کیا اب ہمارا سمارٹ فون واقعی اتنا مضبوط ہے کہ اس پر سکرین پروٹیکٹر یا کیس لگانے کی ضرورت نہیں


BBCآج کل اس بات پر کافی بحث جاری ہے کہ فون کو بغیر کور کے رکھنا کچھ لوگوں کے لیے ایک نیا سٹیٹس سمبل بن چکا ہے اور اس انداز کو وقار اور خود اعتمادی کی علامت بھی سمجھا جا رہا ہےکچھ ماہ پہلے میں ایک نیا آئی فون خریدنے کی غرض سے ایپل سٹور میں گیا۔ کافی دیر تک مختلف ماڈلز کا جائزہ لینے کے بعد میں نے ایک فون کا انتخاب کیا۔ اُس سٹور میں موجود ایک خوش مزاج سیلز پرسن نے مجھے بتایا کہ اس فون کی قیمت 1999 ڈالرز ہے۔یہ قیمت سُن کر میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ لگ بھگ اتنی ہی رقم ہے جتنا میں اپنے گھر کا ایک ماہ کا کرایہ ادا کرتا ہوں۔ میری یہ بات سُن وہ بھی ہنس پڑا اور کہا کہ شاید یہ بے وقوفی ہے (یعنی ایک موبائل فون کے لیے اتنی زیادہ رقم خرچ کرنا)۔پھر اُس نے کہا کہ چلیے اب فون کو ٹوٹنے اور نقصان پہنچنے محفوظ رکھنے کے لیے کیسز بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا۔لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ جیسے جیسے موبائل فون کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، کچھ لوگ جو بظاہر سمجھ دار صارفین لگتے ہیں ایک بالکل مختلف راستہ اپنا رہے ہیں۔ وہ اپنے فونز بغیر کسی کور یا سکرین پروٹیکٹر کے استعمال کر رہے ہیں۔ مہنگے فون کی حفاظت کے لیے نہ کوئی پروٹیکٹر نہ کور، یعنی کچھ بھی نہیں۔میں خود بھی ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں۔ اُن کے فون چمکدار ہوتے ہیں، ٹائٹینیم فریم اور نفاست سے تیار کردہ سکرین پوری شان سے نمایاں ہوتے ہیں۔ اور ایسے افراد جو موبائل پر کسی کور یا سکرین پروٹیکٹر کا استعمال نہیں کرتے وہ بے حد خوش اور اس فکر سے آزاد بھی دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں ان کا موبائل فون گِرنے کی صورت میں ٹوٹ نہ جائے۔ تو کیا یہ سب صرف میرا وہم ہے جس کے باعث میں پروٹیکٹر اور کیسنگ کا استعمال کر رہا ہوں؟کیا صرف میرے اندر موجود خوف مجھے اُس خوشی کو حاصل کرنے سے روک رہا ہے جو موبائل پر کیسنگ یا سکرین پروٹیکٹر نہ لگانے کی صورت میں ملتی ہے۔چند ہفتے بعد میرے ایک ایسے ہی دوست نے، جو بڑے فخر سے اپنے مہنگے فون کو بنا کسی پروٹیکٹر کے رکھتا ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے اپنا آئی فون پکڑایا کہ ’یار بس زرا ہاتھ میں لے کر تو دیکھو کہ یہ کیسا لگتا ہے۔‘بے شک بغیر حفاظتی کور کے فون کہیں زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا اور بنا کیسنگ اور پروٹیکٹر کے اسے ہاتھ میں پکڑنے کا احساس بھی خوشگوار تھا۔پھر اس نے کہا کہ ’اب فون زیادہ مضبوط بنائے جاتے ہیں۔ میرا فون اکثر گرتا رہتا ہے۔ لیکن کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔‘ اس گفتگو کے بعد جب میں نے موبائل فون کی سکرین یا گلاس (شیشہ) بنانے والی کمپنیوں، پروٹیکٹر کے بغیر فون استعمال کرنے والوں اور متفرق ایسے لوگوں سے بات کی جنھیں جان بوجھ کر فونز کو نقصان پہنچانے کے عوض پیسے ملتے ہیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میرا وہ دوست درست ہی کہہ رہا تھا۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آج کا سمارٹ فون اپنے پچھلے ماڈلز کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ پھر بھی میرے زیادہ تر جاننے والے اب بھی فون کو کیس اور سکرین پروٹیکٹر کے ساتھ اضافی تحفظ دیتے ہیں۔تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ سب پاگل ہیں جو کوئی حفاظتی اقدام نہیں کرتے یا میں؟میں نے خود ہی اس کا کھوج لگانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے گھر پہنچ کر اپنے فون سے کیس اتار کر دراز میں رکھا اور خود سے عہد کیا کہ پورا مہینہ بغیر فون کے کور کے گزاروں گا۔ پسینے، دھول اور خطرات کی پروا کیے بغیر۔۔۔میں نے اپنے ایڈیٹر کو اس پر ایک مضمون کا آئیڈیا پیش کیا۔ انھیں یہ خیال پسند آیا، لیکن اساتھ ہی انھوں نے وارننگ دی کہ اگر یہ تجربہ ناکام ہو گیا تو بی بی سی میرے فون کو پہنچنے والے نقصان کو بھرنے کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔یاخدا مجھ پر رحم فرمانا۔گوریلا گلاس سے بنی سکرینآج کل اس بات پر کافی بحث جاری ہے کہ فون کو بغیر کور کے رکھنا کچھ لوگوں کے لیے ایک نیا سٹیٹس سمبل بن چکا ہے اور اس انداز کو وقار اور خود اعتمادی کی علامت بھی سمجھا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر جب میں ٹیکنالوجی کی فیلڈ سے تعلق رکھنے والے اعلی عہدیداروں اور بڑے کاروباری حضرات کا انٹرویو کرتا ہوں تو اُن کے فونز پر پروٹیکٹر اور کیسنگ شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے۔ ہم نے ’بلاسٹ ریڈیو‘ کے سی ای او یوسف علی سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’جب آپ بغیر کیس کے فون رکھتے ہیں تو آپ گویا بنا الفاظ کے سب کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ’(نقصان پہنچنے کی صورت میں) میں اسے دوبارہ بھی خرید سکتا ہوں۔‘لیکن میرے لیے یہ کسی دکھاوے یا نمائش کی بات نہیں ہے کیونکہ میں اس وقت سے اپنا فون بنا پروٹیکٹر کے رکھ رہا ہوں جب میں نے اپنا پہلا سٹارٹ اپ بھی شروع نہیں کیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہزار ڈالر کی ایک لگژری ڈیوائس، جس کی پہچان اس کا خاص ڈیزائن ہے، آپ سارا دن ایک 30 ڈالر کے پلاسٹک کیس میں لپیٹ کر رکھے رہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے صوفے کے مہنگے کپڑے کو بچانے کے لیے اس پر سستا سا کور چڑھا دیں۔ میرے پاس مہنگی پینٹسں بھی ہیں تو کیا مجھے اُن پر بھی ایک اور پینٹ پہن لینی چاہیے تاکہ قیمتی پینٹس محفوظ رہیں؟ تو پھر یہ سلسلہ کہیں رُک بھی پائے گا؟سچ کہوں تو فون کو بغیر کور کے استعمال کرنے کا میرا پہلا ہفتہ خاصا خوش کن تھا۔یہ خطرے سے کھیلنے کی شاید ایک کمزور سی کوشش تھی لیکن بہرحال ایک دلچسپ تجربہ ضرور تھا۔لیکن فیشن آتے جاتے رہتے ہیں۔ مجھے رجحانات نہیں، حقائق چاہییں اور وہ بھی اتنے ٹھوس جتنی وہ زمین ہے جس پر میرا فون گرنے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔تو بات سچ ہے کہ اب فون کیس کا استعمال اتنا ضروری نہیں رہا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ قسمت آزمانا چاہتے ہیں؟ اب ذرا غور کریں کہ اگر تو آپ یہ مضمون موبائل فون پر پڑھ رہے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ اپنے فون پر نصب گوریلا گلاس سے بنی سکرین کے ذریعے اسے پڑھ رہے ہوں۔ جی ہاں یہ ایک پیٹنٹ اور دھچکا برداشت کرنے والی جدید ٹیکنالوجی ہے جو ’کارننگ‘ نامی کمپنی بناتی ہے۔