
AFP via Getty Imagesاس بیماری میں جسم کے مخصوص حصوں پر موٹی اور سخت چربی چڑھ جاتی ہے انکیتا یادو (ایک فرضی نام) یہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ ان کے جسم میں اتنی چربی کیوں جمع ہو رہی ہے۔ڈائٹنگ اور ورزش کے باوجود ان کا وزن بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ڈاکٹروں نے پہلے اسے موٹاپا کہا لیکن چند سال بعد معلوم ہوا کہ انھیں لِپیڈیما نامی بیماری ہے جو عام طور پر خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہے۔یہ کہانی صرف انکیتا کی نہیں ہے۔ لاکھوں خواتین اس بیماری سے نبرد آزما ہیں لیکن انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔خواتین کے لیے لیپیڈیما نہ صرف جسمانی چیلنج بنتا جا رہا ہے بلکہ یہ ذہنی دباؤ کا سبب بھی بن رہا ہے۔انڈیا میں لپڈیما میں مبتلا خواتین کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، لیکن امریکن میڈیکل سینٹر کلیولینڈ کلینک کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 11 فیصد خواتین اس کا شکار ہیں۔Getty Imagesلوگ اکثر لپیڈیما کو موٹاپا سمجھ بیٹھتے ہیںلِپیڈیما اور اس کی علامات کیا ہیں؟ یہ آہستہ آہستہ بڑھنے والی بیماری ہے، جس میں جسم کے نچلے حصوں بالخصوص کولہوں، رانوں اور ٹانگوں میں غیر معمولی چربی جمع ہوجاتی ہے۔بعض اوقات بازوؤں میں بھی چربی جمع ہوجاتی ہے۔ اکثر لوگ لِپیڈیما کو موٹاپا سمجھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔دہلی کے گرو تیغ بہادر ہسپتال کے شعبہ طب کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر الپنا رائے زادہ نے بی بی سی کو بتایا: 'لِپیڈیما کو اکثر موٹاپا سمجھ لیا جاتا ہے، لیکن عام باڈی ماس انڈیکس (جسم میں چربی کا اندازہ لگانے والا انڈیکس) والی خواتین بھی لپیڈیما کا شکار ہو سکتی ہیں۔'ماہرین کا کہنا ہے کہ لپیڈیما کو اکثر موٹاپا، لِمفیڈیما یا سیلولائٹس سمجھ لیا جاتا ہے۔ ان تینوں میں جسم کے اعضاء موٹے ہونے لگتے ہیں لیکن یہ ان تینوں سے الگ بیماری ہے۔ان تینوں بیماریوں کی تشخیص کے متعلق کر ڈاکٹروں میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اسی لیے لِپیڈیما کی جلد شناخت نہیں ہوتی۔ڈاکٹر 1940 کی دہائی سے لِپیڈیما کے بارے میں جانتے تھے۔لیکن کئی دہائیوں سے، طبی برادری نے جسم میں چربی کے ناہموار جمع ہونے کی اس علامت پر بہت کم توجہ دی۔صرف پچھلے 15 سالوں میں صحت کے سائنسدانوں نے اس پر توجہ مرکوز کی ہے۔ڈبلیو ایچ او نے سنہ 2019 میں اسے ایک الگ بیماری کے طور پر تسلیم کیا۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں اور عام لوگوں میں اس کے بارے میں شعور کم ہے اور اب تک اس کا علاج تلاش کرنے کی کوششیں بہت کم ہوئی ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گھٹنوں، جوڑوں اور پنڈلیوں میں مسلسل درد لپیڈیما کی علامت ہو سکتا ہے۔ان کی علامات میں رانوں اور کولہوں میں چربی کا ناہموار طور پر سخت جمع ہونا، اور وہاں چھونے پر درد یا جلن، ہاتھوں اور پیروں میں جلدی تھکاوٹ، معمولی چوٹ پر بھی نشانات وغیرہ شامل ہیں۔جسم کے نچلے حصے پر جلد خراش یا چوٹ کے نشان ابھر آنے یا نیل اور چکتے پڑ جانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ بازوؤں اور ان کے پچھلے حصوں پر بہت زیادہ چربی کا جمع ہونا بھی لِپیڈیما کی علامت ہو سکتی ہے۔