دعا کی ہمیں دوبارہ ملنے کا موقع ملے... 75 سال بعد سکھ بہن کی اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات٬ جدائی اور ملاپ کیسے ہوا؟

 
طویل عرصے سے کھوئے ہوئے بہن بھائی مہندر کور اور عبدالشیخ عزیز انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کی وجہ سے 75 سال کی علیحدگی کے بعد دوبارہ مل گئے ہیں۔

’جب سے ہم ملے ہیں، ہم دوبارہ کب ملیں گے اس کا دھیان رہتا ہے کیونکہ جب سے ہم دوبارہ ملے ہیں ایک دوسرے کی خواہش بڑھ گئی ہے۔‘

یہ الفاظ انڈیا کے پنجاب کے شہر پٹیالہ کی 85 سالہ مہندر کور نے اپنے بھائی عبدالشیخ عزیز سے 75 سال بعد دوبارہ ملنے کی خوشی میں کہے۔ اس کے ساتھ ہی مہندر کور جذباتی اور آبدیدہ ہو گئیں۔

پاکستان کے رہائشی عبدالشیخ عزیز نے کہا کہ میں نے محسوس کیا کہ میرا پورا خاندان بکھر گیا ہے۔ میرے والدین، بہنیں اور بھائی سب الگ ہو گئے اور میں اکیلا رہ گیا لیکن میں نے خود کو زندہ پایا۔

گذشتہ تین سال سے فون پر رابطے میں رہنے کے باوجود مہندر کور اور ان کے بھائی عبدالشیخ نے آزادی کے بعد پہلی بار 19 مئی کو کرتار پور راہداری پر اپنے اہلخانہ سے ملاقات کی۔

1947 میں ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے تقریباً 1.2 کروڑ لوگ پناہ گزین بنے اور 5 سے 10 لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے۔

مہندر کور اور عبدالشیخ عزیز کے اہلخانہ نے بتایا کہ تقسیم کے وقت مہندر کور کے خاندان میں ان کی دادی بھانی، والدہ بھگونت کور، ان کے تین بھائی عطار سنگھ، ہربنس سنگھ، ارجن سنگھ اور ان کی بڑی بہن جسونت کور شامل تھیں۔

بی بی سی پنجابی نے پٹیالہ (انڈیا) میں مہندر کور سے ان کے گھر پر بات کی اور بی بی سی اردو نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع مظفرآباد کے گاؤں کٹلی میں عبدالشیخ عزیز سے بات کی۔
 
 
بہن بھائیوں کا ملاپ کیسے ممکن ہوا؟
مہندر کور کے بیٹے ہرجیت سنگھ نے کہا کہ ان کی والدہ ہمیشہ پاکستان میں اپنے پیچھے رہ جانے والے خاندان کو یاد کر کے روتی تھیں۔

وہ ہمیں کہتی تھیں ’اگر میرے خاندان کا کوئی فرد پاکستان میں رہ رہا ہے تو ہمیں اسے ڈھونڈ لینا چاہیے۔‘

ہرجیت کا کہنا ہے کہ ’میں نے بھی اپنی والدہ کے درد کو محسوس کیا اور پھر پاکستان میں اپنے خاندان کے رکن کی تلاش شروع کردی۔‘

ہرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ دلی پولیس میں کام کر چکے ہیں اور انھیں راجستھان کے ضلع گنگا نگر سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ہرپال سنگھ سوڈان کے بارے میں پتا چلا جس نے سوڈان کی تقسیم کے دوران الگ ہونے والے کچھ لوگوں کا دوبارہ ملاپ ممکن بنایا۔

ہرجیت سنگھ کا مزید کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی والدہ کا ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کیا، جس میں انھوں نے اپنے گاؤں اور خاندان کی بنیادی تفصیلات بتائی تھیں۔’اس ویڈیو میں والدہ نے بتایا کہ میرا ایک بھائی ارجن سنگھ تھا اور ہمارے گاؤں کا نام کٹلی تھا جو کہ مظفرآباد میں ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے دو اور بھائی ہیں، عطر سنگھ اور ہربنس سنگھ اور کچھ اور تفصیلات بتائیں۔

