
افغانستان کے شہر بامیان سے تعلق رکھنے والی 17 سالہ گل چمن ابراہیمی سات سال کی تھیں جب پاکستان آئی تھیں۔ان کے والد انتقال کر چکے ہیں اور وہ تین بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی ہیں۔ان کی والدہ بھی کام کرتی ہیں جبکہ وہ خود راولپنڈی کے ایک ڈیٹا کالج میں کام کرتی ہیں۔چونکہ پاکستان میں تمام افغان پناہ گزینوں کو وزارتِ داخلہ نے یکم ستمبر تک ملک چھوڑنے کی ہدایت کر دی ہے جبکہ اس سے قبل بھی مختلف مراحل میں ہزاروں افغان باشندوں کو واپس بھجوایا جا چکا ہے تاہم اب بھی دوسرے علاقوں کی طرح جڑواں شہروں میں بھی افغان باشندے رہائش پذیر ہیں۔کچھ پناہ گزینوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 10، 12 روز قبل پولیس نے آ کر بتایا کہ گھر خالی کر دیں، ورنہ کارروائی ہو گی۔اس کے بعد گل چمن کو والدہ، دو بہنوں اور بھائی کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا، اس وقت وہ میلوڈی مرکز کے قریب واقع ارجنٹائن پارک میں احتجاجی کیمپ میں مقیم ہیں۔یہ کیمپ ان افغان پناہ گزینوں کی جانب سے قائم کیا گیا ہے جنہیں اب کرائے پر گھر لینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔کرائے کے گھروں سے نکالے جانے کے بعد افغان باشندے فیملیز کے ساتھ ارجنٹائن پارک میں مقیم ہیں (فوٹو: اردو نیوز)پچھلے دنوں وزارتِ داخلہ نے پی او آر کارڈ کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہ پاکستان میں موجود پروف آف ریزیڈنس کارڈ رکھنے والے افغان باشندے بھی یکم ستمبر تک ملک سے ہر صورت نکل جائیں۔ جبکہ وہ افغان پناہ گزین جن کے پاس یہ کارڈ موجود نہیں اور ان کا ویزہ بھی ختم ہو چکا ہے، انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں غیر قانونی افغان باشندے قرار دے دیا ہے۔حکومت ایک سے دو سال کے دوران افغان پناہ گزینوں کو متعدد بار ڈیڈ لائنز دے چکی ہے تاہم خصوصاً ہزارہ جات ریجن سے تعلق رکھنے والے اس لیے واپس نہیں جانا چاہتے کیونکہ ان کو طالبان کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں یہیں پر رہنے دیا جائے۔اس حوالے سے 17 سالہ گل چمن نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں کھلے پارک میں رہتے ہوئے بہت مشکلات کا سامنا ہے مگر وہ جانا نہیں چاہتیں۔پارک میں مقیم افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت واپس نہیں جانا چاہتے (فوٹو: اردو نیوز)ان کے مطابق ’ہمیں یہاں مار دیں، مگر افغانستان واپس نہ بھیجیں کیونکہ وہاں جا کر بھی ہمیں مرنا ہی ہے۔‘اسی طرح چار سال قبل کام کی غرض سے پاکستان آںے والے 30 سالہ حسیب بابر کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ہی ان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی اور ان حالات میں بھی مالک مکان نے گھر خالی کرنے کا کہہ دیا۔ان کے مطابق ’اہلیہ کا کا آپریشن ہوا تھا اس لیے گھر چھوڑنا بہت مشکل تھا، خود سے زیادہ فکر بیوی بچے کی تھی کہ وہ کہاں رہیں گے، پھر کسی نے میلوڈی کے پارک کا بتایا۔‘اس کیمپ کو تقریباً دس دن ہو گئے ہیں اور اس میں شامل لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں واپس نہ بھجوایا جائے (فوٹو: اردو نیوز)اس کیمپ کو تقریباً دس دن ہو گئے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں واپس نہ بھجوایا جائے۔تاہم دوسری جانب امیگریشن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغان پناہ گزین پاکستان میں مشکلات کا شکار ہیں تاہم موجودہ سکیورٹی صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت کے پاس شاید یہی آپشن تھا کہ انہیں واپس جانے کا کہا جائے۔