
پاکستان فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ منگل کی رات کو افواج پاکستان نے انڈیا کے پانچ طیارے مار گرائے ہیں۔یاد رہے کہ چھ مئی کی رات انڈیا کی فوج کے مطابق پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں نو مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ انڈین فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ مبینہ عسکریت پسند تنظیموں کے مراکز تھے تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس کی تردید کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے انڈین لڑاکا طیاروں کو مار گرائے جانے کے دعوے پر انڈیا یا انڈین فضائیہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ جمعرات کے دن انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری سے جب ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کے دعوے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس بارے میں مناسب وقت پر جواب دیا جائے گا۔اس حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے انڈین فضائیہ کے طیارے گرانے کی خبریں سامنے آنے لگی تھیں اور سوشل میڈیا پر رات گئے ہی مختلف دعوے سامنے آنے لگے۔ ایسے میں سرحد کے دونوں جانب سے ان دعووں پر سوالات بھی اٹھے اور جوابی دعوے بھی سامنے آئے۔تاہم بدھ کے دن انڈیا کے حملے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے باضابطہ طور پر انڈین فضائیہ کے پانچ طیارے گرانے کا دعویٰ کیا۔Getty Imagesبی بی سی ویریفائی کا تجزیہبی بی سی ویریفائی نے تین ایسی ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جن کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کہ ان میں نظر آنے والا ملبہ ایک فرانسیسی ساختہ رفال طیارے کا ہے جو انڈیا کی فضائیہ کے زیراستعمال ہیں۔ان میں سے ایک ویڈیو کی جیو لوکیشن سے بی بی سی ویریفائی کو علم ہوا کہ یہ انڈین ریاست پنجاب میں بٹھنڈہ کے مقام کی ہے۔ اس ویڈیو میں یونیفارم میں ملبوس اہلکار لڑاکا طیارے کا ملبہ اکھٹا کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔بی بی سی ویریفائی نے رات کے وقت بنائی جانے والی دو مذید ویڈیوز کو بھی چیک کیا اور یہ بھی اسی مقام پر بنی ہیں۔ ان میں سے ایک میں کھیتوں میں موجود ملبہ دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک اڑنے والی چیز کو پہلے آسمان میں آگ لگتی ہے اور پھر وہ ایک کھلے کھیت میں گرتی ہے۔جسٹن کرمپ برطانوی فوج کے سابق افسر ہیں جو اب رسک انٹیلیجنس کمپنی سبیلائن چلاتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی ویرفائی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا یہ ملبہ فرانسیسی میزائل کا لگتا ہے جو میراج دو ہزار اور رفال لڑاکا طیاروں، دونوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک اور تصویر میں ایک لڑاکا طیارے کی ٹیل فن، جس پر بی ایس زیرو زیرو ون اور رفال لکھا ہوا ہے، دیکھی جا سکتی ہے۔بی بی سی ویریفائی نے اس تصویر کو جانچنے کے لیے گوگل ریورس امیج کا استعمال کیا تو معلوم ہوا کہ اس تصویر کا اس سے پہلے کوئی اور ورژن نہیں ہے۔بھٹنڈہ کے یوٹیوبرواضح رہے کہ بدھ کی صبح انڈیا کی ریاست پنجاب میں بھٹنڈہ ضلع کے ایک گاؤں میں ملبہ ملنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد بی بی سی پنجابی کے نامہ نگار راجیش کمار جب جائے حادثہ پر پہنچے تو انتظامیہ نے میڈیا کو تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر روک دیا۔ایک یوٹیوب ٹیوبر (جن کی شناخت سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کی جا رہی ہے) نے پولیس کو اس ملبے کے بارے میں مطلع کیا تھا اور انھوں نے بی بی سی پنجابی کو بتایا کہ کہ اگرچہ انھوں نے ویڈیو بنائی تھی لیکن انتظامیہ کی طرف سے ایڈوائزری جاری کرنے کے بعد انھوں نے اسے شائع کرنے سے گریز کیا۔ان کے مطابق طیارے جیسا ملبہ بھٹنڈہ کے گاؤں اکلیان کلاں میں تھا اور اس کے کچھ حصے فرید کوٹ ضلع کے گاؤں کے کھیتوں میں بھی موجود ہیں۔بی بی سی پنجابی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گاؤں کے ایک رہائشی کا فون آیا تھا جس کا گھر ملبے کی زد میں آ گیا جس کے بعد انھوں نے خود جا کر ملبہ دیکھا۔ ’ہم نے ان کے گھر کے صحن میں ملبہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، کچھ فوٹیج موجود ہے لیکن ہم نے اسے کہیں جاری نہیں کیا۔