ہرجیت سنگھ نے اس ویڈیو کو ایڈوکیٹ ہرپال سنگھ کے ساتھ دسمبر 2019 میں شیئر کیا۔

ہرپال سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا خاندان بھی تقسیم کا شکار ہوا اور خاندان کے کچھ افراد کھو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مہندر کور کی ویڈیو پاکستان میں ان کے دور کے رشتہ دار عمران خان کے ساتھ شیئر کی گئی تھی، جن کے پاس تقسیم سے متاثرہ خاندانوں کے بارے میں اہم معلومات ہیں۔

ہرپال سنگھ نے مزید کہا کہ وہ جنوری 2020 میں عبدالشیخ عزیز عرف ارجن سنگھ کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے۔

عبدالعزیز کے بیٹے بشارت عزیز نے بتایا کہ جب عمران خان میرے والد کے پاس آئے اور انھیں مہندر کور کا ویڈیو پیغام دکھایا تو میرے والد نے فوراً اپنی بہن کا چہرہ اور آواز پہچان لی۔

مہندر کور کے بیٹے ہرجیت سنگھ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ 13 جنوری 2020 کو ہمارے خاندان میں شادی کی تقریب تھی جب ہمیں وکیل ہرپال سنگھ کا فون آیا کہ میرے ماموں مل گئے ہیں۔

ہرجیت سنگھ نے کہا ’اس کے بعد ہم نے ملنے کا فیصلہ کیا اور واحد مناسب جگہ گردوارہ دربار صاحب، کرتارپور تھی۔‘

عبدالعزیز کے بیٹے بشارت عزیز نے کہا کہ انھوں نے کوشش کی ہے کہ جلد از جلد اس ملاقات کا اہتمام کیا جائے کیونکہ بھائی اور بہن دونوں بوڑھے ہیں۔

ہرجیت نے کہا کہ ’ہمارے خاندان کے بہت سے افراد کے پاس پاسپورٹ نہیں تھے، خاص طور پر میری والدہ، اس لیے ہم نے نئے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی۔‘

’کرتارپور راہداری کورونا وبا کی وجہ سے بند ہوئی، پھر میری والدہ 2022 میں شدید بیمار ہو گئیں، جس کی وجہ سے دوبارہ ملاپ میں تاخیر ہوئی لیکن بالآخر مئی میں ملاقات ممکن ہوئی۔‘

مہندر کور کے دوسرے بیٹے ہربنس سنگھ نے بتایا کہ ان کے خاندان کی ایک جاننے والی خاتون شیلا، جو دو دہائیاں قبل پاکستان سے انڈیا آئی تھی، انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ہمارے چھوٹے ماموں ابھی زندہ ہیں اور راولپنڈی میں رہتے ہیں۔

ہربنس سنگھ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے 2004 میں راولپنڈی کے شیخ محلہ کو اردو میں لکھے گئے دو خط بھیجے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اس سے ہماری والدہ بہت پریشان ہوئیں لیکن انھوں نے اپنے ماموں کا پتا لگانے کی کوششیں جاری رکھیں۔‘
 

بہن بھائی جدا کیسے ہوئے؟
عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ ’تقسیم کے وقت فسادات کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ اپنے گاؤں کٹلی کے سکھ اپنی جان بچانے کے لیے جنگل گئے تھے۔ انھوں نے بھاگنے کے لیے اپنی دادی کے ساتھ دریا کا پل عبور کیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھیں مظفر آباد میں ہونے والی فائرنگ اور اس وقت کے بازار میں لگنے والی آگ اب بھی یاد ہے اور وہ اپنی دادی اور اپنی دو بہنوں کے ساتھ انڈیا روانہ ہو گئے۔

عبدالعزیز نے بتایا کہ جب وہ اپنی بڑی بہن جسونت کور کے ساتھ پناہ گزینوں کے ایک گروپ میں سفر کر رہے تھے تو کسی وجہ سے وہ اور ان کی بہن آگے بھاگنے لگے، جس کی وجہ سے وہ اپنی دادی اور چھوٹی بہن مہندر کور سے الگ ہو گئے۔

