
بھیک مانگنا اور بھیک مانگنے کو پیشہ بنانا اسلام نے قطعاً ممنوع قرار دیا ہے۔ مگر آج پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہر جانب پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک مانگتے دیکھا جاتا ہے جس کی روک تھام کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں ہو رہے۔
ہماری ویب ڈاٹ کام میں بھیک مانگنے والوں کو صدقہ دینے سے متعلق بتائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیک مانگنے کی نہ صرف ممانعت کی ہے بلکہ اس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔
اسلام کا حکم ہے کہ صاحبِ حیثیت افراد اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ بغیر مانگے حقدار کی مدد کریں تاکہ ضرورت مندوں کو بازاروں، چوکوں، چوراہوں میں مانگنا نہ پڑے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلے ہوئے غربت و افلاس کے سائیوں نے نہ صرف ضرورت مندوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ پیشہ وروں نے بھی بھکاریوں کا روپ دھار لیا ہے۔ بدقسمتی آج تک اس سلسلے میں کوئی قانون سازی بھی نہیں کی جا سکی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر بھیک مانگنے کی ممانعت ان الفاظ میں کی ہے:
اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے)سے بہتر ہے اور (خرچ کرنے کی) ابتدا ان لوگوں سے کرو جن کی کفالت تمہارے ذمّے ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے بعد (یعنی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد) ہو اور جو سوال سے بچنا چاہے اللہ اسے بچا لیتا ہے اور جو لوگوں سے بے نیازی اختیار کرے اللہ اسے بےنیاز کر دیتا ہے۔ (صحیح بخاری 1429).
بھیک کی لعنت کو انفرادی کوششوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب تک اس سلسلے میں کوئی اجتماعی کوشش نہیں ہوتی تب تک استطاعت کے مطابق جس کو جتنا چاہیں صدقہ دے دیں۔ کیونکہ سڑکوں ، گلیوں ، بازاروں اور چوراہوں پر بھیک مانگنے والوں کا فرداً فرداً اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کون حقدار ہے اور کون نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سب کو دینا لازم نہیں، بس جسے حقدار سمجھیں اسے استطاعت کے مطابق صدقہ دے دیں۔