‘ بی بی سی آزادانہ طور پر ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ ’ملبہ دیکھتے ہی میں نے اور میرے ایک ساتھی نے پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا اور کچھ ہی دیر میں پولیس انتظامیہ وہاں پہنچ گئی اور علاقے کو سیل کر دیا گیا۔‘ ان کے مطابق میڈیا کو ایک کلومیٹر دور رہنے کو کہا گیا اور فرید کوٹ کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے میڈیا کوریج کے حوالے سے ایڈوائزری جاری کی گئی۔’انتظامیہ نے واٹس ایپ میسجز کے ذریعے ہدایات جاری کیں کہ ضلعی انتظامیہ یا پولیس انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کوئی ویڈیو یا تصویر نہ چھاپی جائے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جائے۔‘پاکستان فوج کا دعویٰ: ’رفال سمیت پانچ طیارے‘ڈی جی آئی ایس پی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ انڈین فضائیہ کے پانچ گرائے جانے والے طیاروں میں سے ’تین رفال طیارے تھے جبکہ ایک مگ 29 لڑاکا طیارہ اور ایک ایس یو طیارہ شامل ہے۔‘انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایک لڑاکا ہیرون ڈرون بھی مار گرایا گیا ہے۔‘ترجمان پاکستان فوج کے مطابق ’یہ طیارے عمومی طور پر انڈین پنجاب میں بھٹنڈہ، انڈیا کے زیر انتظام جموں میں، دو طیارے اونتی پور کے علاقے میں، ایک اکھنور اور ایک سری نگر میں مار گرایا گیا۔‘ ان میں لڑاکا ڈرون بھی شامل ہے۔اس پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے دعویٰ کیا کہ انڈین لڑاکا طیاروں کو پاکستانی فضائیہ نے نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ان طیاروں کو اس وقت گرایا گیا جب انھوں نے پاکستان کے اوپر حملہ کیا۔ جب انھوں نے اپنے ہتھیار ریلیز کیے، اس کے بعد ہی ان کو انگیج کیا گیا اور ان پر فائر کیا گیا۔‘پاکستان فوج کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’افواج پاکستان انڈیا کے دس سے زیادہ طیاروں کو مار گرا سکتی تھیں لیکن ہم نے احتیاط کا مظاہرہ کیا۔‘لیفٹینینٹ جنرل احمد شریف نے دعویٰ کیا کہ ’اس دوران کسی بھی وقت میں انڈیا کے طیاروں کو پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ دوسری جانب ان کے مطابق پاکستانی طیارے بھی کسی وقت انڈیا کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوئے۔‘ساتھ ہی ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستانی فضائیہ کے تمام طیارے مکمل طور پر محفوظ رہے۔‘واضح رہے کہ اس دعوے پر انڈیا کی فوج یا فضائیہ کی جانب سے اب تک کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی انڈین افواج کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس بارے میں کوئی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟’آپریشن سندور‘: انڈین صارفین پاکستان کے خلاف آپریشن کے نام کو معنی خیز کیوں قرار دے رہے ہیں؟’میزائل گرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان سُرخ ہو گیا‘پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکانڈین فوج کی جانب سے حملے کے بارے میں پریس کانفرنس کے دوران بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی جب انڈیا کی جانب سے اہداف کو نشانہ بنانے کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔بی بی سی نے پلوامہ میں کیا دیکھا؟BBCبی بی سی کے نمائندے کے مطابق جس مقام پر طیارہ گرا، اس جگہ کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا ہےاگرچہ انڈین حکومت کی جانب سے اب تک کسی قسم کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے، بی بی سی نامہ نگار نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ کے قصبے پام پور میں گرنے والے ایک طیارے کے ملبے کو بلڈوزر کی مدد سے منتقل ہوتے ہوئے دیکھا۔بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق مقامی افراد نے بتایا کہ انھوں نے جیٹ بمباروں کی زوردار آوازوں کے بیچ ایک بڑے دھماکے کی آوار سنی۔ ریاض مسرور کے مطابق قصبے کے مختلف حصوں میں گرنے والے ایک جہاز کے ٹکروں کو جمع کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملبے کے معائنے کے لیے انڈین ایئر فورس کی ایک ٹیم بھی جائے وقوعہ پر موجود ہے تاہم حکام کی جانب سے تاحال تصدیق نہیں کی گئی کہ یہ کون سا طیارہ تھا یا کس ملک کا تھا۔بی بی سی کے نمائندے کے مطابق جس مقام پر طیارہ گرا، اس جگہ کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا ہے اور کسی بھی شخص کو اس مقام تک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ جموں کے ضلع رام بن میں بھی منگل کی شب ایک طیارہ تباہ ہوا ہے۔