
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی شہرت کی حامل ہارورڈ یونیورسٹی میں غیرملکی طلبہ کو داخلے کی اجازت منسوخ کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک جج کی جانب سے حکومت کے اس فیصلے کو معطل کیے جانے کے بعد اتوار کو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’ہارورڈ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ اس کے طلبہ میں سے 31 فیصد دیگر ممالک سے ہیں۔‘ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’ان ممالک میں سے تمام امریکہ کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے والے نہیں ہیں۔ وہ ممالک اپنے طلبہ کی تعلیم کے لیے کسی قسم کی ادائیگی کرتے ہیں نہ ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم ہارورڈ یونیورسٹی کو اربوں ڈالر دیتے ہیں، یہ ہماری معقول درخواست ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ غیرملکی طلبہ کون ہیں، لیکن ہارورڈ کی جانب سے اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے منگل 22 مئی کو کیے گئے ایک فیصلے کے تحت ہارورڈ یونیورسٹی غیرملکی طلبہ کو امریکا میں تعلیم کے لیے داخلہ دینے کی اجازت منسوخ کر دی گئی تھی۔محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے ایک خط کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ ’ہارورڈ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ایکسچیج وزیٹر پروگرام (SEVIS) کے تحت سرٹیفیکیشن فوری طور پر منسوخ کر دی گئی ہے۔‘کرسٹی نوم نے اپنے خط میں لکھا کہ ’غیرملکی طلبہ کو داخلہ دینا ایک اعزاز ہے اور اس کے لیے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ضوابط پر مکمل عمل درآمد ضروری ہے۔‘انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہارورڈ کی جانب سے بارہا سرکاری معلومات فراہم کرنے سے انکار اور کیمپس میں مبینہ طور پر یہودی طلبہ کے لیے غیر محفوظ ماحول کو فروغ دینا اس فیصلے کا باعث بنا۔ہارورڈ یونیورسٹی نے حکومت کے اقدام کو ’غیرآئینی اور غیرقانونی‘ قرار دیتے ہوئے اسے معطل کرنے کی درخواست دائر کی تھی جس کے بعد ایک جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا یہ فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے امریکی یونیورسٹوں کے ساتھ اختلاف کے کئی پہلو ہیں۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی پر ’یہود دشمنی‘، ’حماس سے ہمدردی‘ اور ’انتہاپسند لبرل ازم‘ کو فروغ دینے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔حکومت نے پہلے ہارورڈ یونیورسٹی کی 9 ارب ڈالر کی فنڈنگ پر نظرثانی کی دھمکی دی اور اس کے بعد تعلیمی گرانٹ کے دو ارب 20 کروڑ ڈالر اور آفیشل کانٹریکٹ کی مد میں 60 ملین ڈالر منجمد کر دیے۔حکومت نے ہارورڈ میڈیکل سکول کے ایک ریسرچر کو ڈی پورٹ بھی کیا۔