تقریباً تمام بڑے موبائل برانڈز مثلاً ایپل، گوگل، ہواوے اور سام سنگ اپنی سکرینز میں گوریلا گلاس یا ’کارننگ‘ کمپنی ہی کی کوئی اور پراڈکٹ استعمال کرتے ہیں۔البتہ پرانے فونز یا کم قیمت والے ماڈلز میں ایسا نہیں ہوتا۔ تاہم عمومی طور پر دیکھا جائے تو ’کارننگ‘ نے مارکیٹ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔’کارننگ‘ میں گوریلا گلاس کی ٹیکنالوجی کی ڈائریکٹر لوری ہیملٹن نے گوریلا گلاس بنانے کی ٹیکنالوجی پر تفصیل سے بات کی۔ اُن کے مطابق گوریلا گلاس بنانے کا عمل ایک خاص قسم کے کیمیائی عمل سے شروع ہوتا ہے جس میں شیشہ 400 ڈگری سینٹی گریڈ (752 فارن ہائیٹ) پر گرم کر کے پگھلائے ہوئے اسے نمک میں ڈبویا جاتا ہے۔’پگھلے نمک میں ڈوبنے سے شیشے سے چھوٹے آئنز جیسا کہ لیتھیئم نکل جاتا ہے جبکہ ان کی جگہ بڑے آئنز جیسے پوٹاشیم داخل ہو جاتے ہیں۔‘ان کے مطابق ’اس عمل سے شیشے میں ایک دباؤ کی کو برداشت کرنے کی تہہ بن جاتی ہے جو اسے نقصان برداشت کرنے کے قابل بناتی ہے۔‘سادہ الفاظ میں یہ شیشے کو اندر کی طرف ’دباتا‘ ہے تاکہ دراڑیں یا خراشیں آسانی سے اندر نہ جا سکیں اور سکرین کو نقصان پہنچنے کا احتمال کم سے کم ہو جائے۔’کارننگ‘ کمپنی کی تحقیق میں موبائل فونز کو ایک طرح کے ’پرتشدد تجربات‘ سے گزارا جاتا ہے تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ نقصان کہاں اور کیسے ہو سکتا ہے اور پھر اس سے بچنے ے طریقے آزمائے جاتے ہیں۔ جدید فونز کو خصوصی مشینوں سے دباؤ اور خراشیں ڈال کر دیکھی جاتی ہیں کہ وہ کتنا برداشت کر سکتے ہیں۔ انھیں چابیوں کے ساتھ بند ڈبوں میں زور زور سے گھمایا جاتا ہے تاکہ صارف کی جیب کے اندرونی حالات کو فون برداشت کر سکے۔کارننگ لوگوں کے ٹوٹے پھوٹے فونز بھی جمع کرتا ہے تاکہ غیر متوقع نقصانات کو جانچا جا سکے۔ لوری ہملٹن کا مزید کہنا ہے کہ اس کے بعد ہم اس کی ٹوٹ پھوٹ کے مزید تجزیے کے لیے ’فریکچر اینالیسس‘ کرتے ہیں۔ اس میں ہم شیشے کے ننھے ننھے ٹکڑوں کا جائزہ لے کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل دراڑ کہاں سے شروع ہوئی۔‘جب آپ کا فون ٹوٹتا ہے تو اکثر اوقات سکرین ہی سب سے پہلے فارغ ہوتی ہے لیکن لوری ہیملٹن کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں نتائج میں نمایاں بہتری آئی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ آج کے سمارٹ فونز پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں۔سنہ 2016 میں ’کارننگ‘ کمپنی نے رپورٹ کیا کہ گوریلا گلاس فائیو نے لیب میں 0.8 میٹر (2.6 فٹ) کی بلندی سے گرنے کے ٹیسٹ کامیابی سے پاس کر لیے۔ سنہ 2020 میں گوریلا گلاس وکٹس نے یہ رینج بڑھا کر 2 میٹر (6.6 فٹ) کر دی۔اور اب سام سنگ الٹرا S25 میں استعمال ہونے والی کارننگ کی تازہ ترین پراڈکٹ ’گوریلا آرمرٹو‘ نے مبینہ طور پر 2.2 میٹر (7.2 فٹ) کی بلندی سے گرنا بھی برداشت کیا ہے۔ فون میٹریل، ساخت اور ڈیزائن میں اس بہتری کی تصدیق بیرونی ڈیٹا سے بھی ہوتی ہے۔سنہ 2024 میں فون پروٹیکشن پلانز فروحت کرنے والی انشورنس کمپنی ’آل سٹیٹ‘ نے بتایا کہ 7 کروڑ 80 لاکھ امریکی شہریوں نے اپنے فونز کو نقصان پہنچنے کی رپورٹ دی جبکہ 2020 میں یہ تعداد 8 کروڑ 70 لاکھ تھی۔لوری ہیملٹن کا کہنا ہے کہ ’ہم ’ناقابل شکست‘ (Unbreakable) جیسا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ناکامی کا خدشہ تو برقرار رہتا ہے۔ اس دوران کبھی ایسا نقص ہو جاتا ہے جو اندر تک پہنچتا ہے یا گرنے کا زاویہ ایسا ہوتا ہے کہ شیشہ برداشت نہیں کر پاتا۔‘لیکن ان کا کہنا ہے کہ فون کیس نہ لگانا اب بھی ایک معقول فیصلہ ہو سکتا ہے۔ دراصل یہ اپنی اپنی ترجیح کا معاملہ ہے۔ ان کے مطابق ’ فون پر پیسے لگانا آپ کی ایک سرمایہ کاری ہے۔ میں خود سکرین پروٹیکٹر استعمال نہیں کرتی، لیکن فون کی کیسنگ ضرور استعمال کرتی ہوں۔‘’مگر یہ اسے محفوظ بنانے کے لیے نہیں بلکہ میرے پاس ایک والٹ کیس ہے۔ مجھے کارڈز اور پیسے رکھنے کے ساتھ فون رکھنا پسند ہے۔‘گوریلا گلاس ابتدا میں آئی فون کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ حالانکہ آئی فون کے جدید ماڈلز اب سیرامک شیلڈ استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی کارننگ کی ہی تیار کردہ ایک بہتر ٹیکنالوجی ہے جس میں نینوسیرامک کرسٹلز شامل کیے گئے ہیں۔دوسری جانب ایپل کا دعویٰ ہے کہ آئی فون 16 کے لیے بنائی گئی تازہ سیرامک شیلڈ دنیا کے کسی بھی سمارٹ فون کے مقابلے میں دو گنا زیادہ مضبوط ہے۔اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ کرسٹلز اور آئنز شاید مجھے فون کیس خریدنے سے بچا لیں گے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود مینوفیکچررز ہی صارف کو متضاد پیغامات دیتے ہیں۔’جدت کے باوجود تمام ڈیوائسز ہمیشہ حادثات کے خطرے میں‘ایپل آپ کو سیرامکس کی انفرادیت اور جدت سے خوب متاثر کرے گا لیکن ساتھ ہی خوشی خوشی آپ کو ایک کیس بھی بیچے گا جس پر ایپل کا لوگو چمک رہا ہو گا۔مجھے شوروم میں آئی فون سیلز پرسن نے تجویز دی کہ مجھے یقیناً نیلے رنگ کا خوبصورت کور کیس پسند آئے گا جس کی قیمت صرف 49 ڈالر ہے۔ تو کیا آئی فون کو واقعی کیس کی ضرورت ہے۔ ایپل اس پر کوئی تبصرہ کرنے کو تیار نہیں۔ میرے اس سوال کا جواب کا ایپل کے ترجمان نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔دوسری طرف فون کیس بنانے والی کمپنی سپائیگن (Spigen) اس بارے میں بات کرنے کے لیے بالکل تیار دکھائی دی۔ سپائیگن کے ترجمان جسٹن ما نے کہا کہ ’یہ سچ ہے کہ فون پہلے سے کہیں زیادہ پائیدار ہو چکے ہیں۔ لیکن ان جدتوں کے باوجود یہ تمام ڈیوائسز ہمیشہ حادثات کے خطرے میں رہتی ہیں۔‘لیکن جسٹن ما نے بھی کیس کو لازمی قرار نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ شاید توقع کریں گے کہ ہم کہیں گے کہ ہر فون کو ایک کیس کی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فرد پر منحصر ہے۔ کچھ لوگ بنا کور کے فون کو محسوس کرنا پسند کرتے ہیں، تو کچھ کو مکمل تحفظ چاہیے۔ جبکہ بعض صرف خوبصورتی یا فیشن کی وجہ سے کیس کا انتخاب کرتے ہیں۔‘اب اتنی ساری توجیحات میں سے وجہ چاہے جو بھی ہو، کیس استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔سپائیگن کے ترجمان کے مطابق صرف سپائیگن کے کیسز ہی دس کروڑ ڈیوائسز پر موجود ہیں۔ دوسری جانب کنسلٹنگ فرم ’ٹوورڈز پیکیجنگ‘ کے مطابق 2024 میں دنیا بھر میں فون کیسز کی مارکیٹ تقریباً 25 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔اور پھر ایک دن وہ لمحہ آن پہنچا۔میں اپنے باورچی خانے میں پانی کا گلاس پی رہا تھا جب مجھے سونے سے پہلے ایک آخری بار فون پر نظر ڈالنے کی خواہش ہوئی۔