ایسا لگا کوئی میرے پیچھے آ رہا ہے٬ کبھی کبھی ایسا کیوں لگتا ہے کوئی ہمارے آس پاس موجود ہے؟ دلچسپ انکشافات

 
’تم میرے پاس ہوتے ہو گویا۔۔۔ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔‘
 
مومن خان مومن کا یہ شعر نہ جانے کس کے بارے میں تھا لیکن ذہنی تناؤ کے شکار افراد کو کبھی کبھار اپنے آس پاس کسی دوسرے فرد کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ فریب نظر نہیں ہوتا لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
 
یہ 2015 کی بات ہے جب لوک رابرٹسن اکیلے انٹارٹکا کا سفر کر رہے تھے۔ دور دور تک برف کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ 40 دن کے اس سفر میں، جو سکی کے ذریعے کیا جا رہا تھا، انھوں نے قطب جنوبی پہنچنا تھا لیکن دو ہفتے بعد ہی وہ تھک چکے تھے۔
 
ایک دن جب وہ انتہائی مایوس تھے، انھوں نے اپنے بائیں جانب ہرے کھیت دیکھے۔ یہ کوئی عام کھیت نہیں تھے بلکہ سکاٹ لینڈ میں ان کے خاندانی فارم کا منظر تھا۔ صرف کھیت ہی نہیں ان کو وہ گھر اور باغیچہ بھی دکھائی دے رہا تھا جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔
 
انٹارٹیکا کی یخ بستہ ہواؤں اور تنہائی کے درمیان یہ منظر کافی پرسکون محسوس ہو رہا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خوفناک بھی تھا۔
 
جب میری لوک رابرٹسن سے بی بی سی ریڈیو کے پروگرام میں بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ عجیب تھا لیکن ابھی اور عجیب چیزیں ہونا باقی تھیں۔
 
ان کا چارجر کام نہیں کر رہا تھا اس لیے وہ موسیقی نہیں سن سکتے تھے۔ ہوا کے جھکڑ اور برف پر ان کے سکی کے گھسٹنے کی آوازیں ہی ان کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں لیکن ان کے ذہن میں مسلسل ’دی فلنٹ سٹونز‘ کی دھن بج رہی تھی۔
 
اس میں کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ ہم سب کو ایسے تجربات کا موقع ملا ہے جب کسی کارٹون سیریز کی موسیقی یا پسندیدہ دھن ہمارے ذہن میں باقی رہ جاتی ہے اور اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ہمیں سنائی دے رہی ہے۔
 
لیکن لوک رابرٹسن کو دور آسمان پر اس سیریز کے کردار بھی نظر آنا شروع ہو گئے۔
 
جیسے جیسے دن گزرے ان کے غیر مرئی تجربات اور حیران کن ہوتے چلے گئے۔ ایک موقع پر ان کو لگا کوئی ان کا نام لے کر چلا رہا ہے۔ ان کو یقین ہو گیا کہ کوئی ان کے پیچھے آ رہا ہے لیکن وہ جب بھی مڑ کر دیکھتے وہاں کوئی نہیں ہوتا تھا۔ تمام تر کوشش کے باوجود کسی کی موجودگی کا احساس ان کے ذہن سے جا نہیں پایا۔ یہ احساس ان کے ساتھ اس وقت تک رہا جب تک کہ وہ قطب جنوبی نہیں پہنچ گئے۔
 
ایک موقع پر جب وہ تھکاوٹ سے آنکھیں موند کر اپنی سلیج پر بیٹھے تو ان کو ایک اور آواز آئی۔ یہ کسی خاتون کی آواز تھی جس نے ان کو خبردار کیا کہ اس وقت نیند ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور اس نے ان کو اٹھ کر چلتے رہنے کی ترغیب دی۔ اس آواز نے شاید اس موقع پر ان کی زندگی بچا لی لیکن وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔
 
ایسے تجربات دیگر مہم جو بھی سنا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک ارنسٹ شیکلٹن تھے جن کو سنہ 1916 میں جنوبی جارجیا کے سفر کے دوران ایک چوتھے شخص کی موجودگی کا احساس ہوا حالانکہ ان کی ٹیم تین لوگوں پر مشتمل تھی۔
 
ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کوہ پیما بھی ایسے تجربات کا سامنا کر چکے ہیں جن میں کسی نے ان کو مشکل حالات میں زندہ رہنے میں مدد دی۔ اس احساس کو اکثر ’تھرڈ مین فیکٹر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 
 
نفسیات میں اس تجربے کو ’فیلٹ پریزنس‘ (موجودگی کا احساس) کہا جاتا ہے۔ بین الڈیرسن ڈے برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی میں نفسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
 
انھوں نے حال ہی میں ’پریزنس: دی سٹرینج سائنس اینڈ ٹریو سٹوریز آف دی ان سین ادرز‘ کے نام سے کتاب تحریر کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یہ احساس صرف مشکل صورت حال کا سامنا کرنے والوں تک محدود نہیں ہوتا۔
 
آپ کو بھی کبھی یہ احساس ہوا کہ کمرے میں آپ کے ساتھ کوئی موجود ہے لیکن آپ اسے دیکھ نہیں سکتے؟ یہ احساس شدید غم سے گزرنے والے افراد یا پھر ایسے افراد میں جو ’سائیکوسس‘ کا شکار ہوں (ایسی کیفیت جس میں انسان حقیقت سے ربط کھو دیتا ہے) عام ہے۔
 
کچھ لوگ اس تجربے سے اس وقت گزرتے ہیں جب وہ ’سلیپ پیرالسس‘ کا شکار ہوں یعنی اس وقت جب ان کا ذہن تو جاگ چکا ہوتا ہے لیکن ان کا جسم حرکت نہیں کر سکتا۔ ایسے میں اکثر لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ کمرے میں کوئی موجود ہے، یا کوئی ان کی چھاتی پر بیٹھا ہے۔ ایلڈرسن ڈے کے مطابق سلیپ پیرالسس کے دوران ایسے تجربات میں سے نصف نہایت خوفناک ہوتے ہیں۔
 
’فیلٹ پریزنس‘ میں یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی آپ کی ذاتی جگہ میں موجود ہے لیکن ان کی موجودگی کا تعین ناممکن ہوتا ہے۔ یہ تجربہ پانچ حسوں کے ذریعے نہیں کیا جاتا (یعنی چھونے، دیکھنے، سننے، سونگھنے یا چکھنے سے)، اس لیے اسی فریب نظر نہیں کہا جا سکتا لیکن حقیقت میں وہاں کچھ ہوتا بھی نہیں۔
 
یہ سوچ کا وسوسہ بھی نہیں ہوتا نا ہی یہ کسی کا خود سے تصور کرنے جیسا ہوتا ہے۔ لوگ اکثر اس احساس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اتنا مبہم تھا جیسے ہوا میں کچھ ہو۔ یہ احساس ایک ’چھٹی حس‘ جیسا ہوتا ہے جو اس لمحے میں حقیقی معلوم ہوتا ہے۔
 
ایلڈرسن ڈے کہتے ہیں کہ ’یہ فریب نظر کی طرح کھوکھلا نہیں ہوتا اور وسوسے کی طرح ٹھوس بھی نہیں ہوتا۔‘
 
وضاحت کی تلاش میں ایلڈرسن ڈے نفسیاتی اور ٹھوس عوامل کے امتزاج کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ کوہ پیماؤں اور مہم جوؤں کے معاملے میں عین ممکن ہے کہ ایسا تجربہ دماغ میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہو لیکن پھر جان بچانے والے واقعات بھی ہیں۔ کیا ایسے جان لیوا وقتوں میں یہ تجربہ انسانی ذہن کی اختراع ہو سکتا ہے؟
 
 
لوک رابسرٹسن کی اپنی وضاحت یہ ہے کہ مشکل سفر میں ان کا ذہن تنہائی اور مایوسی سے نمٹنے کے لیے خود ساختہ تصاویر بنا رہا تھا جن کی اس وقت میں ان کو ضرورت تھی۔ ایسے ہی ان کے مطابق ان کے ذہن نے ہی وہ آوازیں سنوائیں تاکہ ان کو آگے بڑھنے کی حوصلہ افزائی ملے۔
 