کسی کو اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ کہیں پورے جسم کے مقابلے میں کچھ حصے ضرورت سے زیادہ موٹے تو نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ذہنی حالت پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ جذباتی تناؤ اور اعتماد کا اچانک کھو جانا بھی اس کی علامتیں ہو سکتی ہیں۔بیماری کے دوران، جسم کے نچلے حصے تیزی سے موٹے اور خراب ہونے لگتے ہیں۔ جب حالت زیادہ سنگین ہو جاتی ہے تو مریضوں کے لیے حرکت کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس دوران درد عام ہوتا ہے۔AFP via Getty Imagesخواتین کو اس بارے میں زیادہ محتاط رہنا ہوگا کہ کہیں ان کے گھٹنے، پنڈلی اور زانو تو موٹے نہیں ہو رہےلِپیڈیما کی وجوہات کیا ہیں؟ابھی تک لپیڈیما کی وجوہات معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں جسم کے اندر ایک دوسرے سے جڑنے والے دونوں ٹشوز اور لمفیٹک نظام متاثر ہوتے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق یہ جینیاتی بیماری ہو سکتی ہے۔ یعنی اگر خاندان میں کسی کو یہ بیماری ہو تو اگلی نسل میں بھی منتقل ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ نو جوانی سے جوانی میں داخل ہونے کے دوران خواتین کے جسم میں ہارمونل تبدیلیاں یا عدم توازن لِپیڈیما کی وجہ بن سکتا ہے۔موٹاپے اور وزن کم کرنے سے متعلق چند غلط مفروضے چربی جلانے کا سست عمل اور وزن کم کرنے کا نہ ختم ہونے والا انتظار جس کا حل صرف ورزش ہی نہیںمونجارو: بھوک اور وزن کم کرنے والا انجیکشن لیکن کیا یہ ایک مستقل حل ہے؟بواسیر اور مقعد کے کینسر میں کیا فرق ہے، ان کی علامات کیا ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟دہلی کے لال بہادر شاستری ہسپتال میں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور کنسلٹینٹ فزیشین ڈاکٹر یوگیش کشواہا کہتے ہیں: 'خواتین کو ہارمونل تبدیلیوں کے دوران اس قسم کی بیماری کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ بلوغت میں داخل ہونے کے دوران، حمل یا مینوپاز کے دوران خواتین کے جسم میں بہت سی ہارمونل تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس وقت لِپیڈیما کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔'ڈاکٹر رائے زادہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بیماری کے پس پشت جینیاتی اور ہارمونل تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔لیکن یہ بیماری جسم میں لمفیٹک سسٹم میں نکاسی آب کے مسائل کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔AFP via Getty Imagesخواتین کے بعض حصے پر چربی جمع ہو جاتی ہےخواتین کی ذہنی صحت پر اثراتاس مرض میں مبتلا مریضوں میں خود اعتمادی کی کمی ہو سکتی ہے اور وہ ڈپریشن کا شکار ہو سکتی ہیں۔ڈاکٹر الپنا رائے زادہ کہتی ہیں: 'عام طور پر خواتین 35 سے 45-50 سال کی عمر کے درمیان لِپیڈیما سے متاثر ہوتی ہیں۔ ایک ہی وقت میں ان کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی درمیانی عمر کی زندگی بھی شروع ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ تمام حالات مل کر خواتین کے لیے شدید ڈپریشن کا سبب بنتے ہیں۔'اس بیماری میں مبتلا انکیتا یادو کا کہنا ہے کہ 'میں نے خود کو آئینے میں دیکھنا چھوڑ دیا ہے، میرے آس پاس کے لوگ اس پر بات کرتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں اب باہر جانے کی کوشش بھی نہیں کرتی۔'