یہاں مردے دفن ہیں یا پھر سونا٬ میکسیکو کے پراسرار اہرام جن میں چھپے راز کوئی نہیں جانتا

 
کچھ فاصلے سی دیکھیں تو یہ سرمئی آتش فشاں پتھر سے بنے اہرام اور ان کے گرد دیواریں قدرت کا کرشمہ لگتے ہیں۔
 
وسطی میکسیکو کے سین مگئیل ڈی الینڈے شہر سے 30 میل دور کینیڈا ڈی لا ورجن وادی میں موجود یہ پتھریلی شکلیں اس بنجر علاقے میں کسی پہاڑی سلسلے کی مانند اس طرح گھل مل چکی ہیں کہ یہ اس کا قدرتی حصہ معلوم ہوتی ہیں۔
 
لیکن جیسے جیسے میں ان میں سے سب سے بڑے اہرام کے قریب پہنچا تو مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ یہ انسان کے ہاتھوں سے بنے تھے۔ ایک جیسی سیڑھیاں، جو سخت پتھر کے اندر تراشی گئی تھیں، کسی ماہر معمار کی مدد کے بغیر بنانا ممکن نہ تھا۔
 
دیگر دو نسبتاً چھوٹے اہرام بھی کسی انسانی ہاتھ کا پتہ دے رہے تھے۔ یہ یقینا کسی قدیم تہذیب کی نشانیاں تھیں۔
 
مقامی لوگ بہت عرصے سے اپنے شہر کے باہر موجود ان کھنڈرات کی موجودگی سے آشنا تھے۔ کچھ نے افواہ پھیلائی کہ یہاں مردے دفن ہیں، کچھ نے سونے کی بات کی۔ قبریں لوٹنے والوں نے تو ان کو بارودی مواد سے اڑانے کی کوشش تک کر ڈالی لیکن ان کو کچھ ملا یا نہیں، اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
 
یہ مقام باقی دنیا کے لیے مکمل طور پر انجان رہا جب تک سنہ 2000 کے اوائل میں میکسیکو کے ماہرین آثار قدیمہ نے یہاں کھدائی نہیں کی۔
 
 
مقامی ماہر آثار قدیمہ البرٹ کوفی نے سنہ 2011 میں سیاحوں کو یہاں کا دورہ کروانا شروع کیا۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ یہ ’13 آسمانوں کا گھر‘ ہے جسے سنہ 540 عیسوی میں یہاں کے رہائشیوں نے تعمیر کیا تھا۔
 
انھوں نے سب سے طویل قامت اہرام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پتھر قریبی کان سے نکالا جاتا تھا۔‘ اس اہرام کی چوکور بنیاد تھی اور سیڑھیاں 15 میٹر اونچائی پر پلیٹ فارم تک جا رہی تھیں۔
 
ان کے مطابق دو چھوٹے اہرام، جن میں سے ایک کو ’ہوا کا گھر‘ اور دوسرے کو ’طویل ترین رات کا گھر‘ کہا جاتا ہے، بھی ان ہی پتھروں سے بنائے گئے تھے۔
 
تاہم دو دہائیوں بعد بھی یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ ان کو بنانے والے کون تھے۔ کوفی کہتے ہیں کہ ’یہ اب تک ایک پراسرار جگہ ہے جو ہمیں حیران کرتی رہتی ہے۔ ہمیں نئی معلومات ملتی رہتی ہیں۔‘
 
اب تک یہ طے ہوا کہ 13 جنتوں کا گھر نامی یہ اہرام ایک معبد تھا جو قدیم دور میں ایک اہم کام یعنی وقت بتانے کے لیے مختص تھا۔
 
صدیوں پہلے وقت اور موسم کا حساب رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس وقت کوئی گھڑی یا کلینڈر نہیں ہوتے تھے تو لوگ آسمان دیکھ کر اندازے لگاتے تھے۔
 
ماہر آثار قدیمہ روزانا کویروز سین مگئیل ڈی الینڈے میں ہسپانوی وقت سے پہلے کی فلکیات کے میوزیم کی ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے ان اہرام کی کھدائی کے دوران میکسیکو کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اینتھروپولوجی اور تاریخ داں گبرئیلا زپیڈا کے ساتھ کام کیا تھا۔
 
وہ کہتی ہیں کہ’آج ہم گھڑی اور آئی فون کی مدد سے وقت دیکھتے ہیں، لیکن اس وقت لوگوں کو سورج اور چاند کی مدد لینا پڑتی تھی۔‘
 
روزانا کویروز کے مطابق یہ اہرام ایک قدیم تہذیب نے سورج کی حرکت کے مطابق ایک ایسے آلے کے طور پر تیار کیے جن سے وہ کاشت کاری کے لیے اہم تاریخوں کا اندازہ لگاتے تھے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ’ان کو تعمیر کرنے میں کافی محنت لگی ہو گی۔‘
 
