
Getty Imagesاے این پی کے سربراہ ایمل ولی کے مطابق اگر ’مائنز اینڈ منرلز‘ بل کو واپس نہ لیا گیا تو وہ اس کے خلاف مزاحمت کریں گےخیبر پختونخوا اسمبلی میں ’مائنز اینڈ منرلز‘ بل پر ابھی بحث شروع نہیں ہوئی مگر اس بل نے جیسے صوبے میں سیاسی بھونچال پیدا کر دیا ہو اور ایسے میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی کے بیان نے تو نیا سیاسی پینڈورا باکس کھول دیا۔اس بل کی محرک جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر اراکین بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن جماعت کا ساتھ دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ اس بارے میں جیسا عمران خان کہیں گے وہ اس پر عمل کریں گے۔دیگر سیاسی جماعتیں تو اب اس بارے میں مخالفت کا اظہار کر ہی چکی ہیں لیکن عوامی نیشنل پارٹی نے اس بل کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ 23 اپریل کو آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کی ہے۔اے این پی کے سربراہ ایمل ولی کا کہنا تھا کہ اگر اس بل کو واپس نہ لیا گیا تو وہ اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔واضح رہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے جرگہ ہال میں کچھ روز قبل اس بل کے بارے میں ایک بریفنگ کا انتظام کیا گیا تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین موجود تھے لیکن اس اجلاس میں ایسی ہنگامہ آرائی شروع ہوئی کہ سپیکر کو یہ بریفنگ 21 اپریل تک موخر کرنا پڑی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی احمد کنڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ مائنز اینڈ منرلز 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی اختیار میں آتا ہے لیکن اس بل میں جو زبان استعمال کی گئی وہ واضح نہیں اور اس میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے سٹریٹجک منرلز کا لفظ استعمال ہوا، جس کی وضاحت نہیں کہ سٹریٹجک منرلز سے کیا مراد ہے۔ اسی طرح نیوکلیئر انرجی کے لیے جو منرلز استعمال ہوں گے، وہ اس میں مستثنی ہوں گے حالانکہ اس کے لیے ریڈیو ایکٹو منرلز کا ذکر ہونا چاہیے تھا اور وہ وفاق کے اختیار میں ہوتا ہے۔ان کے مطابق ’جو لائسنسنگ اتھارٹی قائم کی گئی، اس میں بیوروکریٹک سٹرکچر زیادہ ہے اور سیاسی نمائندگی نہیں۔‘ ’ایسے پاکستان سے بغاوت ہی بہتر‘عوامی نینشل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان نے اپنی جماعت کے ایک مشاروتی اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’اگر اکتوبر تک 18ویں ترمیم پر من و عن عمل نہیں ہوتا اور یہ جعلی بل واپس نہیں ہوتے تو اس ماحول میں جس میں آپ کے ساتھ بی ایل اے لڑ رہی ہو، جس ماحول میں ایران آپ کا دشمن ہو، جس ماحول میں افغانستان آپ کا دشمن ہو ( آپ کہتے ہیں میں نہیں کہتا) جس ماحول میں ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی آپ کی دشمن ہو، جس ماحول میں داعش آپ کی دشمن ہو، جس ماحول میں انڈیا آپ کا دشمن ہو تو آپ اپنے لیے ایک اور دشمن پیدا کر رہے ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا ’اگر اکتوبر تک ہمارے اختیارات نہیں ملتے تو نومبر سے ہماری تحریک ایک اور قدم بڑھے گی تو ہمارا ایک ہی بنیادی نعرہ ہو گا کہ ہمیں اپنا حق دو یا ہمیں آزادی دو۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی خاطر ہم بڑی قربانیاں دے چکے ہیں بڑی چیزوں میں آگے بڑھے ہیں اور اگر وہی پاکستان میری قوم کے بچے کا نوالہ لے کر جاتا ہے اور میری قوم کے بچے کے کپڑے لے جاتا ہے، میرے بچے کو ننگا، بھوکا اور ویران جگہ پر چھوڑتا ہے تو ایسے پاکستان سے بغاوت ہی بہتر ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہمارے مشاروتی اجلاس میں فیصلے ہوئے ہیں اور اب اس پر عمل شروع ہے۔ میں واضح کر دوں ہم ایک تھپڑ والے نہیں۔ میں اپنے والد کے ساتھ وعدہ کر کے نکلا ہوں کہ انشااللہ اپنا سر حاضر کروں گا لیکن قوم کا حق کسی کو نہیں لے جانے دوں گا۔‘سونے کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتیں: پاکستان میں ’کھربوں ڈالرز‘ کی معدنیات کہاں پائی جاتی ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟کیا عوامی نیشنل پارٹی ایک بار پھر متحرک ہو رہی ہے؟ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟باچا خان: پاکستان کی آزادی کے مخالف سرحدی گاندھی جنھیں ’افغان ایجنٹ‘ قرار دیا گیاایمل ولی خان کے اس موقف پر ہم نے عوامی نینشل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم میں صوبائی خود مختاری دی گئی لیکن اب یہ تمام اختیارات ایک کونسل کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ اختیارات وفاق، کسی اسمبلی یا منتخب کمیٹی کو نہیں بلکہ ایگزیکٹو آرڈر سے قائم کی گئی ایک کونسل کو دیے جا رہے ہیں، تو یہ صوبے کے حق پر ڈاکہ ہے۔‘میاں افتخار حسین نے کہا کہ اس پر وہ کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ’ہم نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مضبوط کر کے مرکز کو مضبوط کرنے کی کوشش کی، ہم نے پر امن جدوجہد کی اور اگر اٹھارویں ترمیم کو چھیڑا جائے گا تو ان قوتوں کو دشمن بنایا جائے گا جنھوں نے پر امن جدو جہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کیے۔