ڈاکٹر الپنا رائے زادہ کہتی ہیں کہ خواتین خود کو مورد الزام ٹھہرانے لگتی ہیں کہ وہ موٹی ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ ہر طرح سے اس پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ڈائٹنگ کے ساتھ یوگا، جم، مشکل ورزش کرنے کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔Getty Imagesاس کے علاج کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن لیپوسکشن کے ذریعے اس سلسلے میں کچھ کیا جا سکتا ہےاس کا علاج کیا ہے؟ڈاکٹر رائے زادہ کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ نہ تو موٹاپا ہے اور نہ ہی یہ بڑھے ہوئے لپڈز کی وجہ سے ہے۔اگر ایسا ہوتا تو کولیسٹرول کم کرنے والی دوائیوں، ورزش یا خوراک پر کنٹرول سے اس کا علاج کیا جا سکتا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ یہ بیماری ابھی تک ٹھیک طرح سے سمجھ میں نہیں آئی ہے، اس لیے اس کی دوائیں ٹھیک طرح سے تیار نہیں ہوسکی ہیں۔ڈاکٹر رائے زادہ کا کہنا ہے کہ 'اس کا واحد علاج سرجری ہے، لیکن یہ زیادہ کامیاب بھی نہیں ہے۔ بیریاٹرک، ری کنسٹرکشن سرجن اور ویسکولر سرجن اس میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ علاج بہت مہنگے ہیں اور انڈیا میں بہت کم جگہوں پر دستیاب ہیں۔'وہ کہتی ہیں کہ حالیہ دنوں میں لائپوسکشن سے اس کا علاج کرنے کی کوشش میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک جراحی کا طریقہ ہے، جس میں جسم سے لپیڈیما کا سبب بننے والی چربی کو ایک خاص طریقے سے نکالا جاتا ہے۔اس عمل میں، جسم کے متاثرہ حصے میں چھوٹے چیرے (کٹ) لگائے جاتے ہیں، جس کے ذریعے جسم میں ایک خاص سیال (انفلٹریشن سولوشن) ڈالا جاتا ہے۔یہ سیال ٹشو کو ڈھیلا کرتا ہے، تاکہ چربی کے خلیات کو آسانی سے نکالا جا سکے۔اس طرح کی سرجری عام طور پر صرف لِپیڈیما کے اعلی درجے کے مرحلے میں کی جاتی ہے۔دستی لمف ڈرینج تھراپی بھی اسے کنٹرول کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ یہ ہلکی مساج کی ایک قسم ہے، جس کی وجہ سے لیمفیٹک سیال باہر آتا ہے اور سوجن کم ہوتی ہے۔کمپریشن گارمنٹس بھی اس بیماری میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ خاص قسم کے کپڑے ہیں، جو جسم پر دباؤ ڈال کر سوجن اور درد کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔اس بیماری پر اب پوری دنیا میں تحقیق کی جا رہی ہے اور اس پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور ادویات بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ لیکن اب تک کوئی موثر دوا تیار نہ کی جا سکی ہے۔بواسیر اور مقعد کے کینسر میں کیا فرق ہے، ان کی علامات کیا ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟مونجارو: بھوک اور وزن کم کرنے والا انجیکشن لیکن کیا یہ ایک مستقل حل ہے؟چربی جلانے کا سست عمل اور وزن کم کرنے کا نہ ختم ہونے والا انتظار جس کا حل صرف ورزش ہی نہیںتوند: عزت اور مرتبے کی علامت سمجھے جانے والا بڑھا ہوا پیٹ صحت کے لیے بڑا خطرہ کیسے بنا اور اس سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے؟کیا چاکلیٹ کھانے سے چہرے پر مہاسے نہیں نکلتے؟تمباکو نوشی ترک کرنے پر زیادہ میٹھی اور چکنائی والی غذاؤں سے کیسے بچا جائے؟