واضح رہے کہ یہ اہرام 1500 سال سے یہاں موجود ہیں۔ لیکن ان کی اپنی کہانی اب وقت کی گردش میں گم ہو چکی ہے کیوں کہ وہ اپنے پیچھے ایسی کوئی تحریر نہیں چھوڑ کر گئے جس سے یہ نشان دہی ہو سکے کہ ان پراسرار اہرام کو تعمیر کرنے والے کون لوگ تھے۔
 
اس کی ایک وجہ 16ویں صدی میں میکسیکو پر ہسپانوی قبضے کے دوران ہونے والی تباہی بھی ہے۔
 
تاہم مقامی ثقافت کے لیے اپنے آباؤ اجداد کے علم اور روایات کو محفوظ رکھنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ ان کی تاریخ کو یا تو بھلا دیا گیا یا پھر اسے درست طریقے سے سمجھا نہیں گیا۔
 
 
اسی لیے روزانا کویروز اور گبرئیلا زپیڈا دو دہائیوں سے اس قدیم تہذیب کے بارے میں زیادہ سے زیادہ حقائق اکھٹا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقام سے دریافت ہونے والے متعدد نوادرات کے باوجود اب تک وہ اس کی تاریخ کی پہیلی مکمل طور پر سلجھا نہیں سکے۔ ہر جواب نئے سوال اٹھا دیتا ہے۔
 
وہ جانتے ہیں کہ یہ قدیم وقت کا حساب رکھنے والے ایک ایسی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے جن کو فلکیات اور فن تعمیر پر عبور حاصل تھا۔ کویروز کا کہنا ہے کہ ’کئی قدیم تہذیبیں مخصوص دیوتاؤں کی پوجا کرتی تھیں لیکن یہ لوگ وقت اور خلا کی تخلیق کی پوجا کرتے تھے۔‘
 
ان اہرام کی تعمیر میں ان لوگوں نے ان اصولوں کی نقل کرنے کی کوشش کی جو ان کے خیال میں دنیا کی تخلیق کرتے ہوئے استعمال ہوئے تھے۔ کویروز نے بتایا کہ ’مقامی تاریخ کے مطابق مقدس ہستیوں نے دنیا، وقت اور خلا تخلیق کی اور وقت بتانے کے لیے سورج انسانوں کے حوالے کیا۔‘
 
’تو انسانوں نے اسی طرح کی تنظیم زمین پر کی۔ پہلے دنیا کے چار کونے بنائے گئے اور پھر پورا سال سورج ان چار کونوں کا چکر لگاتا۔ اس عبادت گاہ میں آپ کو وہی نظر آ رہا ہے جو اس قدیم تہذیب کے خیال میں کائنات بناتے وقت ہوا تھا۔‘
 
13 آسمانوں کے گھر کے چار کونے موسم سرما اور موسم گرما کی انتہا کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ زرعی اعتبار سے دو اہم تاریخوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو چار مارچ اور نو اکتوبر ہیں جب فصل کاشت کی جاتی اور کاٹی جاتی۔ اگر آپ ان چار دنوں میں سے کسی دن اس اہرام کی سیڑھیوں کے سامنے کھڑے ہوں تو سورج اسی دن کے مخصوص کونے کے ساتھ کھڑا دکھائی دے گا۔
 
یہ اہرام تعمیر کرتے وقت ان لوگوں نے معیاری تکنیک اور مواد استعمال کیا۔ انھوں نے آتش فشاں کی راکھ سے بننے والے پتھر قریبی کان سے نکالے اور ان کو اس طرح سے ترتیب دیا کہ ہر پتھر دوسرے کو سہارا دے رہا تھا۔ اس طریقے کو ’ہئیسو‘ کہا جاتا ہے۔
 
آج کی دنیا کے حساب سے شاید یہ اہرام خوش شکل نظر نہیں آتے لیکن کوفی کا کہنا ہے کہ ان کو بنانے والوں نے ان کی خوبصورتی کو یقینی بنانے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور میلوں دور سے لائے گئے لائم سٹون کی مدد سے سیڑھیوں کی آرائش کی گئی۔ ’یہ پتھر لانے میں ہی دو سے تین دن لگے ہوں گے۔‘
 
کویروز کا کہنا ہے کہ ان آرائشی لائم سٹون پتھروں کو جوڑنے کے لیے ایک مقامی کیکٹس کے درخت کے پتوں سے بنی قدرتی گوند کا استعمال کیا گیا۔
 
 
’اگر آپ کیکٹس کے پتوں کو پانی میں رکھ دیں تو ایک دن بعد یہ چپچپے ہو جاتے ہیں اور آپ ان کو مسالے سے ملائیں تو ایک مضبوط گوند بن جاتی ہے۔‘
 
