
پاکستان میں صوبہ پنجاب کی حکومت نے لاہور کی کینال روڈ پر الیکٹرک ٹرام چلانے کے منصوبے کے تحت چین سے منگوائی گئی ’ٹریک لیس‘ الیکٹرک ٹرام کی آزمائش کی ہے۔ پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ صوبے میں ٹرانسپورٹ کے جدید نظام کی جانب اہم قدم ثابت ہو گا۔ تاہم بعض حلقے اس کے لیے کینال روڈ کی مجوزہ توسیع کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔بدھ کو وزیرِ اعلٰی پنجاب مریم نواز نے چینی حکام کے ہمراہ کینال روڈ پر اس منصوبے کے ٹیسٹ رن کا جائزہ لیا۔ تاحال حکومت نے اس منصوبے کو مسافروں کے لیے شروع کرنے کی کوئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے سے کینال روڈ پر یومیہ ایک لاکھ 30 ہزار افراد استفادہ کر سکیں گے اور یہ ایک ماحول دوست منصوبہ ہو گا۔سوشل میڈیا پر بھی اس منصوبے کی حمایت اور مخالفت میں دلائل دیے جا رہے ہیں۔پاکستان کی پہلی ’ٹریک لیس ٹرام‘ کا منصوبہ کیا ہے؟پنجاب کے وزیرِ ٹرانسپورٹ بلال اکبر خان کہتے ہیں کہ یہ ٹرام منصوبہ ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کا ہی حصہ ہے۔ اُن کے بقول تین کمپارٹمنٹس (بوگیوں) پر مشتمل ٹرام میں بیک وقت 300 مسافر سفر کر سکیں گے۔بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے بلال اکبر خان کا کہنا تھا کہ یہ الیکٹرک وہیکل اور پہیوں پر چلنے والی ٹرام ہے جس کے لیے الگ سے کوئی ٹریک نہیں بچھانا پڑے گا، اسی لیے اسے ٹریک لیس کا نام دیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کینال روڈ پر ماس ٹرانزٹ منصوبہ (یلو لائن) لاہور کے پورے ماس ٹرانسپورٹ سسٹم کو جوڑنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔وزیرِ ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ مال روڈ پر بھی ٹرام چلانے کی تجویز سامنے آئی تھی۔ لیکن مختلف سرویز سے سامنے آیا ہے کہ کینال روڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کا ایک اہم رُوٹ ہے اور مستقبل میں یہ ’ٹرانسپورٹ سسٹم کا دل‘ ثابت ہو گا۔اُن کا کہنا تھا کہ ٹرام منصوبہ گرین لائن یعنی لاہور میٹرو بس منصوبے سے بھی منسلک ہو گا۔ جبکہ مستقبل میں لاہور کے علاقے ویلنشیا ٹاؤن سے بابوصابو تک بلیو لائن اور پھر ریلوے اسٹیشن سے ایئر پورٹ تک مجوزہ پرپل لائن منصوبہ بھی کینال روڈ پر ٹرام سسٹمسے جڑ جائے گا۔اس ٹرام کی خصوصیات کیا ہیں اور اس پر کتنی لاگت آئے گی؟وزیرِ ٹرانسپورٹ پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ مستقبل کی ٹیکنالوجی ہے جو چین کے دو سے تین شہروں میں پہلے سے ہے جبکہ ابوظہبی میں بھی اس کا ٹیسٹ رن کیا جا رہا ہے۔وزیرِ ٹرانسپورٹ کے بقول چین سے فی الحال ایک ٹرام منگوائی گئی ہے جو سنگل چارج پر 40 کلومیٹر تک چل سکتی ہے۔اُن کے بقول یہ منصوبہ لگ بھگ 80 ارب روپے کا ہے جس کے لیے چین سے مجموعی طور پر 16 ٹرامز درآمد کی جائیں گی۔اُن کا کہنا تھا کہ اس ٹرام کی ففتھ جنریشن میں مزید بیٹریز شامل کر کے یہ 100 کلو میٹر تک بھی جا سکتی ہے۔اُن کے بقول ٹرام کی زیادہ سے زیادہ رفتار 60 کلو میٹر ہے۔ لیکن مستقبل جو ٹرام ہم درآمد کریں گے اس کی رفتار 100 کلو میٹر تک ہو گی۔چین کی 600 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار والی نئی ٹرین جو اسلام آباد سے کراچی کا سفر چار گھنٹوں میں طے کر سکتی ہےپاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟ہوائی جہاز کا سفر سستا مگر ’یورپ میں ایسا کون ہے جو ٹرین سے سفر نہیں کرنا چاہے گا‘ڈرائیور کے بغیر مال بردار ٹرین کا ’فرار‘: 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگتی 53 بوگیوں کو کیسے روکا گیا؟کیا واقعی کینال روڈ اتنی اہم ہے؟ٹریفک انجینئرنگ اینڈ ٹرانسپورٹ پلاننگ (ٹیپا) کے سابق چیف انجینیئر خوشحال خان وزیرِ ٹرانسپورٹ کے بعض دعوؤں سے اختلاف کرتے ہیں۔بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کینال روڈ سے زیادہ سٹی سینٹر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ مال روڈ، سرکلر روڈ، شاہ عالم مارکیٹ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگ کام کے لیے آتے ہیں لیکن یہاں ٹرانسپورٹ کی زیادہ سہولیات نہیں ہیں۔خوشحال خان کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں زیادہ تر مسافر ’چنگ چی‘ رکشوں یا لوکل ویگنز میں سفر کرتے ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان تنگ علاقوں میں ’ٹرامز تو نہیں چل سکتیں، لہذٰا یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی زیادہ ضرورت ہے۔