
’سسٹر مڈ نائٹ‘، ’سنتوش‘ اور ’آل وی ایمیجن ایز لائٹ‘ (All We Imagine as Light) خواتین پر مبنی انڈین فلموں کی اس نئی لہر کا حصہ ہیں جو بالی وڈ میں ہیروئن کے روایتی کردار کو چیلنج کرتی ہیں۔یہ ایسی خواتین ہیں، جن کے بارے میں پیشگوئی کرنا آسان نہیں، یہ کبھی بہت مزاحیہ ہیں، کبھی کبھی جنسی طور پر ایڈونچرکی شوقین اور یہ سب مردوں کے گرد چکر لگانے کی بجائے لیڈنگ رولز میں ہیں۔سسٹر مڈ نائٹ، سنتوش، گرلز ول بی گرلز، آل وی ایمیجن ایز لائٹ اور شیڈو باکس سمیت متعدد فلموں کی یہ ہیروئنز دنیا بھر میں لوگوں کو انڈین خواتین کے ایسے کرداروں کو دیکھنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں جو بالی وڈ کی روایتی ہیروئنز سے مختلف ہیں۔لیکن کیا انڈین سنیما میں لوگ انھیں دیکھنا بھی چاہتے ہیں؟ایک ایسی ارینج میرج جو دولہا اور دلہن دونوں نہیں چاہتے تھے، اما، کرن کندھاری کی کامیڈی فلم ’سسٹر مڈ نائٹ‘ کی مرکزی کردار ہیں۔ اس فلم کا پریمیئر سنہ 2024 میں ’کانز‘ فلم فیسٹیول میں ہوا تھا اور اسے بافٹا ایواڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔بالی وڈ کی جانی پہچانی اداکارہ رادھیکے آپتے، جو فلم میں ’اما‘ کا کردار ادا کر رہی ہیں، گھر کے کام کاج کرتے ہوئے خاصی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔ اما کے پڑوسی اُن کو بتاتے ہیں کہ ’مرد کچھ بھی کھا لیتے ہیں بس اس میں نمک مرچ ڈال دو۔‘اما شراب کے نشے میں دھت اپنے شوہر کو بتاتی ہیں کہ ان سے ’بدبو‘ آتی ہے اور جب انھیں صفائی کی ایک نوکری کی پیشکش ہوتی ہے تو طنزیہ انداز میں کہتی ہیں کہ وہ ’گھریلو دیوی‘ ہیں۔آپتے کے مطابق آف بیٹ ڈائیلاگ، فزیکل کامیڈی اور فلم کے ٹریک کے ذریعے یہ فلم انڈیا میں فلمائی گئی کسی بھی ہیروئن کے برعکس کردار کو پیش کرتی ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے پہلے کبھی کوئی ایسی چیز (سکرپٹ) نہیں پڑھی تھی اور میں اس سے انکار نہ کر سکی۔‘’مجھے اما کے کردار نے انتہائی متاثر کیا، وہ پاگل ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ مجھے یہ کردار اپنے جیسا کیوں لگا۔ اس کردار نے مجھے چیلنج کیا۔ مجھے یہ بھی پسند ہے کہ اما کسی کی پرواہ نہیں کرتی اور وہ خود کو جتنا تسلیم کرتی ہے، وہ اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی ہے۔‘اما ایک ایسا نیا کردار ہے جو انڈین سنیما میں خاتون کے ایک مختلف قسم کے مرکزی کردار کو پیش کرتا ہے، ایسا کردار جو بالی وڈ کی روایتی ہیروئنز سے مختلف ہے۔ بالی وڈ نے گذشتہ برس 1.36 ارب ڈالر کمائے لیکن اس پر خواتین کے معاملے میں صنفی امتیاز برتنے اور جارحیت کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔سنہ 2023 میں انڈیا میں ہونے والے ایک تاریخی مطالعے میں ملک کی سب سے بڑی اور کامیاب فلموں میں سے کچھ کا صنفی نمائندگی اور جنس کے بارے میں دقیانوسی تصورات کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔ اس مطالعے میں بالی وڈ کے بہت سے خواتین کرداروں کو ’فارمولہ‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔اس پروجیکٹ کی قیادت کرنے والی پروفسیر لکشمی لنگھم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خاتون کے مرکزی کردار کو پتلا اور خوبصورت ہونا چاہیے۔ اسے شائستہ ہونا چاہیے جو الفاظ کی بجائے اشاروں کے ذریعے اپنی رضامندی کو ظاہر کرے، وہ ایسے کپڑے پہنتی ہے، جو جنسی رغبت کا سبب بنتے ہیں اور اسے اتنا ماڈرن ہونا چاہیے کہ وہ شادی سے قبل کسی مرد کے ساتھ رشتہ بنا سکے۔ فلموں میں اس سے ہٹ کر کچھ مختلف کرنے کی کوشش بہت کم ہی کی جاتی ہے۔‘پروفسیر لکشمی مزید کہتی ہیں کہ سکرین پر مرد اور خواتین، دونوں کرداروں کی عکاسی اہم ہے کیونکہ ’انڈین معاشرے میں، جہاں خاندان اور سکول شاذ و نادر ہی جنسی تعلیم اور رضامندی کے بارے میں بتاتے ہیں، ہمارے تمام رویے کتابوں اور سنیما سے متاثر ہوتے ہیں۔‘’اس کے مقابلے میں سنہ 2023 کی سب سے بڑی بالی وڈ فلموں کے مرد کرداروں کو ’ایلفا میل‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔ وہ سکرین پر باڈی بلڈرز جیسے توانا جسموں کے ساتھ بندوقیں اٹھائے دکھائی دیتا ہے، جو اپنے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔‘ان ہٹ فلموں میں شاہ رخ خان کی ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ شامل ہیں، جس میں وہ ایک جاسوس کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رنبیر کپور کی تشدد سے بھرپور فلم ’جانور‘ میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی دکھانے پر شدید تنقید ہوئی۔ یہ فلم سندیپ ریڈی نے بنائی تھی، جن کی اس سے قبل فلم ’کبیر سنگھ‘ کا مرکزی کردار ایک عورت کا پیچھا کرتا اور اسے ہراساں کرتا ہے۔ یہ فلم سنہ 2019 میں دوسری بڑی بالی وڈ فلم تھی۔بیانیے کو تبدیل کرناسنہ 2019 کی کامیاب ترین بالی ووڈ فلموں میں سے ایک 'مشن منگل' میں خواتین راکٹ سائنسدانوں سمیت خواتین کو بااختیار کرداروں میں دکھانے والی ہٹ فلمیں سامنے آئی ہیں اور صنفی کرداروں پر جدید نقطہ نظر سے تعریف کی جانے والی فلمیں، جیسے کرن جوہر کی راکی اور رانی کی رومینٹک کہانی (راکی اور رانیز لو سٹوری)۔ لیکن اس کے باوجود روزنامہ انڈین ایکسپریس کی فلم نقاد شبرا گپتا اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ انڈیا کی صف اول کی خواتین کو عام طور پر ایسے کرداروں کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ان ہیروئنوں کی بالادستی کا اصول بے حسی ہے۔ ’آپ میں روح کی چمک ہو سکتی ہے یا آپ اپنے ذہن کی بات کر سکتے ہیں لیکن آپ خوبصورتی کے معاملے میں بھی بالکل صحیح ہوں گے اور آپ بہت واضح طور پر معروف آدمی اور وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے اس کے تابع ہوں گے۔ تاہم کچھ مناظر ہوتے ہیں جن میں آپ کو چمکنے کا موقع ملتا ہے۔‘سندھیا سوری کے حالیہ ڈرامے سنتوش میں انھیں ایک با اختیار پولیس افسر کے رول میں دکھایا گیا ہے تاہم وہ ایک دلت خاتون ہیں۔ (انڈین معاشرے میں سب سے نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی)۔سنتوش کو اپنے شوہر کی پولیس افسر کی نوکری وراثت میں ملتی ہے کیونکہ ان کے شوہر دوران ملازمت وفات پا جاتے ہیں۔ سنتوش کا کردار شہانا گوسوامی نے ادا کیا ہے جو ایک پراسرار کردار ہے جو اپنی مقامی پولیس فورس میں بدعنوانی کے خلاف کام کرتی ہیں۔سوری، جو پہلے ایک دستاویزی فلم ساز تھیں، کہتی ہیں کہ وہ سنہ 2012 میں دہلی میں بس میں ایک نوجوان خاتون کی حقیقی زندگی کے گینگ ریپ اور قتل سے بہت متاثر ہوئیں، جس نے دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں جگہ بنائی اور خواتین کے تحفظ کے لیے نئے قوانین بنائے گئے۔ (اس کے باوجود انڈیا میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق شوہر یا اس کے رشتہ داروں کی طرف سے ظلم انڈین خواتین کے خلاف سب سے بڑا جرم رہا ہے۔)سوری نے بی بی سی کو بتایا ’اس وقت ریپ کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے تھے اور میں نے ایک خاتون پولیس اہلکار کی تصویر دیکھی جس کا سامنا کچھ بہت ناراض خواتین مظاہرین کر رہی تھیں۔ میں نے وہ تصویر دیکھی اور میں نے پولیس والے کے چہرے پر تاثرات دیکھے اور یہ اتنا پراسرار تھا کہ میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ یہ بہت دلچسپ تھا۔ دونوں جانب ہی خواتین تھیں۔‘ سوری نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا تاہم امکان اس بات کا بھی تھا کہ وہی سب اُن کے ساتھ بھی ہوتا۔وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’میں پوچھنا چاہتی تھی کہ کیا ایک عورت بننے کا کوئی طریقہ ہے جو مرد ہونے کے بارے میں نہیں ہے، اور نہ ہی مظلوم ہونے کے بارے میں ہے۔‘سنتوش جو ہندی زبان میں بنائی گئی فلم ہے، سنہ 2025 میں بہترین بین الاقوامی فلم کے لیے برطانیہ کی آسکر انٹری تھی۔ سسٹر مڈ نائٹ اور سنتوش دونوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگرچہ وہ انڈیا میں فلمائی گئی تھیں لیکن وہ برطانوی انڈین فلم سازوں نے بنائی ہیں۔ فواد خان کی بالی وڈ فلم ’عبیر گُلال‘ کے ٹیزر پر ہنگامہ: ’پاکستانی اداکاروں کو مشورہ دوں گا وہ انڈین مارکیٹ میں نہ گھسیں، اپنے ملک میں کام کریں‘’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ انڈیا میں ریلیز نہ ہو سکی: ’یہ کرکٹ دشمنی کے سنیما ورژن کی طرح ہے‘بالی وڈ فلموں کے ’بے رحم اور شیطان صفت‘ ولن جو اصل زندگی میں نرم مزاج اور ہنس مکھ ہیںبالی وڈ پر راج کرنے والی ’بدروحوں اور چڑیلوں‘ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟سسٹر مڈ نائٹ کے پروڈیوسروں کو امید ہے کہ یہ فلم سنہ 2025 میں انڈیا میں ریلیز کی جائے گی لیکن سوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سنتوش کو یقینی طور پر وہاں سینما میں ریلیز کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے اسے ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دکھایا اور بہت اچھا رسپانس ملا، اور میں اس بات سے متاثر ہوئی کہ مقامی ناظرین کے لیے یہ فلم کتنی حقیقت سے قریب محسوس ہوئی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ فلم انڈیا میں ریلیز نہیں ہو گی، افسوس کی بات ہے کہ اسے سینسر بورڈ (سی بی ایف سی) کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس میں بہت سے سینز کو کاٹ دیا گیا جس سے فلم اپنی اصل شکل کھو بیٹھی۔‘انڈیا میں سینسر شپانڈیا میں سینسرشپ کے معاملے اکثر تنازعات کا باعث رہے ہیں۔ سنہ 2017 میں جب انڈین فلم ’لپ سٹک انڈر مائی برقعہ‘ پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگائی گئی تھی کہ یہ ’بہت زیادہ خواتین پر مبنی‘ ہے تو اس فیصلے پر بہت شور برپا ہوا تھا۔ لیکن پھر بعد میں منفی تشہیر کے بعد اس فیصلے کو بدل دیا گیا۔لیکن بہت سی بلاک بسٹر فلموں کو از خود سینسر کیا جاتا ہے، خاص طور پر جہاں جنس اور جنسیت کی بات ہو۔سنہ 2021 میں آنے والی تیلگو زبان کی ایک ہٹ فلم ’پشپا: دی رائز‘ ایک سمگلر کی کہانی پر مبنی ہے۔ اس میں سے ناظرین کی شکایات کی وجہ سے ایک منظر کو ہٹا دیا گيا جہاں پشپا (اداکار اللو ارجن نے ادا کیا) ہیروئن سری وللی کے سینے کو چھوتا ہے۔