
15 مارچ کو اسلام آباد سے حمزہ خان اپنے گھر والوں کو یہ بتا کر گھر سے نکلے کہ وہ مانسہرہ میں اپنے بچپن کے دوست کے والد سے ملنے جا رہے ہیں، جن کے ساتھ ان کا لین دین کا تنازعہ چل رہا تھا۔انھیں توقع تھی کہ وہ افطاری کے بعد یا اگلی صبح واپس گھر آ جائیں گے، گھر والوں کے ساتھ ان کا 16 مارچ کی صبح سحری تک رابطہ بھی قائم رہا مگر صبح پانچ بجے کے بعد ان سے گھر والوں کا رابطہ ختم ہو گیا۔حمزہ پاکستان کی سینیٹ میں بطور اسسٹنٹ ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں اور پراپرٹی کی لین دین کا کام بھی کرتے تھے۔15 مارچ کو گھر سے دوست کے والد سے ملنے کا کہہ کر جانے والے حمزہ کا تین دن تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔واضح رہے کہ حمزہ خان کا تعلق ضلع ایبٹ آباد کے علاقے گلیات سے تھا۔ حمزہ خان کے لاپتہ ہونے پر ابتدائی طور پر ان کے بھائی محمد وقار کی مدعیت میں ان کی گمشدگی کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں درج کیا گیا۔ابتدائی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 'حمزہ خان 15 مارچ کو گھر سے صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ نکلے تھے اور ابھی تک ان کے متعلق کوئی خبر نہیں ہے اور نہ ہی ان سے رابطہ ممکن ہو پا رہا ہے۔'حمزہ کے گھر والوں نے جب ان کے بچپن کے دوست اور ان کے والد سے حمزہ کے متعلق جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ 'انھوں نے حمزہ کو ضلع مانسہرہ کے علاقے خاکی سے اسلام آباد کے لیے روانہ کر دیا تھا۔'واضح رہے کہ حمزہ کے دوست کے والد اسلام آباد پولیس میں ایس پی رہ چکے ہیں۔حمزہ کی گمشدگی کے مقدمے کے اندراج کے کچھ دن بعد ان کے بھائی وقار نے تحریری بیان میں اپنے بھائی حمزہ خان کے بچپن کے دوست اور ان کے والد کو اس مقدمے میں نامزد کر دیا۔محمد وقار نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ 'میرا چھوٹا بھائی حمزہ خان مانسہرہ گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا اور نہ ہی اس کا کچھ پتا ملا۔'پولیس کو دیے گئے تحریری بیان میں کہا گیا کہ 'مورخہ 11 مارچ کو رقم کے لین دین کے تنازعہ پر حمزہ خان کا چھٹہ بختاور میں اپنے دوست اور اس کے والد کے ساتھ جھگڑا اور تلخ کلامی ہوئی تھی۔ مجھے قوی شبہ ہے کہ میرے بھائی کو ان دونوں نے مل کر اغوا کیا۔'پولیس نے شک کی بنیاد پر حمزہ کے دوست اور ان کے والد کو گرفتار کیا تو وہ دونوں اپنے اسی موقف پر قائم رہے کہ انھوں نے حمزہ کو خاکی کے علاقے میں گاڑی سے اتار دیا تھا اور وہ حمزہ کی گمشدگی کے سلسلے میں اپنی لاعلمی ظاہر کرتے رہے۔پھر 15 اپریل کو اسلام آباد پولیس نے مانسہرہ پولیس کی مدد سے حمزہ کی لاش کو مانسہرہ سے برآمد کیا، جہاں پر ان کو گڑھا کھود کر مٹی اور گوبر میں دفن کیا گیا تھا۔ڈی آئی جی اسلام آباد جواد طارق نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 28 سالہ حمزہ کو ان کے دوست کے والد جو اسلام آباد پولیس کے سابق ایس پی ہیں نے اپنے ہی بہنوئی کے ساتھ مل کر قتل کیا۔ڈی آئی جی اسلام آباد نے دعویٰ کیا کہ حمزہ کو ان کے دوست کے والد نے لین دین کے تنازعے پر مانسہرہ میں اپنے ہی گھر میں قتل کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جب تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ اسلام آباد پولیس کے سابق ایس پی حمزہ کے ساتھ رابطے میں تھے۔ڈی آئی جی اسلام آباد جواد طارق نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے سابق ایس پی کے مانسہرہ والے گھر سے حمزہ کی لاش کو برآمد کر لیا ہے۔ پولیس نے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا ہے جبکہ سابق ایس پی اور ان کے ساتھی گرفتار ہیں۔اسلام آباد پولیس کے مطابق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں حمزہ کے سر پر پیچھے سے گولی ماری گئی تھی۔