چند لوگ دوسروں کے مقابلے میں اس احساس کا تجربہ زیادہ کرتے ہیں۔ رابرٹسن اور ان کی ٹیم کی تحقیق میں ثابت ہوا کہ خواتین کو یہ تجربہ زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں میں بھی یہ احساس عام ہوتا ہے۔
 
جینیوا کے محققین نے لیبارٹری میں ایک روبوٹ بنایا ہے جو ایک پیچیدہ عمل کے ذریعے انسانی ذہن کو یہ دھوکہ دیتا ہے کہ انسان کے عقب میں کوئی موجود ہے۔ پارکنسن سے متاثرہ افراد میں یہ احساس زیادہ ہوتا ہے۔
 
انسانی دماغ کے ٹیمپورو پارئیٹل جنکشن، انسولا اور فرنٹو پارئیٹل کارٹیکس، کے نیٹ ورک میں (وہ حصے جو حسوں اور جسم کے احساس سے جڑے ہیں) ایک غیر معمولی حرکت دیکھی گئی ہے۔
 
کسی کی موجودگی کے احساس سے جڑے طرح طرح کے واقعات کی وجہ سے ایلڈرسن نے نظریہ پیش کیا ہے کہ اس احساس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کے جسم کی سرحدوں کا تعین کرنے والی حس کھو جاتی ہے۔
 
جیسا رابرٹسن کے ساتھ ہوا، یا جیسا پارکنسن بیماری میں ہوتا ہے، جب انسانی جسم پر شدید دباؤ ہوتا ہے تو ہماری حسوں سے آنے والی معلومات ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی ہے اگرچہ ہم اسے دیکھ نہیں پاتے، چھو نہیں پاتے اور سن نہیں پاتے لیکن اس پورے عمل میں امید کا بھی ایک کردار ہے۔
 
ایک دوسرا نظریہ یہ ہے دماغ کسی ناقابل فہم صورت حال میں خود سے کچھ گھڑ لیتا ہے جسے سائنس میں ’پری ڈکٹیو پروسیسنگ‘ کہتے ہیں۔ ایلڈرسن ڈے کا کہنا ہے کہ دماغ معلومات کی بنا پر ایک تکہ لگا رہا ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
 
ایسے تجربات کا تعلق ہمارے ذاتی احساسات اور نظریات سے بھی ہوتا ہے۔ رابرٹسن کے لیے یہ مددگار ثابت ہوا لیکن کسی کے لیے یہ ایک روحانی تجربہ ہو سکتا ہے اور کسی کے لیے مذہبی، کسی کو فرشتے کی صورت میں اس تجربے کا احساس ہو سکتا ہے تو کسی کو جن بھوتوں کا۔
 
ایلڈرسن ڈے کا کہنا ہے کہ اگر اس احساس کو مکمل طور پر سمجھنا ہے تو اس کے لیے جسم اور ذہن دونوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
 
فی الحال ایسے تجربات پر بات چیت کرنا ان کی پراسراریت کو کم کر سکتا ہے۔ سائیکوسس سے متاثرہ افراد سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا ان کو کوئی آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن کسی کی موجودگی کے احساس کے بارے میں کم ہی سوال کیا جاتا ہے۔ ایلڈرسن ڈے کا ماننا ہے کہ ان احساسات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا ہو گیں اور تبھی ان سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے۔
 
لوک رابرٹسن قطب جنوبی تک پہچننے کی مہم میں کامیاب رہے لیکن جب انھوں نے تحقیقی مرکز کو پہلی بار دیکھا تو ان کو لگا کہ یہ بھی ان کا تخیل ہے حالانکہ وہ اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔
 
Partner Content: BBC Urdu

سائنس / ٹیکنالوجی

وہ 6 آسان طریقے جو 80 سال کی عمر میں بھی آپ کی یادداشت کو جوان رکھیں

تاریخ کے 6 ناکارہ ترین جہاز جو بنے ہی کباڑ خانے کے لیے تھے

دماغ کیسے سیکھتا ہے: امتحانات کی تیاری کے لیے سائنسی نکات

کبھی کبھی ایسا کیوں لگتا ہے کوئی ہمارے آس پاس موجود ہے؟ دلچسپ انکشافات

مزید سائنس / ٹیکنالوجی...