اگر آپ جنوں سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنی کشتی کے پیچھے… ایسا خوبصورت مقام کونسا ہے جہاں صرف کشتی میں بیٹھ کر ہی پہنچ سکتے ہیں

 
شمالی عمان کے تنگ سمندری راستوں کے درمیان ’کمزار‘ نامی ایک چھوٹا سا گاؤں واقع ہے جو پہاڑوں اور سمندر کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ یہ جگہ کہنے کو تو عمان جیسے چھوٹے ملک کے انتہائی شمال میں واقع ہے لیکن یہاں کی فضا اور یہاں کا ماحول ملک کے دیگر علاقوں سے بالکل مختلف ہے۔
 
سچ پوچھیں تو اس گاؤں کی خوبصورتی کا راز یہی ہے کہ یہ باقی ملک سے کٹا ہوا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے مکینوں نے اپنی ایک مخصوص بولی بنا لی ہے اور اپنی ہی ثقافت۔ قریب ترین شہر ’خصب‘ سے یہاں پہنچنے کے دو ہی طریقے ہیں، اگر آپ تیز رفتار سپیڈ بوٹ سے آئیں تو آپ کو ایک گھنٹہ لگے گا اور اگر بادبانوں والی روائتی کشتی ’دو‘ کے ذریعے آئیں تو ڈھائی گھنٹے۔
 
کمزار کی مخصوص شناخت کی بڑی وجہ اس کا جغرافیہ ہے۔ یہ گاؤں جزیرہ نما ’مسندم‘ پر واقع ہے، جو عمان کے دوسرے علاقوں سے ایک سو کلومیٹر دور ہے۔ مسندم کو لوگ اس کی ڈرامائی ساحلی پٹی اور گہری کھائیوں کی وجہ سے ’عریبیہ کا ناروے‘ بھی کہتے ہیں، تاہم ناروے کے ساحل پر چٹانیں صدیوں پہلے گلیشیئرز کی توڑ پھوٹ سے بنی تھیں جبکہ جزیرہ نما مسندم زمین کی سطح کے نییچے ٹیکٹونِک پلیٹس کے ٹکرانے سے وجود میں آیا ہے۔
 
 
کمزار کی گہری سمندری کھائی آگے سمندر میں آبنائے ہرمز میں کُھلتی ہے اس کے دوسرے سرے پر ایران واقع ہے۔ یوں گذشتہ 700 برس کے دوران کمزار کے لوگوں پر آبنائے ہرمز کے راستے سفر کرنے والے مختلف تہذیبوں کے تاجروں کے اثرات مرتب ہوتے رہے اور یہاں کے لوگ اس خطے کی سیاسی کشمکش کو بھی کئی نسلوں سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
 
اس کے اثرات سب سے زیادہ کمزاری بولی میں دیکھے جا سکتے ہیں جو اس خطے میں بولی جانے والی دوسری زبانوں سے بہت مختلف ہے۔
 
کمزاری زبان اور ثقافت کے ماہر، مکیہ الکمزاری کہتے ہیں کہ ’کمزاری زبان فارسی، عربی اور کئی دوسری زبانوں کا مرکب ہے جن میں قدیم عراقی، شامی، ترکی، انگریزی اور ہندی بھی شامل ہیں۔ یہ زبان صرف یہاں بولی جاتی اور (دنیا) میں کسی اور جگہ نہیں بولی جاتی۔‘
 
جزیرہ نما مسندم کے پانیوں میں چلنے والی ایک بڑی کشتی کے کپتان مویاتھ الکمزاری کے بقول مقامی لوگوں کو اپنی زبان پر بہت فخر ہے۔ ’کمزاری ہی ہماری مادری زبان ہے اور جب ہم لوگ آپس میں بات کرتے ہیں تو ہم اس کے علاوہ کسی دوسری بولی میں بات نہیں کرتے، حالانکہ ہم سب کو عربی بھی آتی ہے۔‘
 
کمزاری زبان میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو انگریزی بولنے والے لوگوں کو شاید اجنبی نہ لگیں، مثلاً سٹار کو یہ لوگ سٹارگ کہتے ہیں، لوشن کو لوسان، ڈور (دروازہ) کی جگہ در۔ اسی طرح نِگلِس کا مطلب ہے نیکلس اور پلینک (لکڑی کا تختہ) کی جگہ پِلنگ۔
 