دوسری جانب حمزہ کے بھائی محمد وقار کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا۔ 'میت کے سامنے کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے اور چہرے پر شدید ضربوں کے نشانات تھے۔‘’قاتل نامعلوم، مقتول نامعلوم‘: شیخوپورہ میں ملنے والی سر کٹی لاش کا معمہ کیسے حل ہوا؟مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزمان پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، مرکزی ملزم کے عدالت میں پولیس پر الزاماتکروڑوں روپے کی جائیداد اور پولیس کو ملنے والا ’گمنام خط‘ جو چکوال کے ایک گھر میں قید جبین بی بی کی زندگی نہ بچا سکا’بابا میں نے چاکلیٹ چوری نہیں کی‘: راولپنڈی میں 13 سالہ گھریلو ملازمہ کی تشدد سے ہلاکت جس کے ملزمان ہسپتال کے عملے کے شک کی وجہ سے پکڑے گئےحمزہ خان کے موبائل اسلام آباد سے ملےایس ایچ او تھانہ آبپارہ سید عاصم غفار کا کہنا تھا کہ 'حمزہ خان مارچ کی 15 تاریخ کو لاپتہ ہوئے تھے۔ لواحقین نے 18 تاریخ کو مقدمہ درج کروایا۔ پولیس نے ابتدائی طور پر تفتیش کی تو اس وقت ہی یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ یہ معاملہ پچیدہ جبکہ یہ مشکل کیس ہے۔'سید عاصم غفار کا کہنا تھا کہ '18 مارچ کو تمام لواحقین کے بیانات لیے گے۔ اسلام آباد میں سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ حمزہ خان شہر سے باہر گئے تھے مگر اس کے بعد وہ شہر میں واپس داخل نہیں ہوئے تھے۔انھوں نے کہا کہ 'یہ معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ بنتا جا رہا تھا۔ جس کی تفتیش کے لیے جدید ذرائع کے علاوہ انسانی ذرائع اور تفتیش پر انحصار کیا گیا تھا اور اس کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔'تفتیش میں شامل ایک افسر کے مطابق 'حمزہ خان کے ساتھ 16 مارچ کی صبح سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ حمزہ کے بھائی اور والدہ کو ملزم نے کہا تھا کہ انھوں نے حمزہ کو 16 تاریخ کی صبح اسلام آباد کے لیے روانہ کر دیا تھا اور اس کے بعد ان کا حمزہ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔'تفتیشی افسر کے مطابق ’حمزہ خان کے موبائل کی لوکیشن کو معلوم کرنے کی کوشش کی گئی اور 19 مارچ کی شام کو پتا چلا کہ حمزہ خان کے موبائل فون اسلام آباد کے سیکٹر جی 10 کے گرین بیلٹ میں موجود ہیں۔ جہاں پر پولیس کی خصوصی ٹیم رات کو پہنچی تو موبائل فون مل گئے۔‘تفتیشی افسر کے مطابق ’اس کے بعد گرین بیلٹ کا چپہ چپہ چھانا گیا۔ جہاں پر لگا کہ زمین نرم ہے اس کو کھود کر بھی دیکھا گیا۔ اچھی طرح تسلی کی گئی کہ جی 10 کے گرین بیلٹ اور ارد گرد حمزہ خان کا کوئی پتا چلے مگر کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ حمزہ خان کا کوئی پتا نہیں مگر ان کے موبائل فون اسلام آباد سے ملتے ہیں۔‘جس کے بعد پولیس نے ایک بار پھر لواحقین کے بیانات اور بیان کردہ حالات و واقعات پر غور شروع کیا کیونکہ پولیس کو بھی شک ہو چکا تھا کہ یہ معاملہ کسی سنگین واردات کا ہے۔Getty Imagesسی سی ٹی وی میں نامعلوم شخص کی موجودگی حمزہ کے بھائی محمد وقار نے بتایا کہ ہیں کہ ’ہمیں حمزہ کے دوست کے والد نے کہا تھا کہ انھوں نے خود اسلام آباد کے راستے پر حمزہ کو ڈراپ کیا تھا۔‘تفتیشی اہلکار کا کہنا تھا کہ ’حمزہ خان کے موبائل فون تو اسلام آباد سے مل گئے تھے مگر ان کا کوئی اتا پتا نہیں چل رہا تھا۔ جس کے بعد ہم نے اپنی تفتیش کا دائرہ مانسہرہ تک وسیع کیا۔‘تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ’لواحقین کے بیانات کی روشنی میں جس ممکنہ راستے پر حمزہ خان کا سفر ہو سکتا تھا، اس کا جائزہ لیا گیا۔ سی سی ٹی وی کا بھی بغور جائزہ لیا تو 16 مارچ کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج خاکی کے مقام کی ملی، جہاں پر ایک راستہ مانسہرہ اور دوسرا اسلام آباد کی طرف نکلتا ہے۔