
Getty Images’جنگیں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، کمیشن ایجنٹوں اور اسلحے کے سوداگروں کے لیے آکسیجن اور دیگر کروڑوں لوگوں کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہیں‘جنگ مختصر ہو کہ طویل، سیاست اور جرنیلی کو آگے اور عوام کو پیچھے لے جاتی ہے۔ جنگیں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، کمیشن ایجنٹوں اور اسلحے کے سوداگروں کے لیے آکسیجن اور دیگر کروڑوں لوگوں کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہیں۔ کہتے ہیں پہلے زمانے میں جنگ لڑنے کے لیے ہتھیار بنائے جاتے تھے اور اب ہتھیار بیچنے کے لیے جنگیں ایجاد ہوتی ہیں۔اگر آپ ایسے سیاستدان ہیں جسے اقتدار میں رہنے کا تو خبط ہے مگر عوام کو سوائے دلاسے اور جھانسے دینے کے پلے کچھ خاص نہیں، تو کرسی پر بنے رہنے کا سب سے مختصر راستہ اندرونی کشیدگی اور نپا تلا جنگی ماحول برقرار رکھنا ہے۔لوگوں کا دھیان حب الوطنی، قربانی، قومی غیرت، مادرِ وطن کی ایک ایک انچ زمین کے تحفظ اور مدِمقابل کو نشانِ عبرت بنانے کے نعروں پر مرکوز رکھیے اور اپنا کام سیدھا کیجیے۔کوئی عقل سے پیدل گر پوچھے کہ تعلیم، صحت، روزگار، چھت، کہنے سُننے کی آزادی سمیت آئینی حقوق کی کب تک امید رکھیں؟ اِس احمقانہ مطالبے کا ایک ہی تیر بہدف جواب ہے کہ ملک زندگی اور موت کی کگار پر کھڑا ہے اور تمھیں عین اِسی وقت تعلیم اور دیگر حقوق کی راگنی سوجھ رہی ہے۔ملک رہے گا تو یہ سب ہو گا نا۔ تمھیں تو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس وقت معیشت کا پورا دھارا دفاع کی جانب موڑ دو اور اپنے جیسوں کو بھی سمجھانا چاہیے کہ کوئی مطالبہ، کوئی خواہش، کوئی حق، کوئی آزادی ملکی سالمیت سے بڑھ کر نہیں۔ ہم (یعنی جنتا) گھاس کھا لیں گے پر جھکیں گے نہیں۔(گویا پہلے جنگ کرنے کے لیے گھاس، پھر جنگ کے اثرات ختم کرنے کے لیے گھاس اور پھر ایک اور ممکنہ لڑائی کی تیاری کے لیے گھاس)۔Getty Images’دوسری عالمی جنگ کے خوفناک نتائج کی روشنی میں اہلِ مغرب اور جاپاننے تباہی کو جمہوری و معاشی اصلاحات کے سنہرے موقع کے طور پر استعمال کیا اور راکھ سے ترقی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی‘جنگ چھوٹی ہو یا بڑی، یہ گیم بہت نازک ہے۔ ہاتھ میں رہے تو انعامات و اکرامات و رقبہ جات و مناصب کی بارش۔ بے قابو ہو جائے تو انفرادی و اجتماعی زوال۔ مثال کے طور پر دیکھیے 1965 اور 71 کے نتیجے میں ایوب خان اور یحییٰ خان کا زوال اور 1999 کے نتیجے میں پرویز مشرف کا عروج اور سویلینز کا زوال در زوال۔ نہ دو تہائی اکثریت کچھ کر پائی، نہ آئین کی شق چھ کسی کام آئی، نہ میثاقِ جمہوریت دیوار بن سکا۔ اب تو یہ سب چونچلے ماضی کا حصہ ہیں، حال پُرعزم ہے اور مستقبل روشن۔مطالعہ پاکستان کے مطابق ایوب خان کی قیادت میں 1965 کی جنگ فیصلہ کن طور پر جیت لی گئی تھی۔ مگر یہ کیسی جیت تھی جس کی قیمت کے طور پرصنعتی ترقی پٹڑی سے ایسی اتری کہ پھر ویسیرفتار نہ پکڑ پائی۔ اس جنگ کے دوران جو ایمرجنسینافذ ہوئی وہ اگلے بیس برس جاری رہی۔ سنہ 1973 کا آئین نافذ ہونے کے 12 برس بعد محمد خان جونیجو کو یہ ایمرجنسی ہٹانا پڑی۔جنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرےیہ ریاست ایسے تو دور تلک نہ چل پائے گیانڈیا کو طالبان مبارکنواز شریف کا نوحہکچھ سیانے کہتے ہیں کہ سنہ 1971 کی جنگ کے بعد دو تہائی اکثریت سے انتخابات جیتنے والی اندرا گاندھی اگر 1975 میں ایمرجنسی نہ لگاتیں تو بلا رکاوٹ اگلے دو انتخابات تک حکومت کر سکتی تھیں۔ مگر اب انڈیا میں بھی زمانہ بدل گیا ہے۔ ایمر جنسی نافذ کرنے کے بجائے اسے رولر کوسٹر کی شکل دے دی گئی ہے۔پہلی عالمی جنگ نے آمرانہ اور فسطائی تجربے کو مضبوط کیا۔ مگر دوسری عالمی جنگ کے خوفناک نتائج کی روشنی میں اہلِ مغرب اور جاپاننے تباہی کو جمہوری و معاشی اصلاحات کے سنہرے موقع کے طور پر استعمال کیا اور راکھ سے ترقی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔گرم جنگ کی جگہ سرد جنگ کے تصور نے لے لی۔ اس دوران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جہاں نیٹو اور وارسا پیکٹ وجود میں آئے وہیں یورپی یونین اور جنگِ ویتنام کے اثرات سے سبق حاصل کرتے ہوئے جنوب مشرقی ایشیا میں آسیان کے اقتصادی مثالیے نے جنم لیا۔Getty Images’لگاتار جنگوں سے ڈسی دنیا سمجھتی ہے کہ جنگ قومی مقاصد حاصل کرنے کا آخری حربہ ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس ہمارے خطے میں جنگ کی صنعت بنیادی مسائل کی اکسیر سمجھی جاتی ہے‘دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے اسلحے کی کمر توڑ دوڑ بھلے دوڑی ہو مگر اس دوڑ کو ایک اور براہِ راست جنگ میں بدلنے کے بجائے نادان ریاستوں کو شطرنجی مہرہ بنا کے اپنے اپنے قومی و بین الاقوامی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ان طاقتوں نے اسلحے کی منڈی پر قبضہ ضرور برقرار رکھا مگر اپنی ہی بندوق بارِ دگر ایک دوسرے پر خالی کرنے کے بجائے بیوقوف ممالک کو فروخت کی اور پھر ان سے اپنا ہی کام نکلوایا اور نکلوا رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان مثالوں سے انڈیا اور پاکستان 78 برس میں کیوں سبق نہیں سیکھ پائے۔ وہ اب تک دو عالمی جنگوں کی وہی اترن پہننے پر کیوں بضد ہیں جو ان جنگوں کے مرکزی کرداروں نے 80 برس پہلے اتار پھینکی۔شاید ہم پڑھے لکھے جنوبی ایشیائی بھی اس ناخواندہ نفسیات کے مسلسل اسیر ہیں کہ دشمن داری مرد کا زیور ہے۔ دشمنی بھی وہ جو دوسرے کی ناک رگڑوانے کے چکر میں نسل در نسل اپنے ہی بچے نگلتی رہے۔ بھلے ناک اونچی رکھنے اور دوسرے کی کاٹنے کے لیے زمین، گھراور نسلوں کا مستقبل ہی کیوں نہ گروی رکھوانا پڑ جائے۔اس خطے نے 47 سے اب تک خون ہی دیکھا۔ لاشوں پر سرحدیں وجود میں آ گئیں پھر بھی سکون نہیں۔ دریا تقسیم ہو گئے پھر بھی ٹھنڈ نہیں پڑی۔ اپنے آپ سے بھی جنگ اور ایک دوسرے سے بھی جنگ۔ یہ ہے اب تک کی کمائی ہماری تین نسلوں کی۔لگاتار جنگوں سے ڈسی دنیا سمجھتی ہے کہ جنگ قومی مقاصد حاصل کرنے کا آخری حربہ ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس ہمارے خطے میں جنگ کی صنعت بنیادی مسائل کی اکسیر سمجھی جاتی ہے۔چینی ماہرِ حربیات سن زو نے ڈھائی ہزار برس پہلے کہا تھا کہ بہترین جنگ وہ ہے جو چھیڑے بغیر جیت لی جائے۔ آج کی چینی قیادت اسی اصول پر عمل پیرا ہے۔ چین سے متصل جنوبی ایشیا میں چہار جانب میڈ ان چائنا مصنوعات کا انبار ملے گا سوائے سن زو کے۔جنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرےیہ ریاست ایسے تو دور تلک نہ چل پائے گیانڈیا کو طالبان مبارکنواز شریف کا نوحہہنزہ کی چراگاہ اور ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ: وہ معاہدہ جس نے چین کی پاکستان سے دوستی کی بنیاد رکھی