عبدالعزیز اس وقت 5 سال کے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’دادی بھانی نے میرے بڑے بھائیوں عطار سنگھ اور ہربنس سنگھ سے کہا کہ وہ اپنی ماں کو گاؤں کٹلی سے لے آئیں تاکہ وہ اپنی جان بچا سکیں۔‘

’تاہم، جب عطار سنگھ، ہربنس سنگھ اور ان کی ماں کبھی واپس نہیں آئے، تو یہ سمجھا گیا کہ انھیں ہجوم نے مار دیا ہے۔‘

عبدالعزیز کے بیٹے بشارت عزیز نے بتایا کہ ان کے والد اور ان کی بڑی بہن جسونت کور کو ان کے ایک بھائی نے بچایا اور سید خاندان کے ساتھ چلے گئے۔

ادھر سید خاندان کے ایک بھائی نے عبدالعزیز کو رکھا ہوا تھا اور ان کی بڑی بہن کو دوسرے بھائی نے رکھا ہوا تھا۔

بشارت کا مزید کہنا ہے کہ ان کے والد کو اپنی بہن سے کھلے عام ملنے کی اجازت نہیں تھی، حالانکہ کبھی کبھی میرے والد کی بہن اپنے بھائی سے ملنے جاتی تھی۔

’ایک بار میرے والد کی بہن ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک ان سے ملنے نہیں آئیں اور بعد میں پتا چلا کہ وہ کچھ دن پہلے انتقال کر گئیں ہیں، میرے والد افسوسناک خبر سن کر بہت روئے۔‘

مہندر کور کہتی ہیں کہ ’میں اور میرے دو بہن بھائی جسونت کور اور ارجن سنگھ اپنی دادی کے ساتھ ایک پناہ گزین گروپ میں انڈیا آ رہے تھے۔ ہم کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں داخل ہوئے اور کانگڑا (اب ہماچل پردیش) شہر میں ایک پناہ گزین کیمپ میں پہنچے۔میری دادی کانگڑہ پناہ گزین کیمپ میں فوت ہوئیں تو میرے چچا جو کہ پولیس میں تھے، انھوں نے مجھے بچایا۔‘

مہندر کور مزید کہتی ہیں، ’میں نے اپنے بھائی کے بارے میں جاننے کی بہت کوشش کی لیکن سب بے سود رہا۔‘
 

عبدالشیخ عزیز نے سید خاندان کے ساتھ 33 سال گزارے، ان کے گھر اور کاروبار میں کام کیا۔ بالآخر ان کی شادی ہو گئی اور وہ راولپنڈی منتقل ہو گئے۔

عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے پورے خاندان کو کھونے کے بعد دوبارہ زندگی شروع کرنے کے لیے بہت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔

کانگڑا میں پناہ گزین کیمپ کے بعد مہندر کور شروع میں اپنے چچا کے ساتھ بھوپال چلی گئیں اور پھر پٹیالہ میں آباد ہو گئیں۔ یہیں وہ پلی بڑھیں اور شادی کر لی۔

تقسیم کے دوران مہندر اور عبدالعزیز کی علیحدگی کے بعد، انھیں جذباتی درد کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے لیے ایک نئی زندگی شروع کرنے میں کامیاب رہے۔

تین سال تک موبائل فون پر بات چیت ہوتی رہی
گزشتہ تین سال سے، مہندر اور عبدالعزیز فون کے ذریعے رابطے میں رہے۔ جنوری 2020 میں پہلی بار کال کی گئی اور پھر روزانہ ویڈیو کالز کرتے تھے۔

ملاقات کے بعد مہندر اور عبدالعزیز نہ صرف مختلف مذہب رکھتے تھے بلکہ مختلف زبانیں بھی بولتے تھے، عبدالعزیز کا خاندان اردو بولتا تھا اور مہندر کور کا خاندان پنجابی بولتا تھا۔