سنہ2024 میں آنے والی اس فلم کے سیکوئل ’پشپا 2: دی رول‘ نے ایک بار پھر انڈیا میں تنازع کھڑا کیا۔ شبھرا گپتا کے مطابق اس میں تنازع کی وجہ یہ تھی کہ یہاں سری وللی (جس کا کردار رشمیکا مندھانا نے ادا کیا ہے) اپنے شوہر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا چاہتی ہے۔شبھرا گپتا اس کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’خاتون کردار جب ہیرو کے پاس آتی ہے تو بہت پیاری حرکت کرتی ہے۔ وہ اس سے خفیہ ملاقات کی خواہش میں قدرے شوخ ہوتی ہے۔ باقی فلم میں وہ ہیرو کی خدمت کرتی نظر آتی ہے لیکن وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر کسی اور کے ساتھ جنسی تعلق نہ رکھے۔ اور یہی بات انڈیا میں مسئلہ بن جاتی ہے کیونکہ لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ فلموں کوئی ہیرو سے اس طرح کی بات چیت کرے۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ دوسری جانب ’ہمارے مرکزی دھارے کی فلموں میں یہ دیکھا گيا ہے کہ اگر کوئی عورت شادی کے باہر کوئی جنسی تعلق قائم کرتی ہے تو اس کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس طرح پائل کپاڈیہ کی مشہور فلم ’آل وی امیجن ایز لائٹ‘ کو جنس کے معاملے میں زیادہ بےباک کہا جا سکتا ہے۔ کینز فلم فیسٹیول کے گراں پری کی پہلی انڈین فاتح فلم ایک نرس پربھا کی کہانی پر مبنی ہے جنھیں ان کی خاندان کی طے کردہ شادی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دریں اثنا اس کی ہندو فلیٹ میٹ انو اس کے مسلم بوائے فرینڈ کے ساتھ مباشرت کرنا چاہتی ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک ممنوع چیز ہے۔ اس میں پہلے سے شادی کی کوئی بات نہیں ہے۔اس فلم ’آل وی امیجن ایز لائٹ‘ کی تعریف و توصیف تو خوب ہوئی لیکن اسے انڈیا کی جانب سے سنہ 2025 کے لیے آسکر انٹری کے طور پر منتخب نہیں کیا گیا (جیوری نے اسے ’انڈیا میں بننے والی ایک یورپی فلم‘ قرار دیا)۔لیکن یہ سنہ 2024 میں کسی انڈین خاتون ہدایت کار کی واحد فلم نہیں تھی جس میں ایک نوجوان عورت کی جنسی بیداری کو سکرین پر پیش کیا گیا تھا۔ اسی طرح کی ایک فلم شوچی تلاتی نے بنائی۔ اور ان کی فلم ’گرلز ول بی گرلز‘ کو سن ڈانس فلم فیسٹیول میں ناظرین کی پسندیدہ فلم کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ فلم انگریزی اور ہندی زبان میں بنائی گئی ہے۔ یہ ہمالیائی علاقے کے ایک بورڈنگ سکول کی کہانی پر مبنی ہے جس میں ایک 18 سالہ لڑکی کو پہلی بار ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے لیکن اس کی محبت میں اس کی ماں کی وجہ سے خلل پڑ جاتا ہے۔لیکن سماجی 'اصولوں' کو توڑنے والی انڈین فلموں کو بین الاقوامی سطح پر پہچان مل چکی ہے۔ اس سے قبل میرا نائر کی مانسون ویڈنگ (2001) سے لے کر 'لپ سٹک انڈر مائی برقعہ (2016) اور 2014 کی ایل جی بی ٹی کیو پلس میں نوعمروں کی محبت کی کہانی 'مارگریٹا ود اے سٹرا' وغیرہ شامل ہیں۔