
BBCجنسی استحصال، کیمپس میں خفیہ ریکارڈنگ، منشیات کے استعمال کے بعد ریپ اور کسی چیز کو خواتین کے حساس عضو میں ڈالنا۔۔۔۔۔’کری ایٹو پرائیویٹ روم‘ نامی یہ کیس ’تائیوانی وریژن آف روم این‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں غیر قانونی سیکس کی دو لاکھ سے زیادہ ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔ متاثرین میں شامل چار ہزار افراد کا تعلق تائیوان، میوکو اور ملائیشیا سے تھا اوران میں ایلیمنٹری سکول کے بچے بھی شامل ہیں۔ ان غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد میں تائیوان کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔لیکن سماجی کارکن کے کونسلنگ روم میں آنے والے یہ سزا یافتہ مجرم اتنے بھی ’گمراہ‘ اور نافرمان نہیں تھے جیسا کہ بیرونی دنیا میں اُن کا تصور تھا۔ وہ اپنی روزمرہ معمول کی زندگی میں عام انسانوں جیسے تھے۔ سماجی کارکنان کے سپروائزر ڈنگ ینگجون نے بی بی سی چینی سروس کو بتایا کہ ’وہ کسی بھی اچھے طلبہ کی طرح کلاس روم کی اگلی قطار میں بیٹھتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ پر اُن کی زندگی اور شخصیت بالکل مختلف تھیں۔‘گذشتہ چھ برسوں کے دوران ڈنگ ینگجون کا رابطہ چائلڈ پورنوگرافی کے جرائم میں ملوث 600 افراد سے ہوا۔ان میں تمام افراد کی عمر 35 سال یا اُس سے کم تھی۔ بعض افراد بالغ نہیں تھے۔ یہ افراد بولتے وقت آنکھ ملانے سے بھی قاصر تھے۔ یہ تمام افراد قابل احترام اور ہمدرد تھے لیکن ان میں اکثر کو اس تکلیف کا اندازہ نہیں تھا جو اُن کے جرائم سے متاثر ہونے والے افراد کو ہوئی کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف ایک آن لائن گیم تھی۔ان گیمز میں خواتین کو ’شکار‘ کے طور پر دکھایا جاتا تھا اور گیم کھیلنے والوں میں جیتنے، ہدف کو نشانہ بنانے کے سبب ہمدردی جیسے جذبات دب جاتے تھے۔رواں سال جولائی کے آخر میں تائی چنگ ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کے دفتر نے پرائیوٹ روم کے کئی اہم افسران اور ڈسٹری بیوٹرز پر فرد جرم عائد کی۔پچھلے سال انھوں نے تائیوان کی تاریخ میں بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے سب سے بڑا چھاپہ مارا جس میں ’پرائیوٹ روم‘ سمیت مختلف آن لائن کمیونٹیز پر چھاپا مارا اور بے ہودہ مواد رکھنے پر تقریباً 400 مشتبہ افراد کو بے نقاب کیا۔جب انھیں حقیقی دنیا میں واپس لایا جاتا ہے تو بہت سے نوجوان اعتراف کرتے ہیں کہ ’وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچے۔‘اسی رویے نے سماجی کارکنوں اور پراسیکیوٹرز کو یہ پوچھنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ کسی دوسرے منصوبہ ساز کو شیطان بننے سے کیسے روکیں گے؟Getty Imagesپردے کے پیچھے اصل شناختتائیوان کے معاشر میں ڈیجیٹل ورلڈ پر صنفی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے۔ تائیوان کی وزارت صحت و ویلفئیر کے اعدادوشمار کے مطابق تائیوان کے تقریباً 60 فیصد شہریوں نے صنفی بنیاد پر ڈیجیٹل تشدد سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے تقریبا 10 فیصد افراد کو مختلف طریقوں جیسے خفیہ فلم بندی، لبھانا، جنسی تصاویر کی تقسیم جیسے طریقوں سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔'Creative Private House' تائیوان کی سب سے بڑی غیر قانونی سیکس ویڈیوز کی ویب سائٹ نے تائیوان کے معاشرے کو حیران کر دیا ہے۔سنہ 2024 میں پراسیکیوٹرز نے ایک چھاپے میں اس ویب سائٹ سے وابستہ 116 سے زائد افراد کو پکڑ لیا، جن میں کئی اہم افراد بھی شامل تھے۔اس کیس سے وابستہ ایک پراسیکیوٹر نے بی بی سی چینی سروس کو بتایا کہ زیادہ تر مشتبہ افراد کے آن لائن رویہ اور حقیقی زندگی میں بہت فرق تھا۔ یہ افراد معمول کی نوکریاں جیسے انجیئیرنگ، ٹیچنگ، سوشل ورک اور سرکاری نوکریاں کرتے تھے اور ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں تھا۔گزشتہ سال تحقیقات کے دوران ُسزا کے خوف سے دو مشتبہ افراد نے خودکشی کی۔ ان میں سے ایک اپنے شعبے میں جانے مانے پروفیسر تھے اور وہ جرائم کے انکشاف کو برداشت نہیں کر سکے۔ دوسری جانب بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے تعاون کیا، اپنے جرائم کا اعتراف کیا لیکن وہ 'حقیقت میں آن لائن شیطان تھے جو متاثرین کو مرنے کا کہہ رہے تھے۔'بظاہر ان 'بے ضرر' افراد نے سنگین جرائم کیے ہیں جن میں دھوکہ دہی، آن لائن ڈیٹنگ، جنسی تجارت کے ذریعے متاثرین کی جنسی نوعیت کی تصاویر لینا اور منشیات کے ذریعے خواتین پر جنسی حملہ کرنا، خواتین اور بچوں کو کتوں کی طرح چلنے پر مجبور کرنا، جسم پر سوئیاں چھبونا اور پرائیویٹ پارٹس (اعضائے مخصوصہ) میں کوئی بیرونی چیز ڈالنا شامل ہے۔سماجی کارکن ڈنگ ینگجون، آگاہی اور روک تھام کے لیے کی جانے والے حکومتی کوشیشوں میں آگے آگے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان کو کوشش رہی ہیں کہ وہ ان مجرموں کے عزائم کو سمجھیں اور انھیں راہ راست پر لائیں۔'کسی بھی جرم کے متاثرین بھی ہوتے ہیں اور منصوبہ ساز بھی اور تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ہی مکمل تصویر سامنے آتی ہے۔'بی بی سی چینی سروس سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ سمجھ رہی تھیں کہ کلاس میں اُن کا واسطہ نافرمان، بد تمعیز افراد سے پڑے گا لیکن حیران کن طور پر وہ بالکل ایسے تھے جیسے ہمارے اردگرد موجود افراد ہوں۔ڈنگ ینگجون کے مطابق یہ طلبا مختلف عمر کے تھے اور ان میں سے کئی اعلیٰ تعلیمی قابلیت رکھتے ہیں جو ایک پریشان کن صورتحال ہے۔Getty Imagesعورتوں کا 'شکار' کرنے والے گیمانٹرنیٹ نے مجرموں کے لیے ایک اور دنیا تخلیق کر دی ہے۔تائی پے ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز دفتر کے ایک پراہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ لوگ جو حقیقی زندگی میں ایک دوسرے سے ناواقف ہیں، انٹرنیٹ پر انھوں نے 'مشترکہ اقدار اور اصولوں پر مبنی ایک کمیونٹی' تشکیل دی جو کئی سالوں تک خفیہ طور پر کام کر رہی ہے۔