‘سابق چیف انجینیئر کا مزید کہنا تھا کہ بظاہر پنجاب حکومت کا یہ منصوبہ ’دکھاوے کے لیے ہے‘ اور لاہور کی بے ہنگم ٹریفک میں کینال روڈ پر اتنی بڑی وہیکل کا چلنا بظاہر ’ناقابلِ عمل لگتا ہے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ کینال روڈ پر پہلے ہی سپیڈو بسز چل رہی ہیں جو مسافروں کو میٹرو بس سروس اور اورنج لائن ٹرین کے روٹس تک پہنچاتی ہیں۔تو کیا کینال روڈ کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی؟وزیرِ ٹرانسپورٹ پنجاب کہتے ہیں کہ کینال روڈ پر ٹرام چلانے کے لیے کینال روڈ میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ کینال روڈ پر انڈر پاسز بھی ہیں جبکہ دو مقامات پر ریلوے کراسنگز بھی ہیں۔ لہذٰا ٹرام کے لیے سگنل سسٹم کے ساتھ ساتھ کچھ مزید تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ لیکن اس بات کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ کینال روڈ پر ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو۔ماضی میں لاہور کی کینال روڈ کی توسیع کے منصوبے کے دوران ماہرینِ ماحولیات اور کچھ شہری تنظیموں نے احتجاج کیا تھا۔سہ 2007 میں دھرمپورہ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک کینال روڈ کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے دوران بھی شہری حقوق اور ماحول بچاؤ تحریکوں نے احتجاج کیا تھا۔لاہور کی کینال روڈ کے دونوں اطراف واقع گرین بیلٹس اور نایاب درختوں کو شہر کی آکسیجن سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کینال روڈ کی توسیع کے دوران درختوں کی ری لوکیشن سمیت گرین بیلٹس کے تحفظ کے مطالبات کیے گئے تھے۔ٹرام منصوبے کے لیے نئے سٹیشن بنانے اور درختوں کی کٹائی کے خدشات پھر سے سر اُٹھا رہے ہیں اور یہی خدشہ لاہور بچاؤ تحریک کی بانی عمرانہ ٹوانہ کو بھی ہے۔’کینال روڈ پر مزید تبدیلیاں ناقابلِ قبول‘بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے عمرانہ ٹوانہ کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی نے 2013 میں ایک بل پاس کر رکھا ہے جس کے تحت کینال روڈ کے اطراف گرین بیلٹس کا تحفظ کیا جائے گا۔اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں ماضی میں جلد بازی میں منصوبے شروع کیے جاتے رہے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ لاہور کی کینال روڈ کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور وہ 2013 کا وہ ایکٹ ہے جو پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر بنایا تھا۔اس ایکٹ کو لاہور کینال اربن ہیرٹیج پارک ایکٹ 2013 کا نام دیا گیا تھا۔ اُن کے بقول اس قانون کے تحت لاہور کینال اور اس کے اطراف کی گرین بیلٹس ٹھوکر نیاز بیگ سے جلو تقریباً 24 کلومیٹر تک کے حصے میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی۔عمرانہ ٹوانہ کہتی ہیں کہ اس علاقے کسی ایک پتے کو بھی ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ کہتی ہیں کہ دنیا میں بہت کم ایسے شہر ہیں جس کے درمیان سے نہر گزرتی ہے۔ لہذٰا لاہور کینال روڈ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اگر حکومت کینال روڈ پر ٹرام چلانے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کے لیے کینال روڈز کی موجودہ لینز کافی ہیں۔خیال رہے کہ ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک کینال روڈ چار رویہ ہے اور اس میں متعدد انڈر پاسز قائم کیے گئے ہیں۔عمرانہ ٹوانہ کہتی ہیں کہ اگر ٹرام کے لیے لاہور کینال پر مزید کوئی لین بنائی جاتی ہے تو وہ خلاف قانون ہو گی کیوں کہ اس کے لیے گرین بیلٹس کو چھوٹا کرنا پڑے گا۔عمرانہ ٹوانہ کے بقول اگر حکومت کینال روڈ پر قانون کے اندر رہتے ہوئے کوئی تبدیلیاں کرتی ہے تو انھیں اس پر اعتراض نہیں، لیکن ’اگر گرین بیلٹس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اس پر احتجاج کیا جائے گا۔‘ٹرین ڈرائیور گیا دہی لینے: ’گھر بچانے کے لیے ٹرین روکنا کوئی اتنا ایشو نہیں'لندن کی وہ ٹرین سروس جس میں صرف میّتیں اور ان کے ورثا سفر کرتے تھےچین کی 600 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار والی نئی ٹرین جو اسلام آباد سے کراچی کا سفر چار گھنٹوں میں طے کر سکتی ہے’میں نے اُس ٹرین ڈرائیور سے شادی کر لی جس نے مجھے خودکشی سے بچایا‘