ضلع رام بن کے علاقے پنتھیال کے سرپنچ ظہور احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے گاؤں میں بدھ کی شب جیٹ طیاروں کی آواز کے ساتھ ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے بعد وہ خود پولیس کے ہمراہ جائے واردات پر پہنچے۔نامہ نگار کے مطابق اس کے علاوہ انڈیا کی ریاست پنجاب کے ضلع بھٹنڈہ میں بھی طیارہ گرنے کی اطلاعات ہیں تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ طیارہ اکلیان کلاں نامی گاؤں کے قریب گر کر تباہ ہوا اور اس واقعے میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور نو زخمی ہوئے ہیں۔Getty Imagesمتضاد خبریںان طیاروں کی تباہی کے بارے میں بھی انڈین فضائیہ نے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ انڈیا کے اخبار ’دی ہندو‘ کی جانب سے انڈین حکام کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی گئی کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تین طیارے گر کر تباہ ہوئے ہیں۔تاہم بعد میں ’دی ہندو‘ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے یہ خبر ہٹاتے ہوئے لکھا گیا کہ ’ہم نے آپریشن سندور میں انڈین طیاروں کی شمولیت کے بارے میں پوسٹ ہٹا دی ہے کیوں کہ سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔‘بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے بھی خبر دی گئی کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے چار سرکاری حکام نے بتایا کہ تین طیارے الگ الگ علاقوں میں گرے ہیں۔اس خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام نے بتایا کہ ان طیاروں کے پائلٹس کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔دوسری جانب سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز بھی گردش کرتی رہیں جن میں طیاروں کا ملبہ دیکھا جا سکتا ہے تاہم بی بی سی ان ویڈیوز کی تصدیق نہیں کر سکتا۔پاکستان اور انڈین فضائیہ کے ماضی میں متضاد دعوےحالیہ دعووں سے ایک بار پھر پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کی کشیدگی اور بالاکوٹ حملے کے ردعمل میں پاکستان کی جانب سے انڈین فضائیہ کے طیارے مار گرانے کے دعوے کی یاد تازہ ہوئی۔واضح رہے کہ 2019 میں جب انڈین فضائیہ نے پلوامہ حملے کے ردعمل میں پاکستان کے اندر بالاکوٹ میں مبینہ عسکریت پسندوں کے کیمپ پر حملہ کیا تھا تو ایک ہی دن بعد پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جوابی کارروائی کی تھی جس کے بعد پاکستانی فوج نے انڈیا کے دو لڑاکا طیارے گرانے کا دعوی کیا تھا۔دوسری جانب انڈین فضائیہ نے دعوی کیا تھا کہ ان کی جانب سے پاکستانی فضائیہ کا ایک ایف سولہ طیارہ مار گرایا گیا ہے۔ اس دعوے کے حق میں انڈین فضائیہ نے ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی۔انڈین فضائیہ کے حکام نے فضائی جھڑپ سے متعلق بیانات میں کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں کا نشانہ بننے والے انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان نے اپنا طیارہ گرنے سے قبل پاکستان کا ایک ایف 16 طیارہ مار گرایا تھا۔پاکستان نے اس دعوے کو متعدد بار مسترد کیا۔ ایسے میں امریکی جریدے فارن پالیسی کی خبر سامنے آئی کہ امریکہ کے محکمۂ دفاع کے اہلکاروں نے پاکستانی ایف 16 طیاروں کی گنتی کی اور وہ تعداد میں پورے تھے۔ اس کے بعد پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ ’انڈیا کی جانب سے حملے اور اس کے اثرات کے بارے میں بھی دعوے جھوٹے ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ انڈیا اپنی طرف ہونے والے نقصان بشمول پاکستان کے ہااتھوں اپنے دوسرے طیارے کی تباہی کے بارے میں سچ بولے۔‘پاکستان کا اب تک یہ دعویٰ ہے کہ 2019 میں انڈین فضائیہ کے دو طیارے گرائے گئے تھے جبکہ دوسری جانب انڈین صدر رام ناتھ کووند نے انڈین فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان کو فروری 2019 میں ’پاکستانی فضائیہ کے ایف 16 طیارے کو مار گرانے پر‘ ملک کے تیسرے سب سے بڑے فوجی اعزاز ’ویر چکرا‘ سے نوازا تھا۔ابھینندن کا طیارہ گرنے کے بعد کیا ہوا تھا؟مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟’آپریشن سندور‘: انڈین صارفین پاکستان کے خلاف آپریشن کے نام کو معنی خیز کیوں قرار دے رہے ہیں؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکفضائی برتری سمیت وہ عوامل جنھوں نے انڈیا کو 26 رفال طیارے خریدنے پر مجبور کیا