|
|
آج آپ دنیا کے چند ایسے حیران کن پراجیکٹس کے بارے میں
جانیں گے جن کو بنانے کیلئے تو اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے لیکن آج وہ بالکل
بے کار پڑے ہیں۔ کوئی ان کو استعمال تک نہیں کرتا۔ چلئے، اس کا آغاز کرتے
ہیں۔ |
|
نیپیداو، میانمار |
میانمار کا سابق دارالحکومت نیپیداو سرکاری طور پر Nay
Pyi Taw دنیا کے بڑے بیکار منصوبوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ نیپیداو میانمار
کا سابق دارالحکومت اور تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ باگو یوما اور شان یوما
پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع نیپیداو شہر میانمار حکومت نے باقاعدہ منصوبہ
بندی سے بنایا تھا اس سے پہلے اس کو پائینمانا ضلع کے نام سے جانا جاتا تھا۔
نیپیداو میں مرکزی پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، صدارتی محل، کابینہ کی سرکاری
رہائش گاہیں، حکومتی وزارتوں اور فوج کا صدر دفتر بھی بنایا گیا۔ اس شہر نے
24ویں اور 25ویں آسیان سمٹ، تیسری BIMSTEC سمٹ، نویں ایسٹ ایشیا سمٹ اور
2013 کے جنوب مشرقی ایشیائی کھیلوں کی میزبانی کی۔ نیپیدوا کی خوبصورتی میں
اضافہ کرنے کیلئے حکومت نے 4 بلین ڈالرز خرچ کیے۔ شہر میں سیاحوں کو متوجہ
کرنے کی ساری چیزیں تھیں 20 lane ہائی وے،100 پرتعیش ہوٹلز، گالف کورسز،
میوزیمز اور یہاں تک کہ یانگان میں تاریخی مقام بھی ہے۔ |
|
مگر اس شہر میں ایک بہت بڑی خامی ہے آبادی کی۔ یہاں پر زیادہ تر لوگ
جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور مجموعی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے مگر سوال
پیدا ہوتا ہے کہ لوگ یہاں کیوں نہیں رہتے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر زندگی
کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شہر میں نہ تو اچھے تعلیمی ادارے
ہیں اور نہ ہی اچھی جابز جس کی وجہ سے یہ شہر کبھی بھی کسی کی مستقل رہائش
گاہ نہیں بنا۔ شہر میں اتنا سناٹا ہوگیا کہ اس کو گھوسٹ ٹاؤن سے تشبیہ دے
دی گئی۔ |
|
|
|
برازیل کا خالی اسٹیڈیم |
دنیا بھر میں فٹ بال کے کھیل سے مشہور ملک برازیل کے بارے میں کیا آپ جانتے
ہیں کہ یہاں پر 300 ملین ڈالرز کا اسٹیڈیم بالکل خالی ہے۔ ارینہ دا
ایمازونیا اسٹیڈیم برازیل کے شہر میناس میں واقع ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ واقع
اس اسٹیڈیم کیلئے سفر کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ پراجیکٹ اتنا آسان نہیں تھا
کیونکہ اسٹیڈیم میناس کے جنگلات کے بیچوں بیچ واقع ہے جس کی وجہ سے اسٹیڈیم
کیلئے سامان پہنچانے میں انتہائی مشکل آئی اور زیادہ تر سامان کو پرتگال سے
ایمازون کے بحری راستے کے ذریعے سے منگوایا گیا۔ اس اسٹیڈیم کو بننے میں
چار سال لگے جس کی لاگت میں 300 ملین ڈالرز خرچ ہوئے۔ اسٹیڈیم میں تقریبا
40,000 شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ مگر جنگلات میں ہونے کی وجہ سے ملک
کے لوکل میچز میں بھی بمشکل 1000 شائقین میچ دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔ یاد رہے
کہ یہ ان اسٹیڈیمز میں سے ایک ہے جس کو فیفا ورلڈکپ 2014 کیلئے تیار کیا
گیا تھا۔ |
|
مگر حیران کن طور پر اس اسٹیڈیم میں صرف چار میچز کھیلے گئے جبکہ بعد میں
اس اسٹیڈیم میں 2016 کے اولمپکس کے بھی کچھ میچز ہوئے۔ اب یہ اسٹیڈیم بالکل
خالی ہے کیونکہ یہ آبادی سے اتنا دور ہے کہ لوگ اس میں جانا ہی پسند نہیں
کرتے۔ یہاں پر یہ بات جان لیں کہ اس اسٹیڈیم کے خالی رہنے کی بڑی وجہ یہ
بھی ہے کہ مقامی لوگ اس کے ٹکٹ کا خرچہ بھی برداشت نہیں کرپاتے۔ جبکہ اب تو
اس اسٹیڈیم میں میچز کے بجائے شادیاں بھی ہوتی ہیں۔ اسٹیڈیم کے مالکان کی
جانب سے یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح سے یہ اسٹیڈیم فروخت ہو جائے
لیکن ابھی تک یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ |
|
|
|