کمزاری زبان میں عربی اور فارسی کے بہت سے الفاظ شامل ہیں لیکن کمزاری بولنے والے ان الفاظ کو ایسے ادا کرتے ہیں جیسے قرون وسطیٰ کے لوگ بولتے تھے۔ کمزاری زبان نے جس طرح مختلف زبانوں کے ملغوبے کو اپنے اندر سمویا ہے اور جس طرح اس زبان نے خود کو اپنے اردگرد کے علاقوں میں بولی جانے والی عربی زبان سے محفوظ رکھا ہے، اس چیز نے زبان کے ماہرین کو ایک عرصے سے حیران کیے رکھا ہے۔
 
ان ماہرینِ لسانیات میں کرسٹینا انوبی اور ایرک انوبی بھی شامل ہیں جو ایک سال تک کمزار میں رہے اور یہاں کی زبان پر تحقیق کی۔
 
 
ایرک کہتے ہیں کہ ’اگرچہ یہاں آپ صرف کشتی کے ذریعے پہنچ سکتے تھے، لیکن پھر بھی کمزار کا گاؤں کئی صدیوں تک معاشرتی اور تاریخی اعتبار سے اس خطے کے عین مرکز میں رہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ کمزار باقی دنیا سے الگ تھلگ رہا ہے۔ یہ تاریخی لحاظ سے بہت اہم جگہ رہی ہے۔ یہ اس علاقے کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں خوراک اور تازہ پانی کی فراوانی رہی ہے اور یہ گاؤں بصرہ، مسقط، انڈیا اور اس سے بھی آگے کے تجارتی مراکز کے عین درمیان میں رہا ہے۔
 
ایرک اور ان کی اہلیہ جب کمزار آئے تو یہاں کے لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور یہ دونوں بھی مقامی لوگوں میں گھل مل گئے۔ دونوں مقامی کمزاریوں کے ساتھ ان کے روز مرہ کے کاموں میں حصہ لیتے اور ساتھ ساتھ ان کی زبان پر تحقیق بھی کرتے رہے۔
 
کرسٹینا بتاتی ہیں کہ وہ صبح کے وقت چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں الائچی والی کافی پیتے ہوئے مقامی عورتوں سے گپ شپ کرتیں اور سہہ پہر کے وقت وہ خواتین کے ساتھ کھجور اور مچھلی صاف کرتیں یا کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں وغیرہ بناتیں۔ کرسٹینا کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کے ہاں میزبانی کی اس روایت کی وجہ وہ خاص مقام ہے جہاں یہ گاؤں واقع ہے۔
 
’میرا خیال ہے کہ یہ لوگ مہمان نواز اس وجہ سے بھی ہیں کیونکہ تاریخی طور پر یہاں وہ ملاح وغیرہ پناہ لیتے رہے ہیں جن کی کشتیاں آبنائے ہرمز میں کسی حادثے کا شکار ہو جاتی تھیں، یا ملاح بحری قزاقوں سے بچنے کے لیے اپنی کشتیاں گاؤں کے قریب گہری سمندر کھائی میں چُھپا لیتے تھے، آبنائے ہرمز سے گزرنے والے بحری جہازوں کو ایندھن فراہم کرتے تھے اور یا کمزار میں واقع کنوؤں سے تازہ پانی لینے آتے تھے۔
 
کمزاری لوگوں کا ذریعے معاش وہ مچھلیاں ہیں جو سال کے نو ماہ سمندری کھائیوں میں رہتی ہیں، اس کے علاوہ جب شدید گرمی کے موسم میں یہاں مچھلیاں ختم ہو جاتی ہیں تو یہ لوگ درختوں سے تازہ کھجوریں اتارنے کے لیے خصب چلے جاتے ہیں۔ ایرک کے بقول ’سمندر کمزار کے لوگوں کے لیے زندگی کا منبہ ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمزاری زبان پر بھی سمندر کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً مچھلی کی مختلف اقسام کے لیے کمزاری زبان میں دو سو خاص نام پائے جاتے ہیں اور ان میں سے اکثر نام ایسے ہیں جن کی مثال ہمیں دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ملتی۔‘
 
