حکومت نے بڑے اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کے باوجود نیو انرجی وہیکل (این ای وی) پالیسی کا اعلان کردیا جس کا مقصد 2030 تک درآمد شدہ اور پاکستان میں مقامی طور پر تیار کردہ تمام نئی گاڑیوں میں سے 30 فیصد کو الیکٹرک پاور پر منتقل کرنا ہے۔ وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے نیوز کانفرنس میں ان اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پالیسی سازی کے عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔تاہم ان کے خطاب کے فوری بعد، پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) نے ایک بیان جاری کیا جس میں مقامی آٹو انڈسٹری پر نئی پالیسی کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔نئی پالیسی میں الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) اور دیگر ابھرتے ہوئے توانائی کے ذرائع جیسے ہائیڈروجن شامل ہیں۔پالیسی کے ایک حصے کے طور پر وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے الیکٹرک موٹرسائیکلوں کے لیے 50 ہزار روپے اور تھری وہیلر (رکشوں) کے لیے 2 لاکھ روپے کی سبسڈی متعارف کرائی ہے، جس کے لیے کُل 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ سبسڈیز نیلامی کے ذریعے تقسیم کی جائیں گی۔ اب تک، دو کمپنیوں کو لائسنس دیے جا چکے ہیں اور 31 مزید درخواستیں زیر غور ہیں۔رانا تنویر حسین نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو این ای وی پالیسی کے تحت فراہم کردہ ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ای ویز پر منتقلی سے پاکستان کی مہنگی درآمدی پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار میں نمایاں کمی آئے گی اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔پالیسی میں پالیسی ریٹ کو 22 فیصد سے کم کرکے 15 فیصدکرنے کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں 3 فیصد کائبور (کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ) پر فنانسنگ دستیاب ہوگی، جس میں حکومت مالیاتی لاگت کا احاطہ کرتی ہے۔صارفین دو سالوں تک ماہانہ تقریباً 9 ہزار روپے کی اقساط ادا کریں گے، یہ رقم ان کی متوقع ایندھن کی بچت سے کم ہے۔فنانس ڈویژن کے زیر انتظام کریڈٹ لاس گارنٹی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وزارت صنعت یا صارفین پر کوئی مالی بوجھ نہ پڑے۔اضافی اقدامات میں 120 ہونہار طلبہ کو مفت الیکٹرک بائیک یا اسکوٹر پیش کرنا اور مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے ای وی اجزا پر ڈیوٹی کم کرنا شامل ہے۔ حکومت ان اقدامات کی حمایت کے لیے ایک نیو انرجی فنڈ اور ایک نیو انرجی وہیکل سینٹر قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔فی الحال، چین کے بڑی عالمی ای وی مینوفیکچرر، بی وائی ڈی گروپ نے پاکستان میں مینوفیکچرنگ لائسنس حاصل کر لیا ہے، جبکہ دیوان موٹرز بھی مکمل ناکڈ ڈاؤن (سی کے ڈی) لائسنس کے تحت اپنی ای ویز لانچ کرنے کے لیے تیار ہے۔پاما کے خدشاتپاما نے انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی پی) کو لکھے گئے خط میں این ای وی پالیسی کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ سی کے ڈیز کے مقابلے میں کم ڈیوٹی اسٹرکچر پر مکمل طور پر تعمیر شدہ یونٹس (سی بی یوز) کی درآمد مقامی صنعت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے دلیل دی کہ SRO 656 کے مطابق مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کے لیے کم از کم سہولیات سے لیس کمپنیوں کو ہی ’سی بی یو‘ کی درآمدات کی اجازت دی جانی چاہیے، تاکہ کباڑ خانہ نہ بنے اور ایسا نہ ہو کہ صارفین کو فروخت کے بعد سپورٹ ہی نہ ملے۔پاما نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ہائبرڈ الیکٹرک وہیکلز (ایچ ای ویز) اور پلگ اِن ہائبرڈ وہیکلز (پی ایچ ای ویز) کے لیے موجودہ پالیسی 2030 تک جاری رکھی جائے، اور اگر پی ایچ ای ویز کو مزید مراعات دی جاتی ہیں، تو وہی ایچ ای ویز کو بھی دی جانی چاہئیں۔ایسوسی ایشن نے تجویز کیا کہ این ای ویز کے لیے ڈیوٹی اور مراعات کو تیسرے سال سے شروع ہونے والی دیگر گاڑیوں کے ساتھ ملایا جائے۔ پاما نے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے طویل مدتی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مقررہ مدت کے اندر سی بی یو درآمد کنندگان کے لیے مقامی مینوفیکچرنگ سہولیات قائم کرنے کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔اس نے این ای ویز کے لیے ڈیوٹی اور مراعات کو 2030 تک مرحلہ وار پیٹرول، ڈیزل یا سی این جی استعمال کرنے والی انٹرنل کمبسشن انجن (آئی سی ای) گاڑیوں کے لیے حاصل مراعات کے مطابق کرنے کی سفارش کی۔ ایسوسی ایشن نے این ای وی پالیسی میں قابل تجدید توانائی والی گاڑیاں، جیسے بائیو گیس ایندھن سے چلنے والی کاروں کو شامل کرنے اور ایچ ای ویز اور پی ایچ ای ویز کے لیے پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی تجویز بھی دی۔