سری لنکا کا خالی
ایئرپورٹ |
2009 میں سری لنکا کی سول وار ختم ہوئی جس کے بعد سری
لنکا کے صدر مہندا راجاپسکا نے ایسی پلاننگ کرنا شروع کردی کہ جس کے ذریعے
ملک کی معیشت کو فروغ دیا جاسکے۔ اس وقت ملک میں صرف کولمبو انٹرنیشنل ہی
واحد ایئرپورٹ تھا۔ مگر یہ سب کچھ بدلنے والا تھا کیونکہ صدر نے دارالحکومت
سے 250 کلومیٹر دور ہمبنٹوٹا کے علاقے میں ایک دوسرے تجارتی مرکز کا تصور
تخلیق کیا۔ اس دوران وہاں پر بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام جاری تھا۔ چین کی
مدد سے وہاں پر ایک نئی سمندری بندرگاہ بھی تعمیر کی جارہی تھی۔ دوسرا پلان
ہمبنٹوٹا شہر کے علاقے مٹالہ میں دوسرے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو تعمیر کرنا
تھا۔ اس پراجیکٹ کی تعمیر کیلئے 210 ملین کی لاگت آئی۔ جس میں سے 190 ملین
ڈالرز چین سے ادھار لیے گئے۔ لیکن جب ایئرپورٹ میں فلائٹ کا آغاز ہوگیا تو
کچھ جغرافیائی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایئرپورٹ ایک ایسے شہر میں
تعمیر کیا گیا تھا جس کی کل آبادی 20,000 لوگوں کی تھی جن میں سے اکثریت
غریب لوگوں کی تھی۔ 2014 میں ایئرپورٹ کو 3000 فلائٹس کیلئے استعمال کیا
گیا جس میں 50,000 مسافروں نے سفر کیا جبکہ ایئرپورٹ کے پلان میں یہ شامل
تھا کہ 10 لاکھ مسافر سفر کریں گے لیکن نتیجہ بہت برا ملا اور اس کے بعد تو
اور بھی برا ہوا جب مسافروں کی کم تعداد کی وجہ سے ایئرلائنز کی جانب سے
آپریشنز منسوخ کیے جانے لگے اور ایک سال کے اندر مالکان کو 18 ملین ڈالرز
کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ |
|
یہاں تک کہ 2015 کے الیکشن میں سری لنکا کی مقامی
ایئرلائن کے فلائٹ آپریشنز بھی اس ایئرپورٹ سے بند کردیے گئے۔ ایئرپورٹ پر
چھائے سناٹے کی وجہ سے اردگرد موجود جنگلی جانور ایئرپورٹ آنے والے مسافروں
کو پریشان کرتے تھے جس کیلئے حکومت نے 300 افرادپر مبنی فوجی اہلکار وںکو
ایئرپورٹ کی حدود سے جنگلی جانوروں کو نکالنے کیلئے تعینات کیا ۔ بعد میں
ایئرپورٹ کی وسیع حدود کو چاولوں کے گودام کے طور بھی استعمال کیا گیا۔
مٹالہ راجاپسکا ایئرپورٹ کی خبریں پریشانی کا باعث بنیں اور پھر 2016 میں
عالمی جریدے فوربز کی جانب سے اسے دنیا کے ویران ایئرپورٹ کا خطاب دیا گیا۔
2018 میں ایئرپورٹ کو مکمل بند کردیا گیا جب فلائی دبئی نامی ایئرلائن جو
کہ اس وقت تک ایئرپورٹ کو استعمال کررہی تھی اس نے بھی اپنے آپریشنز بند
کردیے۔ |
|
|
|
دنیا کا سب سے
بے کار ہوٹل |
آپ حیران رہ جائیں گے کہ آسمانوں کو چھوتی ہوئی
یہ عمارت اپنے اردگرد موجود تمام عمارتوں سے منفرد لگتی ہے لیکن اس کی
حقیقت جاننے والوں کو بہت افسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک سو پانچ منزلہ عمارت
روگونگ ہوٹل کے نام سے جانی جاتی ہے جو کہ نارتھ کوریا کے دارالحکومت
پیانگینگ میں پچھلے تیس سالوں سے بالکل خالی کھڑی ہے۔1080 فٹ اونچی اپنی
اردگرد موجود عمارتوں سے 10 فٹ لمبی یہ عمارت ایک پیرامڈ جیسی لگتی ہے۔
لیکن آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ یہ اصل میں ایک ہوٹل ہے جو کہ ایفل
ٹاور سے بھی اونچا ہے۔ |
|
ہوٹل میں رقبے کے حساب سے 39 لاکھ مربع فٹ کی
جگہ اور 3000 کمرے موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ ہوٹل دنیا کے کسی بھی
مشہورومعروف فائیو اسٹار ہوٹل سے باآسانی مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس ہوٹل کی خاص
بات یہ ہے کہ دبئی کی برج خلیفہ کی طرح رات میں اس ہوٹل پر بھی لائٹ شوز
اور فائر ورکس ہوتے ہیں جو کہ پورے شہر میں رنگین روشنیوں کی وجہ بنتے
ہیں۔مگر حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ یہ ہوٹل کتنا خوبصورت ہے یا ہوٹل میں
کیا کیا لگژری سہولیات موجود ہیں بلکہ اصل حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اس
عالیشان اور خوبصورت ہوٹل میں آج تک کوئی بھی مہمان داخل نہیں ہوا۔ |
|
|