تین جانب سے اونچے پہاڑوں اور ایک طرف سمندر کے درمیان واقع ہونے کی وجہ کمزار کا محل وقوع ایسا ہے کہ اس کے اثرات نہ صرف یہاں کی زبان پر دکھائی دیتے ہیں بلکہ یہاں کے لوگ اپنے ارد گرد کی دنیا کی تشریح بھی اسی محل و قوع کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ ’ہم لوگ عربی یا انگریزی میں سمت بتانے کے لیے شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ ’اوپر‘ سے مراد پہاڑوں کی طرف لیتے ہیں اور یہ جب ’نیچے‘ کہتے ہیں تو اس کا مطلب سمندر کا جانب ہوتا ہے۔
 
سمندر سے منسلک الفاظ اور اصطلاحیں آپ کو یہاں عام بول چال میں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً کمزاری جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ’سی کاولا‘ جس کا مطلب ہے ’ہوا کیسی ہے۔‘ یہاں تک کہ یہ لوگ بکری کے گوشت کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اس کا ذائقہ فلاں مچھلی جیسا ہے۔
 
اس گاؤں کے رسم و رواج میں بھی سمندر کا کردار بہت بڑا ہے۔ مثلاً لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ گھونگے کی سیپی کو اپنے کشتی سے باندھ لیں تو آپ جِنوں بھوتوں سے دور رہتے ہیں اور وہ آپ کو ورغلا کر گہرے پانیوں میں نہیں لے جا سکتے جہاں آپ کی کشتی کو حادثہ پیش آ سکتا ہے۔
 
مُکیہ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں قصے کہانیاں سنانے کا بھی بہت رواج ہے۔’ان کہانیوں میں بھی یہاں کی آب و ہوا اور قدرتی ماحول کے اثرات دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ یہ کہانیاں اکثر سمندر اور اس میں پائی جانے والی کسی عجیب و غریب مخلوق کے بارے میں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی قصوں میں کنویں کا بھی ذکر ملتا ہے، کیونکہ سمندر میں سفر کرنے والے لوگ صدیوں سے تازہ پانی لینے کے لیے اپنی کشتیاں ساحل سے لگا کر کمزار آتے رہے ہیں۔‘
 
لوک کہانیوں کے علاوہ کمزاری لوگوں کے ہاں گیتوں کا خزانہ بھی پایا جاتا ہے۔
 
ایرک کا کہنا ہے کہ ’علیکو شوبوبو، جن کا حال ہی میں انتقال ہو گیا ہے، وہ ایک مشہور کمزاری قصہ گو تھے۔ انھیں اتنی طویل مقامی کہانیاں یاد تھیں جو اتنی ہی مزیدار اور جزیات سے بھرپور ہوتی تھیں جیسے آپ الف لیلہ داستان سُن رہے ہوں۔ ان کہانیوں کے کردار اور ان میں بیان کیے جانے والے تمام واقعات میں کمزار کی تاریخ نظر آتی تھی۔
 
کمزاری کلچر کی باقی چیزوں میں بھی ہمیں اسی قسم کی گہرائی اور جاذبیت نظر آتی ہے۔
 
’کمزاری لوگ پوری عرب دنیا میں اپنی رنگا رنگ شادی کی تقریبات کے لیے مشہور ہیں۔ یہ رسمیں ایک ہفتہ، دن رات جاری رہتی ہیں جن میں رقص و موسیقی، روایتی گیتوں اور پرتکلف دعوتوں کا طویل سلسلہ جاری رہتا ہے جس میں گاؤں کے تمام لوگ شریک ہوتے ہیں۔‘
 
 
ہو سکتا ہے کہ کمزاری لوگ خطے کی باقی آبادیوں سے بہت دور ہوں، لیکن یہ لوگ کسی کے دست نگر نہیں۔ یہ گاؤں پوری طرح خود کفیل ہے، ان کا اپنا سکول، ہسپتال اور نمکین پانی کو صاف کرنے والا پلانٹ بھی ہے۔ ان لوگوں کو خود پر بہت ناز ہے اور اس کا سب سے زیادہ اظہار آپ کو کمزار فٹبال کلب کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ کلب ہے جس نے سنہ 2016 میں عمان کپ کے مقابلوں میں بہت سی امیر ٹیموں اور ان کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو مات دے دی تھی۔
 
مویاتھ کے بقول ’یہ ہمارے کلب اور کمزاری لوگوں کی ایک عظیم کامیابی تھی اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ اس کامیابی نے یقیناً ہمارے مقامی تشخص کی حوصلہ افزائی کی ہے۔‘
 
لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کمزار کا مستقبل کیا ہو گا۔ مویاتھ کہتے ہیں کہ ’کمزار تبدیل ہو رہا ہے۔ نئی نسل کی پوری توجہ ان کی تعلیم پر ہے اور اکثر لڑکے اعلیٰ تعلیم کے لیے مسقط چلے جاتے ہیں۔‘
 
اب اُن نسلوں کے دن بیت گئے جب مقامی لوگ صرف کمزاری زبان بولتے تھے نہ کہ عربی اور اب اکثر نوجوان پڑھائی کے بعد ملازمت کے لیے متحدہ عرب امارات جانا چاہتے ہیں۔
 
ایرک کہتے ہیں کہ ’تجارتی پیمانے پر کی جانے والی ماہی گیری کی وجہ سے مقامی سمندر میں مچھلیاں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں اور کمزاری لوگوں کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑتا جا رہا ہے۔ لازمی تعلیم، ٹیلی ویژن اور اب انٹرنیٹ آنے کے بعد کمزاری لوگوں کی روز مرہ زندگی کے ہر لمحے میں عربی زبان گھُستی جا رہی ہے۔ پچھلے دس برسوں میں بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ اور اب بہت سے والدین اپنے بچوں کو مادری زبان کی بجائے عربی پڑھا رہے ہیں۔ ابھی تک بچے کمزاری سمجھ رہے ہیں لیکن بچے ٹھیک سے کمزاری بول نہیں سکتے، اور ایک نسل سے اگلی نسل کے درمیان کمزاری زبان تیزی سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔
 
تاہم ناامیدی کی کوئی بات نہیں کیونکہ ایرک اور کرسٹینا کے ساتھ مل کر کمزاری زبان کے کچھ ماہر اس زبان کو لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس مخصوص زبان اور ان لوگوں کے کلچر کو محفوظ کیا جا سکے۔
 
ایرک کہتے ہیں کہ ’شکر ہے، کچھ ایسے کمزاری افراد موجود ہیں جنھوں نے خود کو اس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ یہ لوگ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی تاریخ اور صدیوں پرانی تہذیب ختم نہ ہو جائے۔ اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کمزاری بولی ان کی شناخت ہے۔ اپنی زبان کو محفوظ کر کے یہ لوگ پوری دنیا کے تہذیبی اثاثے کے تحظ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کیونکہ پوری دنیا میں کمزاری جیسی دوسری کوئی زبان نہیں ہے۔‘
 
 
اس کے علاوہ یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے نوجوانوں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی، کمزار کی شرح پیدائش زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ایسے چھوٹے بچوں کی کمی نہیں ہونی چاہیے جو اس زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
 
مویاتھ کہتے ہیں کہ مقامی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور گاؤں سے اوپر پہاڑوں میں بھی لوگ مکان تعمیر کر رہے ہیں۔
 
کمزاریوں کے لیے جس قدر اہم ان کا مستقبل ہے، اسی قدر فخر انہیں اپنی شناخت اور اپنے تشخص پر ہے۔ مویاتھ کے بقول ’ہمیں کمزاری ہمیشہ ایک بات کہتے ہیں: کمزاری مافی خوف، یعنی کمزاری کبھی ڈرتا نہیں۔ لڑنا ہماری روایت ہے، چاہے قدرتی مشکلات کے خلاف لڑنا ہو یا دشمن کے خلاف۔ ہم سب کو فخر ہے کہ ہمارا تعلق کمزار سے ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جدید دور کے چیلنج کا مقابلہ کریں، لیکن ہم کبھی بھی اپنے کلچر اور اہنی زبان کو پس پشت نہیں ڈالیں گے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu

سیر و سیاحت

بلوچستان کے پر فضا مقام مولا چٹوک کی تاروں بھری رات اور خوبصورت آبشاریں

پاکستان کی 8 خوبصورت ترین سڑکیں - پہلے نمبر پر کونسی؟

پاکستان میں بنی دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم جہاں پہنچنے کے لیے بادلوں سے گزرنا پڑتا ہے

اس علاقے میں ایک عجیب سی کشش ہے... دنیا کا انوکھا جنگل جس کے درخت پتھر بن چکے ہیں

مزید سیر و سیاحت...