ان کمیونٹیز میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہیں۔اس کے پانچ ہزار سے زائد ممبران ہیں اس کے علاوہ ٹیلگرام یا فیس بک پر ایسے گروپس اور سوسائٹیزمیں ممبران کی تعداد 40 سے 50 ہزار سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ڈنگ ینگجون کے مطابق آج کل ان 'آن لائن کمیونٹیز' کا دارومدار زیادہ جنسی تصویری پر مبنی جرائم پر ہوتا ہے کیونکہ یہ آن لائن گیمز کے لیے 'گیمافائیڈ' معیار پر پورا اترتی ہیں۔ان آن لائن سپیسز پر ممبران آپس میں بہت زیادہ انٹرایکٹو ہوتے ہیں۔ خواتین کی جنسی تصاویر کی فروخت اور پھیلانے والی پوسٹس کو زیادہ شیئر کیا جاتا ہے اور اُن پر زیادہ تبصرے ہوتے ہیں۔ بعض گروپس ایسے بھی ہیں جس میں ڈسٹریبیوٹرز خواتین کی شناخت بھی ظاہر کر دیتے ہیں اور ممبران کو یہ اجازت بھی ہوتی ہے کہ وہ انھیں فلم بندی کرنے پر رضدمند کریں۔وہ آپس میں اُن خواتین کی خوبصورتی، جسمانی خدوخال پر تبصرہ کرتے ہیں اور تصویر تلاش کرنے کے لیے کی گئی سرچ پر بھی بات کرتے ہیں۔ پھر گروپس میں شامل تمام افراد ان (خواتین) کی تلاش شروع کر دیتے ہیں جو پہلے تلاش کرتا ہے وہ جیت جاتا ہے۔ یہ سب بالکل ویڈیو گیمز جیسا ہے۔ایک مجرم نے اعتراف کیا کہ اس نے خواتین سے آن لائن ملاقات کی اور انہیں عریاں تصاویر لینے پر مجبور کیا۔ انھوں نے سنسنی، تفریح اور کامیابی کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے ایک درجے کو عبور کیا۔انھیں لگا کہ کامیابی آسان ہے اور پھر وہ صرف اگلے ہدف کی طرف بڑھے گا اور کھیل جاری رہا۔سیکس، پورن اور سوٹ کیس میں بند لاشیں: دہرے قتل کی واردات جس نے ایک خفیہ آن لائن دنیا سے پردہ اٹھایاگرومنگ گینگز اور پولیس افسران پر جنسی استحصال کا الزام: ’ایک بار ریپ ہونا گینگ کے ہاتھوں کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا‘برہنہ تصویروں کی چوری: انٹرنیٹ پر جاری سیاہ تجارت کی کہانیآن لائن لون ایپس: ’میرے شوہر کی برہنہ تصاویر پھیلانے کے بعد میری تصویریں بھی غلط ویب سائٹ پر ڈالی گئیں‘جب ڈنگ ینگجون نے طلبا سے براہِ راست ملاقات کی تو انھوں نے محسوس کیا کہ ان کا رویہ مودبانہ اور ہمدردری والا ہے جو اُن کے آن لائن رویے سے بالکل مختلف تھا۔ زیادہ تر مجرموں نے انھیں بتایا کہ اُنھیں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ اُن کے یہ جرائم دوسروں کو درد اور تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ڈنگ یِنگ جُن کے تجزیے کے مطابق ان آن لائن حلقوں میں خواتین کو محض ’شکار‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ شرکا کے نزدیک ’ہمدردی‘ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ اُنھیں صرف جیتنے یا قابو پانے پر توجہ دینی ہوتی ہے یعنی ’پکڑنا، چُرانا، حاصل کرنا اور مارنا۔‘ یہ رویہ اُس نفسیاتی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جسے ماہرین ’انٹرنیٹ ڈس اِنہیبیشن ایفیکٹ‘ کہتے ہیں۔ یعنی گمنامی اور سامنے والے کے حقیقی وجود کو نہ محسوس کرنے کے باعث وہ حقیقی زندگی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جارحانہ رویہ اپناتے ہیں اور یوں ایک ’پدرشاہی کھیل‘ تشکیل پاتا ہے۔انھوں نے یہ نکتہ بھی اجاگر کیا کہ ان حلقوں میں ’انسائیڈرز کو پکڑنا‘ (یعنی وہ افراد جو ویڈیوز لیک کرتے ہیں) ایک مقبول سرگرمی سمجھی جاتی ہے۔ اس ’کھیل کے اصول‘ کے ذریعے وہ اپنی شناخت بناتے ہیں، ساتھیوں کی پہچان کرتے ہیں اور اسے نہایت تفریحی عمل سمجھتے ہیں۔Getty Imagesعورت دشمنیماہرین کے مطابق تصویروں کے حوالے سے جنسی نوعیت کے جرائم کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ صرف پیسے کمانے کے لیے یہ کام کرتے ہیں جبکہ کچھ ذاتی جھگڑوں یا بدلے کے طور پر خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز کو ہتھیار بناتے ہیں۔ لیکن اصل وجہ تائیوان کے معاشرے کی وہ سوچ ہے جس میں مردوں کو برتر اور عورتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔چینان یونیورسٹی کی پروفیسر وانگ پی لینگ نے بی بی سی چائنیز کو بتایا کہ ’کری ایٹو پرائیویٹ ویڈیوز‘ اور اس جیسے جرائم کرنے والے زیادہ تر لوگ عورت دشمنی کے رجحان کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا خود پر اعتماد کم ہوتا ہے اور وہ اپنی شکل یا معاشی حیثیت کے زور پر حقیقی زندگی میں محبت یا تعلقات نہیں بنا پاتے۔ اسی لیے وہ خواتین کے خلاف دل میں دشمنی رکھتے ہیں۔وانگ پی لینگ اور ان کی ٹیم نے حال ہی میں تقریباً 20 ایسے مجرموں سے بات کی جو اس جرم میں قید ہیں۔ ان میں کری ایٹو پرائیویٹ روم کے دو افراد بھی شامل تھے۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ وہ یہ سب کیوں کرتے ہیں۔کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس میں سب سے زیادہ مانگ مشہور آن لائن شخصیات کی ویڈیوز کی تھی۔ مجرم عام طور پر ماڈلنگ کی نوکری کے جھوٹے اشتہارات یا آن لائن چیٹس کے ذریعے ان کی ذاتی ویڈیوز حاصل کرتے تھے۔وانگ پی لینگ کے مطابق کئی مجرموں نے بتایا کہ جب وہ مشہور یا کامیاب خواتین کو نشانہ بناتے تو انھیں ’طاقت‘ اور ’کنٹرول‘ کا ایسا احساس ملتا جو عام زندگی میں ممکن نہیں تھا۔ جنسی لذت کے ساتھ ساتھ انھیں ایک طرح کی کامیابی اور ذہنی تسکین بھی ملتی تھی۔ایک مشہور مجرم تو اعلیٰ یونیورسٹیوں کی طالبات کو اس وقت خفیہ طور پر ریکارڈ کرتا جب وہ واش روم استعمال کر رہی ہوتیں۔ وہ بعض اوقات اپنے شکار کو خاص طور پر چُنتا، ان کا پیچھا کرتا اور واش روم تک ان کے پیچھے جاتا۔یہ مجرم خاص طور پر ذہین اور کامیاب نوجوان خواتین کو نشانہ بناتا تھا۔ ویڈیوز میں چہرے یا جسم پر نہیں بلکہ ان کے نجی اعضا پر توجہ دی جاتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ان کی ذاتی زندگی میں گھس کر انھیں ذلیل اور برباد کیا جائے۔ ’عام حالات میں وہ ان خواتین تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا تھا لیکن ان ویڈیوز کے ذریعے وہ جب چاہتا ان کی پرائیویسی پامال کرتا۔