
گزشتہ پانچ برسوں میں ملک بھر میں 80 ہزار 847 قومی شناختی کارڈ یا تو بحال کیے گئے یا ضبط ہوئے۔ یہ سوال اکثر اٹھتا ہے کہ آخر کارڈ کیوں بلاک ہوتے ہیں اور ان کے ضبط ہونے کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ نادرا کے افسر سید شباہت علی نے ایک پوڈکاسٹ میں اس حوالے سے تفصیلی وضاحت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ "امپاؤنڈنگ" ایک قانونی اصطلاح ہے جسے عام زبان میں کارڈ بلاک ہونا کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں وہ شناختی کارڈ مکمل طور پر غیر مؤثر ہو جاتا ہے اور کسی بھی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورتحال کئی اسباب کی بنا پر پیش آتی ہے جیسے نامکمل یا غیر مصدقہ معلومات، بائیو میٹرک مسائل یا پھر کارڈ کی مدت ختم ہو جانا۔ اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے شہری کو نادرا کے دفتر جا کر دوبارہ کارروائی کروانا پڑتی ہے۔
ڈپلیکیٹ کارڈ سے متعلق سید شباہت علی نے بتایا کہ ماضی میں لوگ اکثر دوسرا کارڈ بنوا لیتے تھے لیکن اب سسٹم بہت مضبوط اور جدید ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے یہ عمل تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر کوئی شخص نادرا کے ریکارڈ میں جھوٹی معلومات فراہم کرے تو یہ ریاست کے ساتھ غلط بیانی کے مترادف ہے اور یہ عمل ایک سنگین جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اگرچہ اب تک نادرا کی جانب سے کسی شہری کو اس جرم پر سزا نہیں دی گئی لیکن قانون کے مطابق اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے جو کسی بھی وقت دی جا سکتی ہے۔
یہ وضاحت عام شہری کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ شناختی کارڈ کی حیثیت محض ایک دستاویز نہیں بلکہ ریاست سے وابستہ ایک ذمہ داری بھی ہے۔