
پاکستان میں حالیہ برسوں میں شمسی توانائی کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے، جس کی بنیادی وجہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی ہے۔ یہ تبدیلی توانائی کے شعبے میں ایک انقلاب کی مانند ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔
شمسی توانائی کا عروج
2024 میں پاکستان کی بجلی کی پیداوار میں شمسی توانائی کا حصہ 14.3% تک پہنچ گیا، جو کہ 2021 میں صرف 4% تھا۔ یہ اضافہ چین سے سستے سولر پینلز کی درآمد اور حکومت کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کی بدولت ممکن ہوا۔ نیٹ میٹرنگ کے تحت صارفین اضافی بجلی قومی گرڈ کو فروخت کر سکتے ہیں، جس سے ان کے بجلی کے بل کم ہوتے ہیں۔
شہری متوسط طبقے کی مشکلات
اگرچہ امیر اور دیہی علاقوں کے لوگ سولر توانائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن شہری متوسط طبقہ، خاص طور پر فلیٹوں میں رہنے والے، اس سے محروم ہیں۔ فلیٹوں کی چھتوں پر پانی کی ٹینکیاں اور دیگر سہولیات ہونے کی وجہ سے سولر پینلز لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، نیٹ میٹرنگ کی منظوری میں تاخیر اور آلات کی قیمتیں بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔
بجلی کے نرخوں میں اضافہ
سولر توانائی کے استعمال میں اضافے سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے، کیونکہ امیر صارفین گرڈ سے کم بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے کمپنیاں باقی صارفین پر اضافی بوجھ ڈال رہی ہیں، جس سے بجلی کے نرخ مزید بڑھ گئے ہیں۔
صنعتی شعبے کی پیش رفت
بڑے صنعتی ادارے جیسے انٹرلوپ نے سولر توانائی میں سرمایہ کاری کی ہے، جس سے ان کے آپریٹنگ اخراجات میں کمی آئی ہے۔ یہ ادارے چند سالوں میں اپنی سرمایہ کاری کی لاگت پوری کر لیتے ہیں، لیکن اس سے قومی گرڈ پر مزید دباؤ پڑتا ہے۔
حکومت کی کوششیں
حکومت نے سولر توانائی کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ ٹیکس میں چھوٹ اور نیٹ میٹرنگ کی سہولت۔ تاہم، نیٹ میٹرنگ کی منظوری میں تاخیر اور آلات کی قیمتیں اب بھی مسائل کا باعث ہیں۔
پاکستان میں شمسی توانائی کا بڑھتا ہوا استعمال ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والے چیلنجز کو حل کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شہری متوسط طبقے کو سولر توانائی تک رسائی فراہم کرے اور نیٹ میٹرنگ کے عمل کو آسان بنائے،