میں نے جیب سے فون نکالنے کی کوشش کی اور اس دوران میری انگلیاں پھسل گئیں۔ میرا شاندار، چمکتا ہوا آئی فون فضا میں گھوما اور فریج کے کنارے سے ٹکرا کر نیچے گرا، بالکل میرے قدموں کے پاس۔۔۔میرا دل دھک سے رہ گیا لیکن جب میں نے اٹھا کر دیکھا تو فون بالکل ٹھیک تھا۔ شاید یہ مضبوط شیشے کے باعث تھا یا میری خوش قسمتی تھی۔’بغیر کور کے فون کے استعمال میں کمی‘جونا والینتی امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے لیے بغیر حفاظتی کیس کے فون استعمال کرنا نہ سائنسی وجوہات کی بنا پر تھا نہ سٹیٹس کی علامت بلکہ ان کے لیے اس کی ایک جذباتی توجیح تھی۔ ’جب میں نے اپنا آخری فون لیا تو میری بیٹی نے اس کا گلابی رنگ پسند کیا اور میں نے اس پر کیس نہیں لگایا کیونکہ وہ رنگ اسے بہت پسند تھا۔ جونا والینتی نے اس فون پر کبھی کیس نہیں چڑھایا اور وقت گزرنے کے ساتھ انھیں احساس ہوا کہ کیس کے بغیر فون کے باعث ان کا اس ڈیوائس سے تعلق گویا بدل گیا ہے۔’کیونکہ میری انگلیاں اسے اچھی طرح نہیں پکڑ پاتیں اس لیے میں فون کے بارے میں زیادہ محتاط ہو گئی ہوں اور اپنی چیزوں کے بارے میں زیادہ الرٹ بھی ہو گئی ہوں۔‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب میں پہلے کی طرح اندھادھند ہر وقت فون میں نہیں کھو جاتی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا لیکن میرا خیال ہے کہ میں واقعی اپنا فون کم استعمال کرنے لگی ہوں۔‘جتنا رومانوی انداز میں جونا والینتی نے اپنا تجربہ بیان کیا میں اس پر پھر بھی یقین نہیں کر پایا۔ کیونکہ میں اب بھی پہلے کی طرح بے سوچے سمجھے انٹرنیٹ سے ہر وقت چپکا رہتا ہوں۔‘’دی ڈراپ‘اور اب جانیے فون کے گرنے کے تجربے کے بارے میں۔اپنے کیریئر کے آغاز میں میں نے ’کنزیومر رپورٹس‘ میگزین میں کام کیا جہاں ایک مکمل لیبارٹری موجود ہے۔اس میگزین میں انجینئرز کی ٹیمیں مصنوعات کی سائنسی جانچ کے لیے طریقے تجویز کرتی ہیں اور یہ سلسلہ تقریباً 90 برس سے جاری ہے۔میرے دفتر سے کچھ فاصلے پر ہی وہ ٹیم موجود تھی جو دہائیوں سے موبائل فونز کا جائزہ لے رہی ہے۔ اور ان کی مضبوطی جانچنے کے حوالے سے کنزیومر رپورٹس کا طریقہ کار خاصا سخت ہے۔ اگر کسی کو فون کی اصلی طاقت کا علم ہو سکتا ہے تو وہ میرے پرانے ساتھی رچ فسکو ہی ہیں جو کنزیومر رپورٹس میں الیکٹرانکس ٹیسٹنگ کے سربراہ بھی ہیں۔رچ فسکو نے میرے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’ہم اسے ڈراپ ٹیسٹ کہتے ہیں۔ فونز کو ایک تین فٹ لمبے دھاتی ڈبے میں رکھا جاتا ہے اور اس کے دونوں سروں پر کنکریٹ کے پینل ہوتے ہیں۔ پھر یہ ڈبہ پچاس مرتبہ گھومتا ہے اور اس دوران فون بار بار کنکریٹ سے ٹکراتا ہے۔‘اُن کے مطابق ’جب یہ عمل مکمل ہوتا ہے تو ایک انجینئر آ کر فون کا معائنہ کرتا ہے۔اور اگر فون بچ جائے تو ہم اسے دوبارہ ڈبے میں ڈال کر ایک مرتبہ پھر مزید پچاس بار گراتے ہیں۔‘’میں کفایت شعار ہوں اس لیے فون کیس میں رکھتا ہوں‘ رچ فسکو نے ڈراپ ٹیسٹس کے حوالے سے بتایا کہ جب انھوں نے اس کا آغاز کیا تھا، تو تقریباً ایک تہائی فون اس تجربے میں فیل ہو جاتے تھے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب صورتحال مختلف ہے۔ ’اب ہمیں کافی عرصے سے کوئی فون ناکام ہوتے نہیں دکھائی دیا۔ گلاس کے معیار میں بہتری آئی ہے۔ آج کل کے فون کہیں زیادہ بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔‘تاہم انھوں نے خطرے سے بھی آگاہ کیا۔ ’دیکھیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سکرین پر کبھی خراش نہیں آئے گی اور اگر فون کسی خاص زاویے سے گرے یا نیچے کوئی چھوٹا سا پتھر ہو تو بس پھر اس پر فاتحہ پڑھ لیں۔ لیکن اگر آپ کا فون چلتے ہوئے جیب سے گر جائے، تو حقیقت یہ ہے کہ شاید وہ نہیں ٹوٹے گا۔‘فسکو کے مطابق یہ سچ ہے کہ اب فون کیس استعمال کرنا ضروری نہیں رہا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ یہ جُوا کھیلنے کو تیار ہیں۔‘فسکو ہر سال ایسے درجنوں فونز کے نتائج شائع کرتے ہیں جو ڈراپ ٹیسٹ میں کامیاب ہوتے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ خود اپنا فون کیس میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ انھوں نے ہنستے ہوئے بتائی۔’میں یقیناً فون کو کیس میں رکھتا ہوں کیونکہ میں کفایت شعار ہوں۔‘ 26 واں دن جب فون کو حادثہ پیش آیااو پھر وہ 26 واں دن جب حادثہ پیش آ گیا۔ میں بغیر کیس کے اپنے ایک ماہ کے تجربے کے 26ویں روز عجلت میں دروازے سے باہر نکل رہا تھا۔ عمارت کی سیڑھیوں کے اوپر کھڑے ہو کر میں نے فون نکالا تاکہ سفر کی معلومات چیک کر سکوں اور اگلا لمحہ دھندلا سا ہے۔ شاید میں لاپرواہی برت رہا تھا یا کچھ اور وجہ تھی لیکن اچانک میرا فون میرے ہاتھ میں نہیں رہا بلکہ سیڑھیوں سے اُلٹتا ہوا نیچے جا رہا تھا۔ایک بار، دو بار، تین بار ٹکرانے کے بعد وہ سیڑھیوں کے نیچے جا کر رُک گیا۔ میں دوڑ کر نیچے پہنچا اور حیرت انگیز طور پر صرف فون کے ایلومینیم کنارے پر ایک چھوٹا سا نشان تھا جبکہ گلاس سکرین بالکل محفوظ تھا۔اور اس کے بعد تجربات کے بقایا دن میں نے شعوری طور پر احتیاط برتی اور فون کا کم استعمال کیا۔ سب وے میں سفر کے دوران فون کو سختی سے پکڑنا، اٹھانے اور رکھنے کے لمحات میں شعوری توجہ دینا اور مجموعی طور پرفون کا استعمال کچھ حد تک کم کرنا ان بقایا دنوں میں میرا معمول رہا۔ تاہم دوسری جانب میرا دوست اس معاملے میں اتنا خوش قسمت نہرہا۔ جب ہم اگلی بار پارک میں ملے تو میں نے اس سے فون کی خیریت پوچھی۔اس کا جواب تھا’برا حال ہے، میں نے فون گرا دیا اور اس کی سکرین چٹخ گئی۔ سامنے کا حصہ اور کیمرے کے لینز دونوں خراب ہو گئے ہیں۔‘میں حیران رہ گیا کیونکہ وہ میرے سامنے اپنے فون کی مضبوطی کے دعوے کر کے مجھے قائل کر چکا تھا۔ یا پھر اس کے پاس پرانا آئی فون تھا۔ شاید نئے سیریمک گلاس نے اسے بچا لیا ہوتا یا شاید نہیں۔ فون کو مخصوص طریقے سے نمک کے پانی میں کتنے ہی غسل کیوں نہ دیے جائیں شیشہ آخرکار ٹوٹنے والی شے ہے۔ اب میں قائل ہو چکا ہوں کہ نئے ماڈلز میں تو فون کیس واقعی آپ کی پسند، ناپسند پر منحصر ہے اور ہاں ساتھ آپ کچھ حقیقی خطرات کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہوں۔اور رہا میں تو مہینے کے آخر تک میری ہمت جواب دے چکی تھی۔ میںگویا تنے ہوئے رسے پر چل رہا تھا اور کئی بار بال بال بچنے کے باوجود ہر ایک معمولی جھٹکا ایک وارننگ کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ آخرکار میں دوبارہفون کے کیس کا قائل ہو گیا۔تاہم کبھی کبھار میں اب بھی فون کا کیس اتار لیتا ہوں، صرف تجسس کے لیے اور فون کے شیشے پر ہوا لگا کر دوبارہ کور چڑھانا نہیں بھولتا۔

