|
|
لاہور کے جغرافیے اور ثقافتی شناخت کو تشکیل دینے والا
دریا راوی اب جیسے تھک کر نیم مردہ ہو چکا ہے، اور ڈویلپمنٹ کے نام پر اس
کے بچے کھچے جسم کے مزید ٹکڑے کیے جا رہے ہیں۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہی حالات رہے تو کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں بہنے
والا دریائے راوی اپنا وجود کھو دے گا اور اس کی عظمتِ رفتہ کے قصے تاریخ
کی کتابوں تک محدود ہو جائیں گے۔
مورخین لاہور کی تہذیب کو راوی کا مرہونِ منت سمجھتے ہیں جس نے شہر کی
ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے پانی اور تجارت کے لیے راستہ فراہم کیا۔
عام لوگوں کے لیے راوی ایک دیوتا کی طرح ہے جو منتیں پوری کرتا ہے اور بدلے
میں جلتے چراغوں اور تازہ پھولوں کا نذرانہ وصول کرتا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو نے
راوی سے جڑی عام زندگی کے رنگ اور اس کے وجود کو لاحق ممکنہ خدشات کا مختصر
جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ملاحوں کا اعتماد جیتنے میں ناکام راوی
ایک وقت تھا جب لاہور شہر کی زندگی راوی کے گرد گھومتی تھی۔ یہ نہ صرف شہر
کو سیراب کرتا بلکہ ہندوستان، ایران اور عراق کے درمیان سمندری تجارت کا
ایک اہم راستہ بھی تھا۔ راوی کے ذریعے لاہور کی منڈیوں میں سرہند سے چاول،
مراد آباد سے گندم، ملتان سے چینی، آگرہ سے مسالہ جات اور پٹنہ سے ریشم
پہنچا کرتا تھا۔ مگر یہ بہت دور ماضی کی بات ہے جب راوی کا جوبن دیکھنے کے
لیے بادشاہ اور مہاراجے اس کے کنارے خصوصی بارہ دریاں تعمیر کیا کرتے تھے۔
تازہ ترین صورتحال جاننے کے لیے ہم راوی پہنچے تو کوڑے کی ڈھیریوں، کنارے
پر واقع چند جھونپڑیوں، بدبودار پانی اور انتظار کھینچتے چند ملاحوں نے
ہمارا استقبال کیا۔ راوی کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہی وہ دریا
ہے جسے بطور ریفرنس استعمال کرتے ہوئے اقبال نے 'کنارِ راوی‘ جیسی خوبصورت
نظم لکھی اور سجاد علی نے مشہور گیت 'جے راوی وچ پانی کوئی نئیں، تے اپنی
کہانی کوئی نئیں‘ گایا تھا۔
لکڑی کے ایک سبز تختے پر دو بزرگ بیٹھے تھے، ہم نے ان سے راوی کتھا چھیڑی
تو انہوں نے بالکل بھی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم کشتی
میں بیٹھیں تاکہ انہیں چار پیسے ملیں اور دن بھر کا انتظار اکارت نہ جائے۔
|
|
|
دریا کے سامنے کامران کی بارہ دری ہے جسے بابر کے بیٹے
کامران نے تعمیر کروایا تھا اور اس کا کچھ حصہ درختوں کے جھنڈ میں آج بھی
شکوہ رفتہ میں گم کھڑا ہے۔ پانچ سات کشتیاں تھیں اور اتنی ہی سواریاں۔
نوجوان ملاح نے دو چار منٹ میں پار اتار دیا، ہم نے بارہ دری جانے کے بجائے
اس سے گپ شپ شروع کی۔
حشمت علی کہنے لگا، ”صبح آتے ہیں اور شام ڈھلے بمشکل چند سو روپے لے کر گھر
لوٹتے ہیں۔ گرمیوں کے دن ویسے بھی سنسان ہوتے ہیں، سردیوں میں لوگ دھوپ میں
نکلنا چاہیں تو یہاں آ کر کیا کریں گے تب پانی ہی نہیں ہوتا۔ ایک سواری سے
دو سو روپیہ لیتے ہیں۔ آبائی پیشہ ہے اسے چھوڑ دیں تو کیا کریں۔"
ماضی قریب میں راوی لاکھوں لوگوں کے رزق کا ضامن تھا، لاہور تک تقریباً 80
دیہات اس کے پانی سے سیراب ہوتے، یہاں مچھلیوں کی کم و بیش 42 قسمیں پائی
جاتی تھیں، مگر اب بوڑھا راوی اپنے چند ملاحوں کا اعتماد جیتنے میں بھی
ناکام ہے۔
راوی کی کُل کائنات: مون سون، چند چراغ اور
مٹھی بھر گلاب
منظور احمد کا خاندان کئی نسلوں سے راوی کنارے آباد ہے۔ ان کے پاس ایک
سرٹیفیکیٹ ہے جس میں 1988 کے سیلاب کے دوران ان کی کوششوں پر انہیں خراج
تحسین پیش کیا گیا ہے۔
