون ملک افرادی قوت کی برآمد کو ایک منظم، قانونی اور انسانی وقار پر مبنی بنیادوں پر استوار کر رہا ہے۔ بیلاروس کی جانب سے پاکستانی ورکرز کو خوش آمدید کہنا اس اعتماد کا مظہر ہے کہ پاکستان کی ورک فورس بین الاقوامی معیارات پر پورا اترتی ہے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔‘ورکرز کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے روانگی سے قبل انہیں خصوصی تربیتی سیشنز دیے جائیں گے (فائل فوٹو: روئٹرز)انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی ورکرز کی بیلاروس میں ملازمتوں سے نہ صرف زرمبادلہ میں اضافے کا باعث بنے گا بلکہ بے روزگار نوجوانوں کو نیا روزگار فراہم کر کے پاکستان کے اندرونی سماجی و معاشی دباؤ کو بھی کم کرے گا۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو مستقبل میں دیگر یورپی اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی اپنایا جا سکتا ہے، جس سے پاکستان کی عالمی سطح پر پوزیشن مزید مستحکم ہو گی۔‘ان ضوابط پر فوری عمل درآمد کے لیے ملک بھر کے پروٹیکٹر آف امیگرنٹس دفاتر، جن میں راولپنڈی، لاہور، کراچی اور دیگر شہروں کے دفاتر شامل ہیں، کو احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ جلد ہی قومی اخبارات اور سرکاری ذرائع سے بھرتی کے اشتہارات جاری کیے جائیں گے۔بیورو آف امیگریشن اس عمل کی مکمل نگرانی کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہر ورکر محفوظ، قانونی طریقے اور وقار کے ساتھ بیرون ملک روانہ ہو۔