
Getty Imagesامریکی تجارتی محصولات کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراتفری کے دور کے بعد اس ہفتے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں نسبتاً مستحکم رہی ہیں۔لیکن سرمایہ کار اب بھی مارکیٹ کے ایک حصے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جو شاذ و نادر ہی ڈرامائی انداز میں آگے بڑھتا ہے اور وہ ہے ’امریکی بانڈ مارکیٹ۔‘حکومتیں عوامی اخراجات کے لیے رقم جمع کرنے کی غرض سے بانڈز فروخت کرتی ہیں اور اس کے بدلے میں وہ سود ادا کرتی ہیں۔ اس بات کو آسان الفاظ میں یوں سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے کہ جب کسی بھی حکومت کے پاس ریاست کا نظام چلانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تو وہ اپنی عوام سے پیسے مانگتی ہے اور اس کے بدلے میں پیسے دینے والوں کو کہا جاتا ہے کہ تین، چار یا پانچ سال کے بعد آپ کی رقم آپ کو منافع کے ساتھ واپس کر دی جائے گی۔ ریاست عوام سے پیسے بانڈز کی صورت میں لیتی ہے۔حال ہی میں ایک انتہائی نایاب اقدام کے طور پر امریکی حکومت کو اپنے بانڈز پر ادا کی جانے والی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا جبکہ بانڈز کی قیمت خود گر گئی۔اتار چڑھاؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرمایہ کار دنیا کی سب سے بڑی معیشت پر اعتماد کھو رہے ہیں۔یہ بات اتنی اہم کیوں ہے کہ ٹرمپ کو ٹیرف واپس لینے پر مجبور کر دے؟ سرکاری یا حکومتی بانڈ کیا ہیں؟جب کوئی حکومت قرض لینا چاہتی ہے تو وہ عام طور پر مالیاتی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کو بانڈز فروخت کر کے ایسا کرتی ہے، جسے امریکہ میں ’ٹریژری بانڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور پاکستان میں اسے ٹی بِلز کہتے ہیں۔ اس طرح کی ادائیگیاں پہلے سے طے شدہ آئندہ کئی سالوں میں کی جاتی ہیں اور حتمی ادائیگی تب کی جاتی ہے کہ جب بانڈ ’میچور‘ ہو جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں بانڈ کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو جس کام کے لیے پیسے یا سرمایہ درکار ہوتا ہے وہ اُسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پیسے پہلے سے طے شدہ سود کے ساتھ واپس کر دیے جاتے ہیں۔بانڈز خریدنے والے سرمایہ کار بنیادی طور پر مالیاتی اداروں پر مشتمل ہوتے ہیں، جن میں پنشن فنڈز سے لے کر بینک آف انگلینڈ جیسے مرکزی بینک شامل ہیں۔امریکی بانڈز کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟سرمایہ کار سرکاری بانڈز خریدتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے پیسے کی سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ جگہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس بات کا بہت کم خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی حکومت رقم واپس نہیں کرے گی خاص طور پر امریکہ جیسی معاشی سپر پاور۔لہذا جب معاشی حالت خراب ہوتی ہے اور سرمایہ کار غیر مستحکم سٹاک اور حصص کی مارکیٹوں سے پیسہ نکالنا چاہتے ہیں تو وہ عام طور پر اس نقد رقم کو امریکی بانڈز میں رکھتے ہیں۔لیکن حال ہی میں ایسا نہیں ہوا۔ابتدائی طور پر 2 اپریل کو نام نہاد ’لبریشن ڈے‘ ٹیرف کے اعلان کے بعد جب حصص میں گراوٹ آئی تو سرمایہ کار امریکی بانڈز کی طرف آتے نظر آئے۔تاہم جب ان محصولات میں سے پہلا 5 اپریل کو نافذ ہوا اور ٹرمپ نے اس ہفتے کے آخر میں اپنی پالیسیوں کو دگنا کر دیا تو سرمایہ کاروں نے سرکاری بانڈز کو ڈمپ کرنا شروع کر دیا یعنی ان سے جان چھڑائی اور اپنا سرمایہ بچانا شروع کر دیا۔ اس کی وجہ سے امریکی حکومت کو قرض لینے کے لیے سود کی شرح میں تیزی سے اضافہ کرنا پڑے گا۔10 سالوں میں امریکی حکومت کے قرضوں کے لیے نام نہاد منافع 3.9 فیصد سے بڑھ کر 4.5 فیصد ہو گیا جبکہ 30 سال کی پیداوار میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہوا۔ کسی بھی سمت میں 0.2 فیصد کی نقل و حرکت کو ایک بڑی بات سمجھا جاتا ہے۔چِپس کی جنگ اور ٹرمپ کی حکمت عملی: امریکہ جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایشیا کا مقابلہ کر پائے گاتجارتی جنگ: کیا صدر ٹرمپ کے ٹیرف منصوبے کا واحد مقصد چین کو نشانہ بنانا تھا؟ٹرمپ کا ’حیران کُن یوٹرن‘: آئی فونز کو 125 فیصد اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ کرنا تجارتی جنگ میں امریکہ کی پسپائی ہے؟چین فیکٹر اور سوشل میڈیا تجارتی جنگ: امریکہ کو خود اپنے بنائے فری ٹریڈ نظام سے کیوں نکلنا پڑا؟ڈرامائی انداز میں بانڈز کی فروخت کیوں؟ مختصر یہ کہ امریکی معیشت پر محصولات کے اثرات کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کار اب سرکاری بانڈز کو محفوظ نہیں سمجھتے لہذا انھیں خریدنے کے لیے بڑے منافع کا مطالبہ کرتے ہیں۔جتنا زیادہ خطرہ ہے اتنا ہی زیادہ منافع سرمایہ کار اسے لینے کے لیے حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں۔Getty Imagesیہ عام امریکیوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟اگر امریکی حکومت قرضوں کی ادائیگی پر سود کی مد میں زیادہ خرچ کر رہی ہے تو اس سے بجٹ اور عوامی اخراجات متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ حکومت کے لیے خود کو برقرار رکھنا اور نظامِ حکومت چلانا زیادہ مہنگا اور مُشکل ہو جاتا ہے۔لیکن اس کا براہ راست اثر عام آدمی کے گھر پر بھی پڑ سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ کاروبار پر۔آکسفورڈ اکنامکس کے معروف تجزیہ کار جان کیناون کا کہنا ہے کہ ’جب سرمایہ کار حکومت کا پیسہ قرض دینے کے لیے زیادہ شرح وصول کرتے ہیں تو قرضوں میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے، جیسے روزمرہ اخراجات، کریڈٹ کارڈ بِل اور کار کے قرضے بھی بڑھ جاتے ہیں۔‘قرض لینے کی شرح میں فوری تبدیلی سے کاروباری اداروں، خاص طور پر چھوٹے کاروباروں کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے، کیونکہ امریکہ میں زیادہ تر گھروں کے مالکان کے پاس 15 سے 30 سال کے درمیان طے شدہ شرح سودے ہیں۔ اگر کاروباری اداروں کو کریڈٹ تک رسائی نہیں مل سکتی تو اس سے معاشی ترقی رک سکتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ملازمتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔کیناون نے مزید کہا کہ ’بینک قرض دینے میں زیادہ محتاط ہو سکتے ہیں، جس سے امریکی معیشت پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’پہلی بار گھر خریدنے والوں کو بھی زیادہ اخراجات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے طویل مدت میں ہاؤسنگ مارکیٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ’امریکہ میں چھوٹے کاروباری مالکان کے لیے یہ عام ہے کہ وہ اپنے گھر میں ایکویٹی کو ضمانت کے طور پر استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔‘ٹرمپ کو اس کی پرواہ کیوں ہے؟