شبھرا گپتا کہتی ہیں کہ سینما گھروں میں ٹکٹوں کی اونچی قیمتوں کے پیش نظر بین الاقوامی سامعین کا کیا ردعمل ہو گا اور مرکزی دھارے کے انڈین ناظرین کیا دیکھنے کے لیے پیسے خرچ کریں گے، اس کے درمیان ابھی بھی کافی فرق ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ فلمیں جن کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ آزاد انڈین فلم کا حصہ ہیں۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ انڈیا میں بہت سے ناظرین سسٹر مڈ نائٹ کی اوما اور سنتوش جیسی ہیروئنوں پر 'بے اعتباری' ظاہر کریں گے کیونکہ وہ بہت غیر روایتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اس بات کو ہضم نہیں کر سکیں گے کہ نچـلی ذات سے تعلق رکھنے والی دلت خاتون سنتوش کو مرکزی کردار بنایا جائے اور یہ کہ وہ بیانیہ چلائے۔ یہاں یہ بہت مشکل ہو گا۔‘اسی طرح ان کے مطابق رادھیکا آپٹے کا کردار اوما ہے جو کہ نافرمان بیوی ہے۔ وہ ہر طرح کے الٹے پلٹے کام کرتی ہے۔ یہ بہترین فلمیں ہیں جو کسی سٹریمنگ پلیٹ فارم پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں یا انھیں باذوق سامعین ملیں گے لیکن سمجھدار سامعین اتنی تعداد میں نہیں ہوتے جو ایک بڑے بجٹ کی بالی وڈ فلم کو ملتے ہیں۔فرسودہ نظریات کے خلاف بات کرنابنگالی زبان کی فلم ’شیڈو باکس‘ کے ہدایت کار تنو شری داس اور سومیانند ساہی کا کہنا ہے کہ انڈیا کے فلم سازوں کو اب بھیاپنے فلم بینوں کے لیے روایتی اور فرسودہ تصورات کو توڑنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ اس سال کے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی یہ فلم مایا ( تلوتما شوم) کی کہانی ہے، جو کئی ملازمتیں کرتے ہوئے اپنے خاندان کو سنبھالنے کی کوششوں میں ہے۔ مایا کا شوہر ایک سابق فوجی افسر دکھایا گیا ہے جس کو ذہنی صحت کے مسائل ہیں اور اسی وجہ سے اکثر کمیونٹی کے سامنے مایا کو تذلیل کا سامنا رہتا ہے۔ شری داس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم نچلے طبقے کی محروم خواتین کی بات کرتے ہیں تو ان کے لیے سمجھا جاتا ہے کہ وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں حالانکہ اس کے برعکس حقیقت میںیہ حاشیہ ہماری آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے۔‘تو پھر اُن کی کہانیاں کہاں ہیں؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دقیانوسی تصورات کو توڑیں اور ایسا کرنے کے لیے زیادہ خواتین کو اپنی کہانیاں خود سنانی ہوں گی۔انھوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ فلم کے پروڈیوسرز اور ڈسٹری بیوٹرز نہیں جانتے کہ خواتین کتنی بڑی تعداد میں ناظرین کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان کی ایسی کہانیوں کو دیکھنے کی خواہش جہاں ان کی زندگیوں کی عکاسی ہوتی ہے کس قدر پسند کی جاتی ہیں ،بجائے یہ کہ انھیں محض علامتی طور پر پیش کیا جائے۔‘وہ بالی وڈ سپر سٹارز جن کی فلمیں 2022 میں فلاپ ہوئیںبالی وڈ فلموں کے ’بے رحم اور شیطان صفت‘ ولن جو اصل زندگی میں نرم مزاج اور ہنس مکھ ہیںبالی وڈ پر راج کرنے والی ’بدروحوں اور چڑیلوں‘ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟فواد خان کی بالی وڈ فلم ’عبیر گُلال‘ کے ٹیزر پر ہنگامہ: ’پاکستانی اداکاروں کو مشورہ دوں گا وہ انڈین مارکیٹ میں نہ گھسیں، اپنے ملک میں کام کریں‘’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ انڈیا میں ریلیز نہ ہو سکی: ’یہ کرکٹ دشمنی کے سنیما ورژن کی طرح ہے‘مینوسفیئر: مردانگی سے متعلق شدت پسند نظریات کی وہ دنیا جہاں بچوں کے ذہنوں میں خواتین سے ’نفرت کا زہر گھولا جا رہا ہے‘راج کپور سٹوڈیو: ’بالی وڈ شو مین‘ کے خوابوں کی تعبیر جس کی تعمیر میں نرگس کی چوڑیاں بھی کام آئیں