‘تفتیشی افسر کے مطابق ’اس سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ حمزہ کے دوست کے والد اس مقام پرایک شخص جو ان کے ساتھ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا کو ڈراپ کرتے ہیں۔ یہ فوٹیجحمزہ خان کے لواحقین کو دکھائی گئی تو انھوں نے بتایا کہ جس شخص کو ڈراپ کیا گیا، وہ حمزہ نہیں۔‘’حمزہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ مانسہرہ ہی میں ہوا‘Getty Imagesفائل فوٹو محمد وقار کہتے ہیں کہ ’جب پولیس نے ہمیں وہ فوٹیج دکھائی تو وہ حمزہ خان نہیں تھے۔ جس پر ہم نے حمزہ کے دوست کے والد سے پوچھا کہ آپ تو کہتے تھے کہ آپ نے حمزہ کو ڈراپ کیا مگر فوٹیج میں نظر آنے والا شخص تو وہ نہیں، جس پر انھوں نے جواب دیا کہ اس وقت حمزہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔‘محمد وقار کہتے ہیں کہ ’ہم نے پولیس کے تفتیشی افسران کو یہ بات بتا دی کہ وہ اب یہ کہہ رہے ہیں۔‘تفتیشی افسر کے مطابق ’اب ایک اور سراغ مل گیا تھا جس کے بعد دوبارہ تفتیش کا آغاز خاکی سے کیا گیا اور 16 مارچ کے حوالے سے مزید ثبوت تلاش کیے گے جس میں پتا چلا کہ 15 مارچکے ایسے شواہد تو موجود ہیں کہ حمزہ خان مانسہرہ سے خاکی کی طرف گئے تھے مگر ان کی واپسی کے کوئی شواہد نہیں مل رہے تھے۔‘سید عاصم غفار کے مطابق ’شک کے راستے مانسہرہ کی طرف جاتے تھے۔ جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے علاقے میں اپنے تفتیش کاروں کو پھیلا دیا اور کچھ لوگوں سے معلومات جمع کی گئیں جن کے نتیجے میں پولیس کو سمجھ آ گئی کہ حمزہ خان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ مانسہرہ کے علاقے خالی میں ہی میں ہوا تھا۔‘’لاش کو چھپانے کے لیے گوبر استعمال کیا گیا‘سید عاصم غفار کا کہنا تھا کہ پولیس کو حمزہ کی گمشدگی اور قتل کیے جانے کے متعلق کافی معلومات مل گئی تھں تاہم انھوں نے بتایا کہ ’ملزمان کو فوری گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ مزید ثبوت حاصل کیے گئے اور پولیس نے کچھ ایسے لوگوں تک بھی رسائی حاصل کر لی تھی جو اس جرم میں براہ راست یا بالواسطہ شریک تھے۔ ان سے واقعے کی معلومات حاصل کی گئیں تو پتا چلا کہ حمزہ خان کی لین دین کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہا ’16 مارچ کی صبح حمزہ خان کو پیچھے سے سر پر گولی ماری گئی۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو بلایا گیا اور ان سے مدد کا کہا گیا جس کے بعد ایک آٹھ فٹ لمبا اور چار فٹ گہرائی میں گڑھا کھود کر اس میں حمزہ خان کو دفن کردیا گیا تھا۔‘ان کا کہنا تھا ’لاش کا نام و نشان مٹانے کے لیے گوبر کو استعمال کیا گیا تھا۔‘سید عاصم غفار کا کہنا تھا کہ ’لواحقین کو تمام صورتحال بتائی گئی۔ ملزماں کو حراست میں لیا گیا ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور مزید افراد سے مانسہرہ میں پوچھ گچھ ہوئی جس کے بعد قانونی تقاضے پورے کر کے مجسٹریٹ کی موجودگی میں مانسہرہ پولیس کی مدد سے لاش کو ایک ماہ بعد بر آمد کر لیا گیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ اب حمزہ خان کی گمشدگی کا مقدمہ قتل کے مقدمے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزمان پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، مرکزی ملزم کے عدالت میں پولیس پر الزاماتکروڑوں روپے کی جائیداد اور پولیس کو ملنے والا ’گمنام خط‘ جو چکوال کے ایک گھر میں قید جبین بی بی کی زندگی نہ بچا سکا’بابا میں نے چاکلیٹ چوری نہیں کی‘: راولپنڈی میں 13 سالہ گھریلو ملازمہ کی تشدد سے ہلاکت جس کے ملزمان ہسپتال کے عملے کے شک کی وجہ سے پکڑے گئےاسلام آباد میں ملازمت کرنے والے نوجوان کی بیگ میں بند لاش کامونکی سے برآمد: پولیس ایک ماہ بعد ملزمان تک کیسے پہنچی؟ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