پہلے جانور باپ بھائی مل کر ذبح کرتے تھے لیکن اب... ماضی کی عید کی چند رونقیں جو آج کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں

 
عید جہاں خوشی کا پیغام لاتی ہے وہیں انسان کو رب کائنات کا شکر بجا لانے کا موقع بھی دیتی ہے ، عید کے روز ہر سو خوشیوں کی مہکار ہوتی ہے، ننھے منے بچوں کا شورو غل، حنائی ہاتھوں سے بنے پکوانوں کی خوشبو اور گلیوں محلوں میں میلے ٹھیلوں کا اہتمام اس دن کی رونق کو مزید بڑھا دیتا ہے-لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب ملک میں عید کے رنگ بدلتے جارہے ہیں اور ماضی اور آج کی عیدوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ آئیے ان چند چیزوں کا جائزہ لیں جن سے ہماری ماضی کے بیشمار یادیں جڑی ہیں۔

کئی دن پہلے جانور لاتے تھے
ماضی میں عید قرباں کے موقع پر لوگ کئی کئی ہفتے قبل ہی جانور خریدار کر لاتے اور راتوں کو جاگ کر نہ صرف اس کی پہرہ داری کرتے بلکہ اس کی خدمت میں بھی کوئی کمی نہ چھوڑتے- رات کی پہرہ داری کے بہانے محلے داروں اور دوستوں سے گپ شپ کا موقع بھی ملتا- اگرچہ بیشتر گھرانے اب بھی ایسے موجود ہیں لیکن لوگوں کی بڑی تعداد آج کے دور میں وقت کی کمی٬ برسات اور بیماریوں کے ڈر کی وجہ سے عید سے نزدیک جبکہ اکثر لوگ تو عید کے روز بھی جانور خرید کر لاتے ہیں جن کا مقصد صرف قربانی کا فرض پورا کرنا ہوتا ہے۔
 
 
اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے تھے
ماضی میں عید پر جانور باپ بھائی اور بھتیجے بھانجے یعنی قربانی بھی گھر کے مرد خود کرتے تھے لیکن آج قصائی کا رواج عام ہوچکا ہے اور ہر کوئی قصائی کے انتظام اور انتظار میں گھنٹوں بیٹھا نظر آتا ہے۔ لیکن گھر کے مرد خود جانور ذبح کرنے سے ہچکچاتے ہیں لیکن پہلے باپ، بیٹے اور بھائی بھتیجے مل کر قربانی کرتے تھے جس سے قربانی کا حقیقی مفہوم بھی واضح ہوتا تھا لیکن آج یہ روایت بھی شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتی تھی۔

جانور خریدنے کے لیے سب کا ساتھ جانا
ماضی کی عیدوں پر جانور کی خریداری بھی ایک دلچسپ کام ہوتا تھا، سب بھائی، بچے اور اکثر تو گھر کی خواتین بھی جانور لینے کیلئے ساتھ جایا کرتی تھیں، ان دنوں امن و امان کی خراب صورتحال اور مہنگائی کی وجہ سے قربانی بھی ایک مشکل امر بن گیا ہے اور امسال لوگوں کی جانب سے اجتماعی قربانیوں میں حصہ لینے کا رجحان زیادہ دیکھا جارہا ہے۔

خواتین سے پوچھ کر گوشت بنوایا جاتا تھا
عید قرباں کے موقع پر خواتین کیلئے کھانے بنانا بھی ایک مزیدار مرحلہ ہوتا ہے، قربانی کا جانور ذبح ہوتے ہی کلیجی بنانے کا شور غل شروع ہوجاتاہے جبکہ مختلف پکوان بنانے کیلئے خاص طور پر خواتین سے پوچھ کر گوشت بنوایا جاتا تھا تاہم اب اجتماعی قربانی کی وجہ سے یہ رجحان بھی کم ہوتا جارہا ہے۔
 

روٹھوں کو منانا
عید پر روٹھوں کو منانا ایک خاص روایت سمجھی جاتی تھی اور جو پہل کرتا اس کو سب سے زیادہ عزت ملتی تھی- لیکن آج گھر میں ہمارے بہن بھائی یا والدین ہم سے ناراض ہوں تو بھی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور ہم کسی کو منانا تو دور، بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ دوستوں کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے کا رواج بھی کم ہوچکا ہے۔

معاشرہ اور ثقافت

ماضی کی عید کی چند رونقیں جو آج کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں

پاکستانی مرد کا سعودی خاتون سے شادی کے لیے 8 شرائط پوری کرنا ضروری

یورپ کا خواب دیکھنے والے بیٹے کی واپسی کے لیے باپ کو 50 لاکھ دینے پڑے

مضبوط اور کامیاب شادی چاہتے ہیں تو 6 عادتیں چھوڑ دیں زندگی جنت بن جائے گی

مزید معاشرہ اور ثقافت...