‘Getty Imagesقابلیت دکھانے اور سٹیٹس بڑھانے والا ہتھیارخفیہ طور پر تصویر بنائے جانے یا دھوکے سے ذاتی نوعیت کی ویڈیوز بنانے کا تجربہ خواتین کے لیے ایسا زخم بن گیا ہے جو آسانی سے بھر نہیں پاتا۔ انھیں اپنے جسم پر اختیار نہیں رہا کہ کون دیکھ رہا ہے اور کون نہیں اور ان کی بولنے اور اپنا دفاع کرنے کی اہلیت بھی چھین لی گئی ہے۔کری ایٹو پرائیویٹ کی کئی متاثرہ خواتین نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی نجی ویڈیوز بار بار بیچی اور پھیلائی گئیں جس نے ان کی زندگیوں کو بُری طرح متاثر کیا۔ وہ سائبر بُلنگ، تذلیل، پیچھا کیے جانے اور دوسرے جرائم کا شکار بنیں۔ ظلم کو روکنے کے لیے کچھ خواتین نے تعلیم چھوڑ دی، نوکریاں ختم کر دیں یا پہچان سے بچنے کے لیے پلاسٹک سرجری تک کروائی۔ کئی خواتین نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔گذشتہ سال پراسیکیوٹر چن شیانگ وئی نے کری ایٹو پرائیویٹ سٹوڈیوز پر بڑے پیمانے پر چھاپے مارے تو معاملہ ان کے اندازے سے کہیں زیادہ سنگین نکلا۔ بہت سے افراد ابتدا میں صرف ویڈیوز خریدتے اور دیکھتے تھے لیکن اس حلقے میں زیادہ دیر رہنے کے بعد وہ نہ صرف اس کے عادی ہو گئے بلکہ مزید سنگین جرائم تک پہنچ گئے۔چن شیانگ وئی کے مطابق تفتیش کے دوران کئی ملزمان نے مانا کہ وہ غلط ہیں لیکن سب کا کہنا تھا کہ وہ ’رُک نہیں سکے‘۔ کچھ لوگوں نے ابتدا میں صرف بالغ فلمیں دیکھیں لیکن آہستہ آہستہ زیادہ سنسنی خیز اور ممنوعہ مواد ڈھونڈنے لگے۔ کچھ جانتے تھے کہ یہ رویہ نقصان دہ ہے لیکن پھر بھی جاری رکھا۔ اور کچھ ایسے تھے جنھوں نے طویل عرصہ دیکھنے کے بعد خود بھی ویڈیوز بنانا اور خواتین کو جال میں پھنسا کر ان کی تصاویر لینا شروع کر دیا۔وانگ پی لینگ کی تحقیق کے مطابق کچھ مجرموں نے ابتدا میں غیر قانونی تصاویر بیچنا شروع نہیں کیا تھا۔ ایک مجرم کے بارے میں پتا چلا کہ وہ پرائمری سکول سے ہی خفیہ طور پر تصویریں لینے کا عادی تھا۔ پہلے یہ اُس کا ذاتی شوق اور کلیکشن تھی لیکن آن لائن کمیونٹی میں شامل ہونے کے بعد اُس کا یہ رجحان جرم میں بدل گیا۔وانگ پی لینگ نے بتایا: ’وہ سمجھتا تھا کہ اس کی تصویریں اتنی اچھی ہیں کہ وہ انھیں دوسروں کو دکھانا چاہتا تھا۔ یہ تصاویر اب صرف عورتوں کو جنسی طور پر پیش کرنے تک محدود نہیں رہیں بلکہ ایک طرح کا سوشل کیپٹل بن گئی ہیں۔‘ان کے مطابق مشہور یا امیر خواتین کی ذاتی ویڈیوز کری ایٹو پرائیویٹ کے لیے قیمتی خزانہ سمجھی جاتی ہیں ایک ایسا ہتھیار جس کے ذریعے وہ اپنی قابلیت دکھاتے اور اپنے سٹیٹس میں اضافہ کرتے ہیں۔ ’آخرکار وہ واقعی وہی بن گیا جسے گروپ کے افراد ’تائیوان کا نمبر ون‘ کہتے تھے۔‘Getty Images’برہنہ عورتوں کی تصاویر یہ ثابت کرنے کا طریقہ تھا کہ میں بھی مرد ہوں‘ان آن لائن گروپوں میں جو لوگ خفیہ تصویریں لیتے یا لڑکیوں کو ورغلا کر ویڈیوز بنواتے ہیں، انھیں ’دادا‘ کہا جاتا ہے یعنی ’گریٹ گاڈ‘۔ انھیں کمیونٹی میں خاص عزت ملتی ہے۔ایک شخص نے وانگ پی لینگ کو بتایا کہ اس کی زندگی عام ہے، وہ ایک عام ملازم ہے اور اس کے پاس کوئی جذباتی سہارا نہیں۔ لیکن جب وہ کسی عورت کو اپنے جال میں پھنسا لیتا تو اسے بڑی کامیابی محسوس ہوتی۔ گروپ میں تعریف اور شہرت ملنے سے وہ خود کو اہم سمجھنے لگتا۔’یہ لوگ ناکام نہیں ہوتے۔۔ بس عام لوگ ہوتے ہیں لیکن کری ایٹو پرائیویٹ میں وہ بڑے مشہور ہو جاتے ہیں۔‘وانگ پی لینگ کے مطابق یہ سلسلہ ایک ایسے گڑھے کی طرح ہے جس کی کوئی تہہ نہیں، اسی لیے لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ’دن میں یہ عام نوکری کرتے ہیں لیکن رات کو جب تنہائی یا دباؤ محسوس کرتے ہیں تو فون اٹھا کر ان چیزوں میں کھو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی رات تنہا نہیں لگتی۔‘کچھ لوگ تو اتنے عادی ہو گئے کہ روز سات آٹھ گھنٹے ڈیٹنگ ایپس پر گزار دیتے ہیں۔ کبھی تعلق بنانے کے لیے، کبھی تصاویر لینے کے لیے۔ ایک نے کہا: ’مجھے سمجھ ہی نہیں آتی میرا مقصد کیا ہے۔ بس خالی پن لگتا ہے، اور فارغ وقت میں نہیں جانتا کیا کروں۔‘سوشل ورکر ڈنگ یِنگ جُن کہتی ہیں کہ اصل میں یہ سب طاقت کے احساس سے جُڑا ہے۔ وہ نوجوان جنھیں وہ مشاورت دیتی ہیں اکثر تنہائی کا شکار ہوتے ہیں، دوست بنانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں اور اپنی زندگی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ ’اصل زندگی میں وہ دباؤ اور تنہائی جھیلتے ہیں۔ لیکن ان آن لائن گروپوں میں انھیں طاقت اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘ایک طالب علم نے بتایا: ’اگر میں کسی لڑکی کی ذاتی ویڈیو لے لوں تو وہ میری بات مانتی ہے اور وہی کرتی ہے جو میں چاہتا ہوں۔‘کچھ طلبہ ایسے بھی تھے جن کے خاندان بہت روایتی تھے۔ ان کے والد یا بڑے ان کی ذہنی پریشانی کو قبول نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ’مرد‘ نہیں ہیں۔ ایک نے کہا: ’برہنہ عورتوں کی تصاویر بنانا میرے لیے اپنے والد کو یہ ثابت کرنے کا طریقہ تھا کہ میں بھی مرد ہوں اور طاقت دکھا سکتا ہوں۔‘Getty Imagesمجرموں کو حقیقت سے روشناس کراناسنہ 2024 کے وسط میں تائچونگ ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز آفس نے کریمنل انویسٹی گیشن بیورو اور مختلف شہروں کے پولیس بریگیڈ کے ساتھ مل کر تائیوان کی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی کی جس کا مقصد بچوں کے جنسی استحصال کو روکنا تھا۔ اس آپریشن میں تقریباً 400 مشتبہ افراد کا سراغ ملا جو مختلف سوشل نیٹ ورکس پر جنسی نوعیت کا مواد بنا اور پھیلا رہے تھے جن میں کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس بھی شامل تھا۔ اسی دوران وزارت برائے ڈیجیٹل ڈویلپمنٹ نے قانون کے مطابق کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس کی ویب سائٹ بھی بلاک کر دی۔پراسیکیوٹر چن شیانگ وئی نے ان 96 افراد کے خلاف مقدمے درج کیے جنھوں نے کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس سے غیر قانونی طور پر بچوں کی جنسی ویڈیوز خریدیں یا اپنے پاس رکھیں۔ حال ہی میں انھوں نے کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس کے تین مرکزی اراکین اور دو ایسے ملزمان پر بھی مقدمہ چلایا جنھوں نے خفیہ طور پر بنائی گئی جنسی ویڈیوز فراہم کیں اور بیچیں۔ یہ کارروائی بچوں اور نوجوانوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے قانون اور منظم جرائم کی روک تھام کے قانون کے تحت کی گئی۔چن شیانگ وئی نے بتایا کہ اُس وقت بچوں اور نوجوانوں کی ویڈیوز خریدنے پر سزا سخت نہیں تھی لیکن محض ان افراد کو گرفتار کر لینا بھی ضروری تھا تاکہ وہ اس دلدل میں مزید نہ پھنسیں اور بڑے جرائم کی طرف نہ بڑھیں۔ ان گرفتاریوں سے اس حلقے میں خوف کی فضا بھی پیدا ہوئی، جس سے ویڈیوز کے پھیلاؤ کو روکنے اور دوسروں کے لیے تنبیہ کا کام ہوا۔Getty Imagesلن ژیو کانگ جنھوں نے 2021 میں کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس کے کئی عہدیداروں کو گرفتار کیا، اس کی کارروائیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ یہ مجرم ابتدا میں نامعلوم ویب سائٹس پر مشہور آن لائن شخصیات کے فوٹو البمز ہیک کرکے کام شروع کرتے تھے۔ ’شروع میں یہ صرف تجسس، جوش اور جنسی لطف کے لیے تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے بڑی سوچ اور طویل مدتی ترقی کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی۔‘ 2012 میں قائم ہونے والا کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس ایک کمپنی کی طرح چلایا گیا۔تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ ’کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس کی آمدنی 30 ملین نیو تائیوان ڈالر سے زیادہ تھی۔لن ژیو کانگ نے بتایا کہ اس کے مجرم قریبی تعاون کے ذریعے منافع کماتے تھے اور تین قسم کے افراد شامل ہوتے تھے:ایڈمنسٹریٹر: ویب سائٹ کے بانی جنھیں لاو ما کہا جاتا ہے، ویب سائٹ کا انتظام، تصویروں کی پوسٹ پروڈکشن، اکاؤنٹنگ اور پروڈیوسرز کو ادائیگی کی ذمہ داری سبھالتے ہیں۔مینوفیکچرر : یہ افراد کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس کے لیے مواد تیار کرتے ہیں، یعنی وہ براہِ راست یا بالواسطہ متاثرہ خواتین کی تصاویر یا ویڈیوز بناتے ہیں۔خریدار : یہ وہ رکن ہوتے ہیں جو پہلے آٹھ ہزار نیو تائیوان ڈالر پیشگی ادائیگی کر کے مواد دیکھتے اور خریدتے ہیں۔اس وقت کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس بند ہو چکا ہے لیکن چونکہ ویب سائٹ کا ڈومین بیرونِ ملک ہے، تائیوانی پراسیکیوٹرز اور تفتیشی اب بھی لاوما اور دیگر ذمہ دار افراد کو تلاش کر رہے ہیں اور تحقیقات جاری ہیں۔لن جیان لانگ جو اس وقت کرمنل انویسٹی گیشن بیورو کے ٹیکنالوجی کرائم سینٹر کے ڈائریکٹر تھے، نے بی بی سی چائنیز کو بتایا کہ بچوں کے جنسی جرائم، خاص طور پر کری ایٹو پرائیویٹ ہاؤس"سے متعلق، بین الاقوامی تعاون اور قانونی مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ ’اس قسم کے جرائم ختم نہیں ہوں گے۔‘مجرم شاید اب زیادہ محتاط ہو گئے ہیں اور ٹیلی گرام یا ڈارک ویب کی طرف جا رہے ہیں جہاں نگرانی مشکل ہے۔ ’لیکن ہمیں روک تھام کے اقدامات مضبوط کرنے ہوں گے تاکہ جرائم اور ملوث افراد کی تعداد کم ہو اور انھیں یہ دکھایا جا سکے کہ ہم انھیں پکڑ سکتے ہیں۔‘ماہر وانگ پی لینگ نے بھی کہا کہ سخت قانون سازی اور نافذ العمل اقدامات اس قسم کے جرائم کے خلاف مؤثر ہیں۔ ’ماضی میں وہ سوچتے تھے کہ کوئی نہیں جانتا اور پولیس نہیں آئے گی۔‘ جب جرم منظرِ عام پر آتا ہے تب خاندان، سکول اور معاشرتی ادارے مداخلت کر سکتے ہیں۔ عدالتی سزا کے بعد مجرم اپنی غلطیوں کا سامنا کر سکتے ہیں اور اصلاح و تربیتی مشاورت حاصل کر سکتے ہیں۔وانگ پی لینگ کے مطابق ان مجرموں میں سے ایک نے عام زندگی اختیار کر لی اور پولیس کے ساتھ رابطے میں رہا۔ ’اس کے خاندان کو بھی معلوم تھا کہ اس نے کیا کیا۔‘اس نے کہا کہ وہ دوبارہ وہی غلطی نہیں کرے گا۔ اب وہ قانونی بالغ مواد کی ویب سائٹ چلا رہا ہے اور اسے پتا ہے کہ قانونی حدیں ’پار نہیں کی جانی چاہئیں۔‘Getty Imagesمجرم کی اصلاح کے ذریعے جرائم کی روک تھامتائیوان میں ڈیجیٹل صنفی بنیاد پر تشدد اور غیر قانونی جنسی ویڈیوز کے جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ حکومت نے چھ قوانین میں ترامیم کی ہیں تاکہ جنسی تصاویر کے مجرموں کو عدالتی اور سماجی نظام میں شامل کیا جا سکے۔ 2024 میں 360 تصدیق شدہ کیسز ہوئے جن میں زیادہ تر لوگوں کی اجازت کے بغیر جنسی تصاویر بنانا شامل تھا، اور متاثرہ افراد کی تعداد 4000 سے زیادہ تھی۔سوشل ورکرز اور پراسیکیوٹرز کے مطابق نوجوان مجرم حقیقی زندگی اور آن لائن رویے میں بالکل مختلف ہوتے ہیں اور خود بھی نہیں سمجھ پاتے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچ گئے۔ موجودہ تعلیمی اور مشاورتی نظام کمزور ہے اور بالغوں کی غیر قانونی فلم بندی کرنے والے مجرموں کے لیے مناسب تربیت یا علاج کے مواقع نہیں ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جرم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ مجرموں کی تربیت، علاج اور جذباتی تعلیم پر توجہ دی جائے۔ نوجوان مجرموں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس لیے ابتدائی روک تھام، صنفی مساوات کی تعلیم، اور اساتذہ کی تربیت اہم ہیں۔آن لائن لون ایپس: ’میرے شوہر کی برہنہ تصاویر پھیلانے کے بعد میری تصویریں بھی غلط ویب سائٹ پر ڈالی گئیں‘برہنہ تصویروں کی چوری: انٹرنیٹ پر جاری سیاہ تجارت کی کہانیگرومنگ گینگز اور پولیس افسران پر جنسی استحصال کا الزام: ’ایک بار ریپ ہونا گینگ کے ہاتھوں کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا‘سیکس، پورن اور سوٹ کیس میں بند لاشیں: دہرے قتل کی واردات جس نے ایک خفیہ آن لائن دنیا سے پردہ اٹھایا’تجرباتی سیکس‘ کے دوران گلا دبنے سے موت: ’اس قسم کا جنسی عمل خطرناک ہوتا ہے‘’یہ کسی کے بھی کپڑے اتار سکتی ہیں‘: ایپل نے بی بی سی کی تحقیقات کے بعد ’برہنہ تصاویر‘ بنانے والی ایپس ہٹا دیں