Getty Imagesمحصولات کے نفاذ کے بعد ٹرمپ نے سرمایہ کاروں پر زور دیا تھا کہ وہ سخت رویہ اختیار کریں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملازمتوں اور امریکی معیشت کو لاحق ممکنہ خطرے نے صدر کو ان کی من مانی کرنے سے روک دیا ہے۔بانڈ مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے بعد انھوں نے چین کے علاوہ ہر ملک پر زیادہ محصولات کے لیے 90 دن کی مہلت کا اعلان کیا۔ تاہم تمام ممالک پر 10 فیصد اضافی ٹیرف برقرار ہے۔یہ ٹرمپ کے لیے ایک دباؤ کا نقطہ ثابت ہوا اور اب دنیا اسے جانتی ہے۔کیپیٹل اکنامکس میں شمالی امریکہ کے چیف اکانومسٹ پال ایش ورتھ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سٹاک مارکیٹ کی فروخت کو روکنے میں کامیاب رہے لیکن جب بانڈ مارکیٹ بھی کمزور ہونا شروع ہوئی تو معاملات مختلف جانب چل نکلے۔‘امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ تھے جنھیں کاروباری رہنماؤں کی جانب سے فون کالز موصول ہوئیں جس کے بعد انھوں نے ٹرمپ کو راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔کیا ایسا برطانیہ میں بھی ہو چکا ہے؟ بانڈ مارکیٹ کے رد عمل کی وجہ سے سابق برطانوی وزیر اعظم لز ٹراس کے ستمبر 2022 کے بدنام زمانہ منی بجٹ سے موازنہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس کٹوتی کے اعلان نے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا، جنھوں نے برطانیہ کے سرکاری بانڈز کو چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں بینک آف انگلینڈ نے پنشن فنڈز کو تباہی سے بچانے کے لیے بانڈز خریدنے کے لیے قدم اٹھایا۔کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر فروخت میں اضافہ ہوتا تو امریکہ کے مرکزی بینک، امریکی فیڈرل ریزرو کو قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑ سکتا تھا۔اگرچہ بانڈز کے منافع میں کمی آ چکی ہے لیکن کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے کیونکہ بانڈ کی قدر میں کمی مکمل ٹیرف کے نفاذ سے پہلے ہی نمودار ہو گئی ہے۔ کیپٹل اکنامکس کے ڈپٹی چیف مارکیٹ اکانومسٹ جونس گولٹرمین کے مطابق ’یقینی طور پر (حالیہ) افراتفری کا سب سے پریشان کن پہلو امریکی ٹریژری بانڈز اور ڈالر میں ابھرتا ہوا خطرہ ہے جیسے برطانیہ میں 2022 کے دوران ہواتھا۔‘Getty Imagesچین کو امریکی بانڈز سے کیسے جوڑا جا رہا ہے؟ڈوئچے بینک کے مطابق سنہ 2010 کے بعد سے امریکی بانڈز کی غیر ملکی ملکیت تقریباً دگنی ہو چکی ہے جس میں تین ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں لیکن اس عالمی تجارتی جنگ میں امریکہ کا سب سے بڑا دشمن چین عالمی سطح پر امریکی حکومت کے قرضوں کا دوسرا سب سے بڑا مالک ہے۔چین فیکٹر اور سوشل میڈیا تجارتی جنگ: امریکہ کو خود اپنے بنائے فری ٹریڈ نظام سے کیوں نکلنا پڑا؟تجارتی جنگ: کیا صدر ٹرمپ کے ٹیرف منصوبے کا واحد مقصد چین کو نشانہ بنانا تھا؟عالمی معیشت کی سب سے بڑی طاقت بننے کی دوڑ: کیا ٹرمپ کی ’ٹیرف جنگ‘ کا اصل ہدف صرف چین ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ٹرمپ کا ’حیران کُن یوٹرن‘: آئی فونز کو 125 فیصد اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ کرنا تجارتی جنگ میں امریکہ کی پسپائی ہے؟چینی کارخانوں میں سستی مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چین کی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘چِپس کی جنگ اور ٹرمپ کی حکمت عملی: امریکہ جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایشیا کا مقابلہ کر پائے گا