صدیوں پرانا یہ طریقہ آج بھی کچھ مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں۔ کویروز کا کہنا ہے کہ ’ہم قدیم لوگوں کا علم دریافت کر رہے ہیں۔‘
 
ان اہرام کی مزید چھان بین پر ماہرین کو علم ہوا کہ یہاں قیمتی اشیا موجود تھیں۔ لیکن وہ سونا نہیں تھا۔ ان کو یہاں دفن 19 ڈھانچے ملے جن میں مرد اور خواتین کے علاوہ ایک بچے اور کتے کا ڈھانچہ بھی تھا جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
 
ماہرین کا پہلے خیال تھا کہ ان اہرام کو تعمیر کرنے والے اوٹومی لوگ تھے جن کی نسل آج بھی یہاں آباد ہے لیکن اب تک وہ اس مفروضے کی تصدیق کے لیے ڈی این اے تجزیہ نہیں کر سکے۔
 
کویروز کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ڈی این اے بینک میں اب تک جدید دور کا اوٹومی ڈی این اے نہیں ہے اور اس کو حاصل کرنا آسان نہیں۔‘
 
’آپ کو مقامی آبادیوں سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ پھر یہاں مختلف اوٹومی لوگ ہیں۔ اس لیے یہ اتنا آسان نہیں ہے۔‘
 
تاہم 13 آسمانوں کے گھر کے بلند ترین مقام سے ملنے والے ڈھانچے سے ماہرین کو کچھ اشارے ضرور ملے۔ اس ڈھانچے کی ہڈیوں پر نشان بنے تھے جو پہلی نظر میں ایک انسان، شکاری یا جنگجو جیسے لگے۔
 
 
لیکن ڈی این اے کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ کسی عورت کا تھا اور اس سے بھی حیران کن بات یہ تھی کہ یہ ڈھانچہ عمارت سے کہیں زیادہ پرانا تھا۔ یہ مندر تو 540 صدی عیسوی میں بنا تھا لیکن یہ ڈھانچہ 400 قبل از مسیح کا تھا۔
 
’یہ لوگ جہاں جاتے تھے، اس کو ساتھ رکھتے تھے اور کم از کم 950 سال سے اس ڈھانچے کو اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی اہم شخصیت تھی۔ اس لیے جب انھوں نے مندر بنایا تو اس کو سب سے اونچی جگہ دفن کیا۔ لیکن ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ یہ کون تھی اور اتنی خاص کیوں تھی؟‘
 
سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے میں نے احتیاط سے کام لیا کیوں کہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے تھاما جا سکتا۔ میں نے اس پراسرار تہذیب کے بارے میں تصور کرنے کی کوشش کی جس نے اپنے مقدس بزرگ کو یہاں دفنایا تھا۔
 
نئے جینیاتی تجزیے نے اور حیران کیا ہے۔ ڈھانچوں کے جینوم کا تجزیہ مکمل ہوا تو ان میں قدیم میکسیکن قوموں مایا، ناہواز اور تاراہومارا سے مماثلت ظاہر ہوئی۔
 
’تو ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا مقام ہو جہاں پورے میکسیکو سے لوگ اکھٹا ہوتے ہوں۔‘
 
ماہرین آثار قدیمہ کو امید ہے کہ ان کو مذید رازوں سے پردہ اٹھانے کا موقع ملے گا جس کی مدد سے وہ اس پہیلی کو حل کر سکیں گے۔
 
اس معاشرے کی تاریخ کا اتنا کچھ وقت کے ہاتھوں ضائع ہو چکا ہے، وہی وقت جس کا حساب کتاب رکھنے میں ان کے آباؤاجداد ماہر تھے۔
 
کویریز کہتی ہیں کہ ’یہ ہم پر ہمارے آباؤ اجداد کا قرض ہے کہ ان کی کہانی کو تلاش کریں۔ ہم ایسا علم اور حکمت کیسے یاد رکھیں گے اگر ہم ان کی کہانی بار بار نہیں سنائیں گے؟‘
 
Partner Content: BBC Urdu

سائنس / ٹیکنالوجی

وہ 6 آسان طریقے جو 80 سال کی عمر میں بھی آپ کی یادداشت کو جوان رکھیں

تاریخ کے 6 ناکارہ ترین جہاز جو بنے ہی کباڑ خانے کے لیے تھے

دماغ کیسے سیکھتا ہے: امتحانات کی تیاری کے لیے سائنسی نکات

کبھی کبھی ایسا کیوں لگتا ہے کوئی ہمارے آس پاس موجود ہے؟ دلچسپ انکشافات

مزید سائنس / ٹیکنالوجی...