’موت کی شاہراہ‘: دنیا کی خطرناک ترین سڑک جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں

 
4800 میٹر بلند درّہ کمبرے سے نکل کر ہماری ٹیکسی دُھند میں داخل ہوئی تو حیرت انگیز طور پر اندر موجود تمام مسافر پُرسکون تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک بلبلے نے ہمیں اپنی حفاظت میں لے لیا ہو، یہ احساس اس لیے بھی اچھا تھا کہ ہم ’کمینو ڈی لا مؤترے‘ یا ڈیتھ روڈ (خونی سڑک) پر محوِ سفر تھے۔
 
یہ سڑک لپاز کے اونچائی پر واقع شہر اینڈیئن سے یونگاس اور ایمازون کے نشیبی علاقوں میں اُترتی ہے۔ 64 کلومیٹر طویل اس سڑک کا نام یونگاس روڈ ہے اور یہ 3,500 میٹر کی بلندی سے اچانک نشیب میں اُترتی ہے۔ سڑک کے بعض حصے محض تین میٹر چوڑے ہیں جس پر کئی مشکل موڑ اور بلائنڈ کارنرز (یعنی نظروں سے اوجھل مقامات) آتے ہیں، جبکہ سڑک کی بغلی چٹانوں سے چھوٹی چھوٹی آبشاریں بھی پھوٹتی ہیں۔
 
اس سڑک پر بہت ہی کم جگہوں پر آپ کو حفاظتی جنگلے لگے نظر آئیں گے، بلکہ ان سے زیادہ تو لب سڑک بنی زیارتیں ملیں گی جن میں سفید صلیبیں، پھولوں کے گلدستے اور ماند پڑتی تصاویر شامل ہیں۔
 
اس سڑک پر 1990 کی دہائی میں پیش آنے والے حادثات میں کئی لوگ مارے گئے تھے۔ اسے سنہ 1932 سے سنہ 1935 تک لڑی جانے والی تباہ کن چیکو وار (جنگ) کے دوران پیراگوئے کے جنگی قیدیوں نے تعمیر کیا تھا۔ اِنٹر امیریکن ڈویلپمنٹ بینک نے اس سڑک کو ’دنیا کی خطرناک ترین سڑک‘ قرار دیا ہے۔
 
ہماری ٹیکسی اچانک سے رُک گئی۔ سامنے سورج چمک رہا تھا۔ میری جانب کھڑکی سے 1000 میٹر نیچے تک ایک بالکل ہی عمودی کھائی نظر آ رہی تھی۔ مخالف سمت سے آنے والا ایک موٹر سائیکل سوار ہماری گاڑی کے بغلی آئینے کو توڑتا ہوا زوں کر کے گزرا۔
 
ہم سے کچھ آگے تین سائکل سوار ایک گھڑے سے خود کو بچاتے ہوئے گزرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگرچہ سڑک کے سب سے خطرناک حصے پر ایک متبادل بائی پاس بنا دیا گیا ہے مگر کئی مسافر سڑک کی اسی ہلاکت خیز بدنامی کو چیلنج سمجھتے ہوئے یہیں سے گزرتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے راستے کی یہ خرابی خوبی یا دلکشی بن گئی ہے۔
 
یونگاس (مقامی زبان ایمارا میں جس کے معنی ’گرم زمینیں‘ ہیں۔ تقریباً 17 لاکھ بولیویئن یہ زبان بولتے ہیں) نہایت زرخیز اور قابل ذکر طور پر حیاتیاتی تنوع سے مال ایک علاقہ ہے جو اینڈیز اور ایمازون کے درمیان واقع ہے۔ یہاں پر پائے جانے والے دو قدرتی وسائل نے صرف لوگوں کی دلچسپی کا باعث رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے غلط فہمیوں اور تنازعات نے بھی جنم لیا، اور وہ ہیں: کوکا اور سونا۔
 
 
ڈیتھ روڈ پر دو گھنٹے تک چلنے کے بعد ہم کوروئکو میں پہنچ کر رُکے، یہ جگہ ایک زمانے میں سونے کی کان کنی کا مرکز ہوا کرتی تھی اور اب سستانے کے لیے ایک تفریحی مقام۔ یہاں کی آب و ہوا اور خوبصورت مناظر لیے پہاڑی سلسلہ طبعیت کو تر و تازہ کر دیتا ہے۔
 
کھانے پینے اور رہائش کا بھی معقول انتظام موجود ہے۔ کورؤکو سے نکلنا آسان نہیں ہے، مگر ایک اعصاب شکن سفر کے بعد یہاں ایک دن گزار کر میں آس پاس کے علاقوں میں جانے کا فیصلہ کیا تاکہ جان سکوں کہ جدید بولیویا کی تراش خراش میں اس خطے کا کیا کردار رہا ہے۔
 
یہاں کی زرخیر مٹی اور کافی مقدار میں ہونے والی بارش کی وجہ سے یونگاس ایک زرعی مرکز کی حیثیت حاصل کر گیا ہے۔ ایک زمانے میں یہاں سے تجارتی سامان سے لدے لاما کے کاروان گزرا کرتے تھے اور یہ علاقے اِن کا اور اس سے پہلے ٹیواناکو جیسی سلطنتوں کی بریڈ باسکٹ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
 
یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ میں نے صدیوں پرانے ایک راستے کے اطراف پہاڑی کھیتوں میں کافی، کساوا، امرود، پپیتے اور کھٹے پھلوں کے باغات دیکھے۔ یہاں بیضوی پتوں اور سرخی مائل بیریوں والے کوکا کے پودے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
 
کوکا ہزاروں سال سے ساؤتھ امیریکن ثقافتوں کا بنیادی عنصر رہا ہے، اور بولیویا اس براعظم کا سب سے بڑا پروڈیوسر، جہاں یہ فصل سینکڑوں مربع میل میں کاشت کی جاتی ہے، اور اس کا دو تہائی حصہ یونگاس میں اُگایا جاتا ہے۔ وٹامنز اور معدنیات سے مالا مال کوکا کے پتے اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماریوں (سانس پھولنا، متلی، تھکاوٹ اور دماغی ورم) سے بچاؤ میں کار آمد ہوتے ہیں، بھوک، پیاس اور تھکاوٹ دور کرنے، ہاضمے اور درد رفع کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ آٹھ ہزار سال سے انھیں مختلف مذہبی رسومات، دوا، بطور کرنسی اور سماجی تعلقات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
 
ہسپانوی نو آبادکاروں نے پہلے پہل تو کوکا کو حرام سمجھا مگر جب اس کے فائدہ ان پر عیاں ہوئے تو اسے تجارتی فصل کا درجہ دے دیا اور رفتہ رفتہ اس کی شہرت بر اعظم سے باہر تک پہنچ گئی۔ انگریزی زبان میں کوکا کا پہلا حوالہ سنہ 1662 میں لندن کے ایک رہائشی ایبراہم کاؤلی کی نظم ’اے لیجنڈ آف کوکا‘ میں ملتا ہے جس میں انھوں نے غذائیت سے بھرپور اور تھکن دور کرنے والی اس عجیب و غریب بوٹی کی تعریف کی ہے۔
 
19ویں صدی میں اس کا ایک جزو کوکین یورپ اور شمالی امریکہ میں بہت مقبول ہوا اور مشروبات، ادویات اور دوسری کئی مصنوعات کا لازمی حصہ بن گیا۔ اس کے اشتہاروں میں دعوٰی کیا جاتا تھا کہ وہ جسم اور دماغ کو تر و تازہ کرتے ہیں۔ اس زمانے کے بہت سے مشاہیر اس کا استعمال کرتے ہوئے دکھائے جاتے تھے۔
 
 
امریکی ریاست جارجیا میں وِن میریانی جیسی مصنوعات کی کامیابی سے متاثر ہو کر فارماسِسٹ اور سابق کنفرڈریٹ سولجر جان پیمبرٹن نے پیمبرٹنس فرینچ وائن کوکا تیار کی، جو دراصل کوکین اور شراب کا آمیزہ تھی، جبکہ اس میں کیفین سے مالا مال کولا نٹ بھی شامل کی گئی تھی۔ یہ مشروب بعد میں کوکا، کولا کی شکل اختیار کر گیا جس میں سے کوکین اور شراب تو نکال دی گئی مگر ذائقے کے لیے کوکین فری کوکا پتوں کا رس اب بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
 
کوکین اور کوکین سے بنی مصنوعات کو 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل تک یورپ اور شمالی امریکہ میں قانونی حیثیت حاصل تھی اور سِگمنڈ فرؤڈ جیسے ماہر نفسیات نے اس پر تجربات کیے اور کئی مقالے لکھے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: ’اس کی ایک چھوٹی سی خوراک نے مجھے ناقابل بیان بلندیوں تک پہنچایا۔‘
 