‘ انھوں نے کہا کہ خواہ مخواہ کیوں ایسے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں جس سے لوگوں کو مشکل پیش آئے گی۔’معدنیات ہماری وراثت ہیں لیکن ہماری صوبائی خود مختاری پر ضرب لگائی جائے گی تو اس سے ہمیں ایسا پیغام دیا جا رہا کہ اگر آپ کو یہ قبول ہے تو ٹھیک ورنہ آپ کے وسائل تو ہمارے ہوں گے۔ ہم یہ سب برداشت نہیں کر سکتے۔‘Getty Imagesاے این پی کو اتنا سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اے این پینے سنہ 2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر صوبے میں حکومت قائم کی تھی لیکن اس کے بعد سے اے این پی بتدریج اپنی مقبولیت کھو رہی ہے اور اب 2024 کے انتخابات میں اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان بھی اپنی سیٹ نہیں جیت سکے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی میں یہ جماعت اپنی کوئی واضح نمائندگی ثابت نہیں کر سکی۔ماضی میں اس جماعت نے صوبائی خود مختاری، کالا باغ ڈیم نہیں مانتے اور صوبے کے نام کی تبدیلی پر بھرپور مہم جوئی کی تھی۔تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی شاید اپنی کھوئی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عارف یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ایسا لگتا ہے ایمل ولی کا بیان فہم و فراست سے عاری اور سیاسی بیان ہے۔‘ عارف یوسفزئی نے کہا کہ ’ایسا بھی نہیں لگتا کہ ایمل ولی خان کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف اختیار کر رہے ہیں۔ شاید اس بیان سے وہ اپنی سیاسی طور پر ڈوبتی کشتی کو سہارا دے کر سیاسی مقبولیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘پشاور میں صحافی فرزانہ علی کہتی ہیں کہ نیشنلسٹ جماعتوں کا نظریہ صوبائی خودمختاری کے گرد گھومتا ہے تو یہ ان کے لیے تشویشناک ہے۔ ان کے مطابق اے این پی ہی نہیں بلکہ جے یو آئی بھی اس پر آواز اٹھا رہی ہے۔ ان کی رائے میں اس بل نے صوبائی اختیارات کی بحث چھیڑی۔انھوں نے کہا کہ ’ہر جماعت کی طرح اے این پی بھی خیبرپختونخوا میں کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘ ان کے مطابق اے این پی کے اندر سے بھی دباؤ بڑھا کہ اس بل کے خلاف آواز بلند کی جائے۔سینیئر صحافی اور تجزیہ کار علی اکبر کا کہنا ہے کہ جب سے ایمل ولی خان اپنی جماعت کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں تب سے عوامی نیشنل پارٹی کی نظریاتی پالیسیوں میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’پارٹی پالیسی میں تبدیلی آئی۔ جو قوم پرستی کی سیاست تھی اور وہ نظریاتی پالیسی جو باچا خان، ولی خان اور اسفند یار نے اختیار کی تھی، اس کو چھوڑ دیا گیا اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی پالیسی اختیار کی گئی۔‘Getty Imagesسیاسی جماعتیں ’مائنز اینڈ منرلز‘ بل کی مخالفت کر رہی ہیںسینیئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان خان نے بتایا کہ عوامی نینشل پارٹی نے ہمیشہ قوم پرستی کی سیاست کی لیکن کچھ عرصے سے جو پارٹی کی سیاست میں تبدیلی آئی تو پاکستان تحریک انصاف نے اپنی جگہ بنا لی اور اب اے این پی اسے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’اس بل کی مخالفت سے عوامی نینشل پارٹی صوبائی حقوق کا نعرہ لگا کر لوگوں کی حمایت حاصل کرنا چاہ رہی ہے اور پی ٹی آئی کو بھی اس بل پر لوگوں کی سوچ کا احساس ہو گیا ہے اس لیے پی ٹی آئی کے اندر سے بھی اس بل پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ 'اس وقت جو بیانیہ زیادہ مقبول ہے اس میں ایک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان بازی ہے اور یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں بھی یہ بل پیش کیا گیا لیکن وہاں سے ایسی کوئی آوازیں سامنے نہیں آئی ہیں اور لگتا ایسا ہے کہ اس سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ًمیاں افتخار حسین سے جب پوچھا گیا کہ بلوچستان میں آپ کی جماعت نے اس بل کی حمایت کی ہے تو اس بارے میں انھوں نے کہا کہ ’اس بل کو خفیہ اور جلد سے جلد پاس کرنے کی پالیسی اپنائی گئی تھی، خیبر پختونخوا میں بھی یہی ارادہ تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بلوچستان والوں کو اب معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کیا ہو گیا۔‘پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو عام انتخابات سے قبل کن چیلنجز کا سامنا ہے؟سونے کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتیں: پاکستان میں ’کھربوں ڈالرز‘ کی معدنیات کہاں پائی جاتی ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟باچا خان: پاکستان کی آزادی کے مخالف سرحدی گاندھی جنھیں ’افغان ایجنٹ‘ قرار دیا گیابابڑہ ’قتل عام‘: چارسدہ کی تاریخ کا سب سے تاریک باب’سیاست سے نفرت تھی پھر خاوند کے خون کا بدلہ سیاست کے ذریعے لیا‘’میں ہارون بلور ہوں!‘