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

انڈوں میں پائی جانے والی ’دماغ کی غذا‘ جس کے بارے میں آپ بہت کم جانتے ہیں

پاکستان لاکھوں افغان پناہ گزین کو ملک بدر کیوں کر رہا ہے؟ چار ممکنہ وجوہات

عمران خان نے کہا کہ ڈیل نہیں چاہتا، کسی کو مذاکرات کے اختیارات نہیں دیے ہیں: چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر

پاکستان لاکھوں افغان پناہ گزین کو بلک بدر کیوں کر رہا ہے؟ چار ممکنہ وجوہات

سوہنی ماہیوال کی لوک داستان جس نے سماج میں خواتین کی مرضی کے بغیر شادی کے نظریے کو چیلنج کیا

جب برطانیہ میں ’جرائم کی دنیا کے بڑے نام‘ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹرین ڈکیتی کے لیے اکٹھے ہوئے

مٹھائی نے 3 ماؤں کی گود اجاڑ دی۔۔ معصوم بچوں کو زہریلی مٹھائی کس نے کھلائی؟ افسوس ناک حقائق

جب برطانیہ میں جرائم کی دنیا کے بڑے نام‘ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹرین ڈکیتی کے لیے اکٹھے ہوئے

خلیل الرحمان اغوا کیس کا فیصلہ آگیا۔۔ عدالت نے ملزمان کو کیا سزا سنا دی؟

تجارتی جنگ: کیا صدر ٹرمپ کے ٹیرف منصوبے کا واحد مقصد چین کو نشانہ بنانا تھا؟

مورچوں، بنکرز کی تباہی اور امن معاہدے کے سرکاری اعلانات کے باوجود پاڑہ چنار کی پانچ لاکھ آبادی اب بھی محصور

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم میں ریکارڈ اضافہ: کیا یہ حکومتی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا وجوہات کچھ اور ہیں؟

وقف کے متازع قانون پر پُرتشدد واقعات، مسلم لیگ اور جناح کا تذکرہ: ’ایک چائے والا کسی کو پنکچر والا کہہ کر مذاق اڑا رہا ہے‘

سونا سستا ہو کر دوبارہ مہنگا ہوگیا۔۔ جانیں 1 تولہ سونے کی نئی قیمت کیا ہے؟

پیسوں کی ٹرے اٹھائے گھومتا رہا۔۔ وینا ملک اور ٹک ٹاکر کے ناچ گانے میں پولیس والے کی خدمت گزاری ! ویڈیو نے نئی بحث چھیڑ دی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی