بل کھاتی ندیاں، برف، پہاڑ اور 180 سرنگیں، بلند ترین ریلوے لائن کا ایسا خوبصورت سفر کہ دل چاہے کبھی ختم نہ ہو

 
ناروے کے دارالحکومت اوسلو کو اس کے سب سے خوبصورت شہر برگن سے جوڑنے والی 496 کلومیٹر طویل اوسلو، برگن ریلوے لائن دنیا کی خوبصورت ترین ٹرین لائنوں میں سے ایک ہے جس کے راستے میں 39 ریلوے سٹیشن آتے ہیں۔
 
میں نومبر کی ایک سرد صبح اوسلو سے برگن جانے والی ایک ٹرین میں سوار ہوا۔
 
میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ناروے کو ایکسپلور کر رہا ہوں۔ پہلی بار جب میں يہاں آیا تو اس کے نظاروں نے مجھے بہت مسحور کیا اور اس کے بعد سے کم از کم ایک درجن بار میں یہاں آ چکا ہوں۔
 
میں ناروے کی سرزمین کے انتہائی شمال میں واقع مقام (نکالوڈین) سے لے کر اس کے انتہائی جنوبی میں واقع لنڈسنس فائر تک سفر کر چکا ہوں۔ یہاں میں نے وھیل اور دریائی گھوڑے دیکھے ہیں۔ میں نے سوالبارڈ میں گلیشیئرز کے پار پیدل سفر کیا ہے اور کرسٹیان سینڈ میں ملک کے واحد تاڑ کے درخت کے نیچے کھڑا ہو چکا ہوں۔ میں نے سردیوں میں قطب شمالی کی روشنیوں کو دیکھا ہے اور گرمیوں میں آدھی رات کے سورج کے نیچے پارٹیاں کی ہیں۔
 
لیکن پتا نہیں کیوں، میں نے پہلے کبھی اوسلو، برگن ریلوے سے سفر نہیں کیا۔ میں اس کے بارے میں جتنا سوچتا ہوں اتنا ہی عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ اس کا ذکر دنیا کے سب سے خوبصورت ٹرین کے سفروں میں باقاعدگی سے ہوتا رہا ہے۔ اور میں یہ سفر کرنے سے محروم رہ گیا تھا۔
 
میں نے اس کے متعلق اپنی تحقیق کی تھی۔ میں جان چکا تھا کہ اگر میں نومبر کے ایک مختصر دن میں صبح 08:25 کی ٹرین لیتا ہوں تو دن دن کی روشنی میں ساڑھے چھ گھنٹوں پر محیط 496 کلومیٹر کا سفر طے کر سکوں گا۔ اوسلو سے روزانہ کل پانچ ٹرینین برگن جاتی ہیں۔ میں یہ بھی جان چکا تھا کہ بہترین نظارے کے لیے ٹرین کے بائیں جانب (دائیں جانب اگر برگن سے سفر کر رہا ہوں) کھڑکی والی سیٹ بک کروانا بہتر ہو گا۔
 
اور جب ٹرین پلیٹ فارم سے نکلی تو مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میں اس لمحے کا ایک زمانے سے انتظار کر رہا تھا۔
 
جیسے، اوسلوفجورڈ کے آرائشی ہنر کی پہاڑیوں پر بنے لکڑی کے خوبصورت گھر۔ اسکر اور سینڈویکا سے گزرتے ہوئے ٹرین نے رفتار پکڑ لی تھی اور پھر یہ فجورڈ کو عبور کر کے تیزی سے ترقی کرنے والے مسافروں کے شہر ڈرمن سے گزر رہی تھی۔ اس کی پہاڑیوں پر خوبصورت ترین قسم کی شہری آبادی پھیلی ہوئی تھی۔
 
 
ابھی ڈرمن کے مغرب میں زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ ریل کی پٹری شمال کی طرف مڑ گئی۔ اس ٹریک کو اتنی مہارت سے بنایا گیا ہے کہ سمت میں تبدیلی کا بمشکل ہی احساس ہوتا ہے۔ ایک منٹ پہلے ہم مغرب کی طرف سفر کر رہے تھے اور اگلے ہی لمحے ہم شمال کی طرف جا رہے تھے اور اس تبدیلی کا اعلان کرنے کے لیے دور تک پھیلے مناظر ہی کافی تھے کیونکہ اچانک پہاڑیاں اونچی ہو گئیں، اور صاف ستھرے الپائن سبزہ زار اور صنوبر پوش پہاڑی دامن گہری وادیوں میں پھیلے نظر آئے جہان چھوٹے دیہاتوں اور دور دور بنے فارم ہاؤسز ان کے ساتھ لگے تھے۔
 
تبدیلی دھیرے دھیرے آ رہی تھی۔ ٹرین کی سست رفتار نے اشارہ کیا کہ اب ریل گاڑی اونچائی کی جانب رواں ہے۔ ہم ایک خوبصورت چٹانی کھاڑی سے ہوتے ہوئے ایک وادی میں داخل ہوئے۔ جب ہم وہاں سے نکلے تو ہم وادی کے فرش سے اونچے درے سے گزرے جہاں سے ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ سب بہت نیچے نظر آ رہا تھا جسے ابھی ہم چھوڑ کر آئے تھے۔
 
اور پھر، بغیر کسی واضح انتباہ کے ہم ایک سرنگ سے نکلے تو سامنے برف ہی برف تھی اور ہم ہارڈینجر وِدا کے ایک وسیع پہاڑی سطح مرتفع پر تھے۔
 
جورگن جوہانسن نے مجھ سے کہا کہ ’مجھے اس راستے پر پہلی بار سفر کرنے والے لوگوں کے چہرے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔‘
 
جوہانسن نے ناروے کے ریل حکام کے لیے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک کام کیا ہے۔ انھوں نے کہا: ’میں کبھی بھی ان نظاروں سے نہیں تھکتا، لیکن لوگوں کے چہروں پر حیرت کی جھلک ہی مجھے سب سے زیادہ پسند آتی ہے۔‘
 
ٹرین اب یورپ کے سب سے بڑے اور اونچے سطح مرتفع ہارڈینجر وِدا پر ہے۔ یہ سطح مرتفع تقریباً 6,500 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور سطح سمندر سے بلندی پر ہے۔ یہاں آنے کے ساتھ ہی یہ سفر بالکل مختلف ہو جاتا ہے۔ ایک ہی ساتھ یہ احساس ہوتا ہے جو کہ سچ ہے کہ یہ شمالی یورپ کی سب سے اونچی مین لائن ریلوے اور انجینئرنگ کا کمال ہے۔
 
 
یہ یورپ براعظم کے شمال میں واقع قدیم ترین ارضیاتی تشکیلات میں سے ایک ہے۔ ہارڈینجر ودا اور اس کی وادیوں کو گلیشیئرز نے برفانی کچرے کو سمندر کی طرف لے جانے کے ذریعے ہزاروں سالوں میں تشکیل دیا تھا۔ بہر حال جو چیز ہزاروں سال تک برف کے آنے سے اور وقت کے ناقابل تسخیر سفر کے نتیجے میں تیار ہوئی ناروے کے ریل اور سڑک بنانے والوں نے اسے دہائیوں میں پورا کر لیا۔
 
جب سنہ 1872 مین برگن لائن کا پہلا سروے کیا گیا تو اس وقت ناروے ایک خوشحال یورپ کی ایک غریب دور افتادہ علاقہ محض تھا۔ تیل کی دریافت جو ملک کو بدل دے گی ابھی تقریباً ایک صدی دور تھی۔ اس وقت پیسہ کہاں سے آئے گا اس کے بارے میں بہت بحث تھی، اور بہت سی غلط چیزیں شروع کی گئی تھیں۔ اس وقت، سارڈائن اور ہیرنگ مچھلیوں کی برآمد نے ناروے کے قومی بجٹ کو برقرار رکھا۔ ایسے میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے بہت کچھ نہیں بچا تھا۔
 
اس کے باوجود لائن پر کام سنہ 1875 میں شروع ہوا اور یہ سنہ 1909 تک پورا ہو گیا۔ اس کے راستے میں 39 سٹیشن (جن میں سے کچھ صرف لوکل ٹرینوں کے لیے ہیں) بنے۔ یہ راستہ کچھ انتہائی مشکل اور سانپ کی طرح لہراتے مقامات سے گزرتا ہے جس کے بارے میں آپ بس تصور ہی سکتے ہیں۔
 
ہارڈینجر ودا بدنام زمانہ طور پر غیر مہمان نواز ہے۔ موسم کی تبدیلی ان میں سے ایک مستقل چیلنج تھا جس کا سامنا لائن بنانے والوں کو رہا۔ انھوں نے زیادہ سے زیادہ سیدھے راستے کی تلاش میں 180 سرنگیں بنائیں،یعنی ہر 2.75 کلومیٹر ٹریک پر ایک سرنگ۔
 
ناروے کی ٹرانسپورٹ مؤرخ لیسبتھ نیلسن نے مجھے بعد میں برگن میں بتایا کہ ’اوسلو، برگن ریلوے ایک بہت ہی ناروے قسم کی کہانی بیان کرتی ہے۔۔۔ جب ناروے میں گھومنے کی بات آتی ہے تو راستے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ آ جاتا ہے۔ اگر ہم پہاڑوں یا چٹانی دروں کو ہمیں روکنے دیں تو ہم کبھی کہیں نہیں جا سکیں گے۔ اس لیے انھوں نے سرنگیں اور سڑکیں اور ریلوے لائنیں بنائیں جو ہر کسی کے لیے ناممکن لگیں۔ یہ اس چیز کا ایک حصہ ہے جو ہمیں نارویجن بناتا ہے۔‘
 
 
جب ہم گیلو کے سکی ٹاؤن یعنی نصف مسافت تک اور 794 میٹر کی بلندی پر پہنچے تو جس دنیا میں ہم نے اب تک سفر کیا، اس سے کوئی مشابہت نہیں رہی۔ گہری برف زمین کے لینڈ سکیپ پر چھا گئی اور کراس کنٹری سکیئرز ٹرین کو چھوڑ کر پلیٹ فارم سے باہر اور پہاڑیوں پر نکل گئے۔
 
اسٹاؤسیٹ (990 میٹر) کے اوپر اس کی برفانی جھیل کے ساتھ کیبنوں سے ڈھکے مناظر میں قطبی ہرن ایسے سینگ اٹھائے کھڑے تھے جیسے وہ نیلے آسمان میں سوراخ کر دیں۔ ناروے جنگلی قطبی ہرن کا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہاں 10,000 ہرن اب بھی آزاد گھومتے ہیں۔
 
اس راستے پر بلند ترین مقام پر جو سٹیشن ہے وہ فائنس سٹیشن ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1,222 میٹر کی بلندی پر ہے اور جاڑے کے اس موسم میں بھی بھاری سامان کے ساتھ پیدل سفر کرنے والوں کا ایک گروپ ٹرین میں سوار ہوتا ہے جن کی داڑھیوں اور جوتوں سے ابھی بھی برف چپکی ہوئی ہے۔
 
جوہانسن نے کہا کہ ’یہ سفر کا میرا پسندیدہ حصہ ہے۔ سب کچھ ڈرامہ ہے، اور یہاں پر ہارڈینجر ودا وہ جگہ ہے جہاں گاڑیاں ہمیشہ خاموش ہو جاتی ہیں۔‘
 
اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ کوئی بھی نہیں بول رہا تھا اور جب اعلان کرنے والے نے خاموشی کو توڑ کر مرڈل میں ہماری آمد کا اعلان کیا، تو میں اکیلا نہیں تھا جو انسانی آواز سے چونک گیا تھا۔
 
 
مرڈل سٹیشن (867 میٹر) پر ایک ٹرین ایک دوسری ذیلی لائن پر انتظار کر رہی تھی۔ مرڈل دنیا میں سب سے کھڑی یا عمودی ریلوے لائنوں میں سے ایک ہے۔ مرڈل سے فلام تک آرلینڈ کے فجورڈ کے کنارے جہان ساگنے فجورڈ ایک اندرونی بازو 20 سرنگوں کے درمیان اس طرح مڑتا اور گھومتا ہے کہ صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے کے درمیاں بلندی میں 866 میٹر کی کمی ہو جاتی ہے یعنی 1:18 کے میلان پر ٹرین نیچے آتی ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں کہ ناروے کی ٹرین نہ پہنچ سکے۔
 
اگر ہارڈینجر ودا پر چڑھنا ایک دھیما اور رفتہ رفتہ ہونے والا عمل تھا لیکن ووس شہر کی طرف اترنا بہت تیزی سے ہوا۔ برف کم ہوتی گئی۔ زمین پھر سر سبز ہونے لگی۔ اور دریا، جھیلیں اور پھر چٹانی وادیاں صاف اور نیلگوں نظر آنے لگيں۔ یہاں ایک اور ناروے تھا، جہاں ٹریک ایک کے بعد ایک چٹانی وادیوں (فجورڈ) سے گزر رہی تھی۔ جیسا کہ ہم اوسلو سے کئی گھنٹے پہلے روانہ ہوئے تھے ریلوے ٹریک نے جہان مشکل سرزمین کو سر کیا وہیں اس کے سامنے ہتھیار بھی ڈالے۔ پورے سفر میں اس آخری فجورڈ کے کنارے والے خمدار چکر سے زیادہ خوشگوار وقت اور کوئی نہیں تھا۔
 
اور پھر برگن آ گيا۔ ٹرین اس باوقار شہر کی سات پہاڑیوں اور سات پہاڑیوں کے درمیان موجود سات فجورڈ کے بیچ سے گزرتی ہوئی سٹیشن پہنچی۔ راستے میں سفید دھلی لکڑی کی عمارتیں، شہر کے مرکز کے اوپر پہاڑیاں اور خزاں کے پتوں نے پورے شہر کو سنہری رنگ میں رنگ دیا تھا اور اس طرح ہم شاندار مورال والے ٹرین سٹیشن تک پہنچے۔ یہ ایک شاندار سفر کا ایک مناسب اختتام تھا۔ اور منزل کے پہنچنے جوش میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں نے ابھی پہلی بار ناروے کو دیکھا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu

سیر و سیاحت

بلوچستان کے پر فضا مقام مولا چٹوک کی تاروں بھری رات اور خوبصورت آبشاریں

پاکستان کی 8 خوبصورت ترین سڑکیں - پہلے نمبر پر کونسی؟

پاکستان میں بنی دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم جہاں پہنچنے کے لیے بادلوں سے گزرنا پڑتا ہے

اس علاقے میں ایک عجیب سی کشش ہے... دنیا کا انوکھا جنگل جس کے درخت پتھر بن چکے ہیں

مزید سیر و سیاحت...