مگر بعد میں جرائم کی دنیا میں اس کی مقبولیت اور لت کی وجہ سے اس پر پابندی لگا دی گئی جیسا کہ کوکا کے ساتھ ہوا، تاہم بولیویا میں کوکا کا استعمال قانونی رہا۔
 
 
آج کوکا کو بولیویا میں ایک مقدس پودا سمجھا جاتا ہے اور ملک کی ایک تہائی آبادی اسے استعمال کرتی ہے (البتہ کوکین غیر قانونی ہے)۔ ٹامس گریسافی اپنی کتاب ’کوکا یس، کوکین نو‘ میں لکھتے ہیں: کوکا زیادہ تر طبقوں، علاقوں اور نسلی اکائیوں کے لیے قابل قبول ہے۔۔۔ اسے قومی رواج کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ویسے ہی جیسے برطانیہ میں چائے کو۔‘
 
آخرکار میں یونگاس کی دوسری پہچان سونے کے منبعے دریائے کوروئکو پہنچ گیا۔ 350 کلومیٹر لمبا یہ وسیلہ گولڈن رُوٹ کہلاتا ہے اور علاقائی آبگاہوں کو سمیٹتا ہوا یہ ایمازون میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ صدیوں سے سونے کے متلاشیوں کی آماجگاہ ہے۔
 
اگرچہ دریا، ندیوں اور کھاڑیوں کی تہہ میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں تاہم اتنے نہیں کے یہاں آنے والے تمام لوگوں کی بھوک مٹا سکیں۔ یہ ہی سبب ہے کہ یونگاس میں پوشیدہ اور گمشدہ خزانوں کی داستانیں گردش کرتی رہی ہیں۔
 
ایک مذہبی گروہ جیسویٹس کے بارے میں کہانیاں مشہور ہیں کہ انھوں نے مقامی لوگوں پر جبر کر کے جنوبی افریقہ میں بہت دولت جمع کر لی تھی مگر جب ہسپانوی بادشاہ کو محسوس ہوا کہ یہ لوگ زیادہ طاقتور اور خود مختار ہوتے جا رہے ہیں تو انھیں 1767 میں وہاں سے نکل جانے کا حکم صادر کر دیا۔ جلد ہی ان کی دولت کے بارے میں قیاس آرائیاں گردش کرنے لگیں، تاہم ان کی سچائی ثابت نہیں ہو پائی۔
 
 
سال 2007-8 کے عالمی مالی بحران کے نتیجے میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یونگاس اور ایمازون کے بولیویئن حصے میں سونے کی تلاش بھی کچھ زوروں پر ہے۔ سوِل سوسائٹی کی تنظیموں کے اتحاد ’ایمازون سوشیو اِکنامِک جیو ریفرنسڈ انفارمیشن پراجیکٹ‘ کی سال 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر کان کنی غیر قانونی اور منظم جرائم کا حصہ ہے جس کی وجہ سے آبی گزرگاہیں زہریلی ہو رہی ہیں اور جنگلات کا صفایا ہو رہا ہے۔
 
مگر کوروئکو میں اس کے کوئی آثار نہیں تھے۔ میں واپسی کے سفر کے لیے ٹیکسی کے بھرنے کا انتظار کرتے ہوئے کوکا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ ہمیں اسی ڈیتھ روڈ پر سے گزرنا تھا۔ ایسے میں یہاں مجھے سونے کی جو واحد جھلک نظر آئی وہ وادی پر سے ڈوبتے سورج کی وہ سنہری کرنیں تھیں جو اینڈیئن کی پہاڑیوں کے دامن پر منعکس ہو رہی تھیں۔
 
شفیق میگی ’کراسڈ آف دا میپ: ٹریولز اِن بولیویا‘ کتاب کے مصنف ہیں۔
 
Partner Content: BBC Urdu

سیر و سیاحت

پاکستان میں بنی دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم جہاں پہنچنے کے لیے بادلوں سے گزرنا پڑتا ہے

اس علاقے میں ایک عجیب سی کشش ہے... دنیا کا انوکھا جنگل جس کے درخت پتھر بن چکے ہیں

نمبر 3 پر بیٹھ کر تو لوگ رو پڑتے ہیں۔۔۔ انسان کے ہوش اڑا دینے والے دنیا کے 7 جھولے

9 حیران کن چیزیں جو ثابت کرتی ہیں جنوبی کوریا پہلے ہی مستقبل میں پہنچ چکا ہے

مزید سیر و سیاحت...