راوی کے سنہرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”راوی
کے کنارے ہر وقت آباد تھے، 2016 سے پہلے تک یہاں خوب چہل پہل رہتی، شب برات
کے موقع پر بہت بڑا میلہ چراغاں سجتا۔ اب تو دریا سے اتنی بدبو آتی ہے کہ
آپ یہاں بیٹھ نہیں سکتے۔"
|
1980 کی دہائی میں عطا اللہ عیسی خیلوی کا ایک
گیت پی ٹی وی پر نشر ہوا تھا جس کے بول تھے، 'وگدی اے راوی وچ سُٹاں کنگنا،
میں تے رب کولوں ہن بس ماہی منگنا۔‘ یہ راوی کی اس کلچر کی طرف اشارہ ہے جو
لوگوں کی دلی مرادیں پوری کیا کرتا تھا۔
اس حوالے سے منظور احمد کہتے ہیں، ”یہاں نوجوان جوڑے کثرت سے منتیں مانگنے
آیا کرتے تھے، کشتی کو سجایا جاتا، اس پہ چراغ اور مٹھائی رکھی جاتی اور
پھر دریا کے سپرد کر دیا جاتا۔ جو دریا کے سپرد ہوا اس کا بیڑا پار ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ”شام کے وقت سورج کی سنہری کرنیں راوی میں پڑتیں تو ایسے
لگتا جیسے پگھلا ہوا سونا بہہ رہا ہے۔ گلاب کے پھول تیر رہے ہوتے، جیسے ہی
اندھیرا پڑتا چراغ جل اٹھتے، پھر چراغ پانی میں بہائے جاتے اور یوں راوی سے
رخصت لی جاتی۔"
ہم راوی کنارے جھونپڑیوں کی طرف گئے تو ایک سادھو نظر آیا جو سگریٹ کے کش
لگاتے راوی کو تکے جا رہا تھا۔ گپ شپ کرنے پر اس نے بتایا، ”جھونپڑی میں
رہتا ہوں، دو چھوٹے بچے ہیں جو دریا سے سکے چنتے ہیں۔
”منتیں مانگنے کے لیے آتے ہیں تو کچھ لوگ دریا کی طرف سکے اچھال دیتے ہیں،
اب دریا کون سا ڈُنگا ہے، سو بچے وہ سکے جمع کرتے ہیں، تین چار سو جمع ہو
جاتے ہیں۔ پہلے لوگ کچا گوشت بھی لایا کرتے تھے، کچھ دریا میں پھینکا کچھ
بچوں میں بانٹ دیا۔" |
|
|
منظور احمد کہتے ہیں، ”اب کچھ لوگ اوپر راوی کے پل پر شاپروں میں گلاب اور
گوشت لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جس نے منت مانگنی ہو یا راوی کو نذرانہ پیش کرنا
ہو وہ پل کے اوپر سے ہی پھول پھینک دیتا ہے، ظلم یہ کہ لوگ شاپر سمیت
پھینکتے ہیں جس سے راوی مزید گندا ہو رہا ہے۔ اب تو لوگ یہ بھی نہیں جانتے
کہ دریا کو پھول کیسے دان کرتے ہیں۔ مون سون کا پانی، چند چراغ، مٹھی بھر
گلاب اور پریشان حال ملاح، اب راوی کی کُل کائنات یہی ہے۔ مٹھی بھر گلاب سے
بوڑھا راوی دوبارہ جوان نہیں ہو سکتا۔"
راوی بچاؤ لاہور بچاؤ
لاہور میں تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے ابوذر مادھو نے کچھ طلبہ کے
ساتھ مل کر 'راوی بچاؤ تحریک‘ شروع کر رکھی۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”ستائیس سو انڈسٹریاں راوی
میں اپنا گندا پانی پھینک رہی ہیں، راوی ڈیولپمنٹ اتھارٹی دریا کی 46
کلومیٹر زمین پر شہر بسا رہی ہے، اور یہ سب 'ترقی‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
دریاؤں، پہاڑوں اور جنگلوں کی زمینوں پر قبضے کرنا اور آبادی بسانا کونسی
ڈویلپمنٹ ہے؟"
وہ کہتے ہیں، ”معاہدوں کے ذریعے دریاؤں کی تقسیم ایک بے رحم فیصلہ تھا،
دریا تو جیتی جاگتی زندگی ہیں، آپ زندگی کو کیسے ٹکڑوں میں بانٹ سکتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ فیکٹریوں کے تیزابی اور شہر کے گندے پانی کی نکاسی کا ہے جو
راوی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جو پانی لکڑی کی کشتی کو کھا جاتا ہے سوچیے وہ
کتنا زہریلا اور دریائی مخلوقات کے لیے کیسا تباہ کن ہو گا۔ مگر ہماری سوچ
ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے اوپر نہیں اٹھ سکتی۔ ایک تہذیب تیزی سے فنا کے گھاٹ
اتر رہی ہے اور اس کا نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں۔"
|
Partner Content: DW Urdu |