عبدالعزیز 75 سال بعد اپنی بہن مہندر کور کے ساتھ دوبارہ ملنے پر بہت خوش تھے۔

عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ان کی بات چیت شروع میں فون پر ہوئی اور پھر میری بہن نے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی لیکن کووڈ 19 کی وبا کے پھیلاؤ نے ان کے دوبارہ ملنے کے منصوبے میں خلل ڈالا اور بالآخر کرتار پور راہداری میں دوبارہ ملاقات ہوئی۔

مہندر کور نے کہا کہ ’میں سنہ 2022 میں بیمار پڑ گئی تھی اور میرا بھائی ہر روز مجھے فون کر کے میری طبیعت پوچھتا تھا۔ اپنی بیماری کے دوران میں نے بھی دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ مجھے اپنے چھوٹے بھائی سے دوبارہ ملنے کا موقع ملے۔‘

مہندر کور کا کہنا ہے کہ دوبارہ ملاپ کے بعد میرے اور میرے بھائی کے درمیان رشتہ مزید مضبوط ہو گیا اور اب میں اگلی ملاقات کی منتظر ہوں۔

کرتارپور راہداری میں دوبارہ ملنے کے موقع پر، مہندر اور ان کے بھائی عبدالعزیز نے اپنے اپنے خاندانوں اور زندگی کے چیلنجوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے تین سے چار گھنٹے گزارے۔

مہندر کور کا کہنا ہے کہ انھیں کٹلی گاؤں میں اپنے بھائی کے ساتھ گھر میں بچپن کے لمحات یاد آئے حالانکہ تقسیم کے دوران ان کی کم عمری کی وجہ سے ان کی بہت سی یادیں دھندلا چکی ہیں۔

 

خاندانوں کے دوبارہ ملاپ کا تجربہ کیسا رہا؟
ہرجیت سنگھ اور بشارت عزیز 75 سال کے وقفے کے بعد اپنے نئے رشتہ داروں سے مل کر خوش ہیں۔

بشارت نے کہا کہ مذہبی اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان کا تعلق خون سے ہے۔

مہندر کی پوتی جسلین نے کہا کہ وہ اپنے نئے بہن بھائیوں سے ملنے کے لیے بہت پرجوش ہیں اور یہ ایک جذباتی تجربہ تھا۔ ’میری دادی ہمیں ہر وقت تقسیم کی کہانیاں سناتی تھیں۔‘

جسلین کا کہنا ہے کہ ’اس ملاپ نے تین نسلوں کو اکٹھا کیا۔ اپنی پہلی ملاقات کے دوران ہم نے اپنی ذاتی زندگی، موسیقی اور دیگر مختلف موضوعات پر بات کی۔‘

عبدالعزیز اور مہندر اپنی زندگی کے بقیہ برسوں میں زیادہ سے زیادہ وقت ایک ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کے اہلخانہ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفر میں آسانی پیدا کرنے کی اپیل کی ہے۔

عبدالعزیز نے کہا کہ ’میں حکومت سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ براہ کرم ہمیں آسان طریقے سے ویزا فراہم کریں تاکہ ہم آسانی سے انڈیا کا سفر کر سکیں۔ ہم صرف پیار بانٹنا چاہتے ہیں، ہم اور کیا کر سکتے ہیں؟‘

مہندر کور نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ’میرا بھائی عبدالعزیز انڈیا آئے اور ہم ایک ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں۔‘

عبدالعزیز کے بیٹے بشارت نے کہا کہ ’میں تجویز کروں گا کہ حکومت ایک بین ملکی بس سروس دوبارہ شروع کرے تاکہ ان کے والد کی طرح مسافر آسانی سے سفر کر سکیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu

معاشرہ اور ثقافت

جرمن باقی دنیا سے مختلف کیسے ہیں؟ دلچسپ حقائق جو اس قوم کو منفرد بناتے ہیں

کچھ ایسے اصول جو انگریزوں کے راز کھول ڈالیں

بچے کے ہاتھ میں مہنگی چیز دیکھیں تو۔۔۔ اپنے بچے کا تحفظ چاہتے ہیں تو چند کام خود کریں

6 ٹپس جو خریداری کے دوران آپ کے ہزاروں روپے بچا سکتی ہیں

مزید معاشرہ اور ثقافت...