
Getty Imagesفرانسس گیری پاورزاس وقت سوویت روس میں سی آئی اے کے ایک جاسوسی مشن پر تھے19 اگست 1960کو یعنی 65سال قبل اسی ہفتے ماسکو کی ایک عدالت نے ایک امریکی پائلٹ فرانسس گیری پاورز کو سوویت سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔بی بی سی نے اس سرد جنگ کے دوران سفارتی تلخیوں کے بارے میں رپورٹ کیا تھا۔فرانسس گیری پاورزاس وقت سوویت روس میں سی آئی اے کے ایک جاسوسی کے مشن پر تھے جب ان کے یو-2 طیارے کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے ناشنہ بنایا گیا تھا۔پاورز نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ’میں نے اوپر دیکھا، باہر دیکھا اور ہر جگہ ہر چیز نارنجی رنگ کی تھی۔‘’مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا: 'خدا کی قسم یہ نہیں ہو سکتا۔‘اگرچہ پاورزپیراشوٹ کے ذریعے محفوظ مقام تک پہنچنے میں کامیاب رہے تھے لیکن ان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔انھیں کے جی بی نے گرفتار کر لیا اور پوچھ گچھ کے بعد ان پر ماسکو میں مقدمہ چلایا گیا، جہاں ان کا خاندان صرف انھیں بے بسی سے دیکھ سکتا تھا۔ان کی اہلیہ باربرا پاورز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم ان کے مقدمے کی سماعت کے موقع پر وہاں موجود تھے۔‘19 اگست 1960کو 65 سال پہلے اسی ہفتے پاورز کو 10 سال کی سزا سنائی گئی تھی، جن میں سے تین برس انھوں نے روسی جیل میں گزارنے تھے اور باقی کے سات لیبر کیمپ میں۔سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں اُن کی گرفتاری اور مقدمے کا مشرق اور مغرب کے تعلقات پر تباہ کن اثر پڑنے والا تھا۔Getty Imagesاگست 1960 میں سوویت یونین کے شہر ماسکو میں ہاؤس آف دی یونینز کے پلر ہال میں امریکی پائلٹ فرانسس گیری پاورز جن کے جاسوس طیارے یو-2 کو جاسوسی کے الزام میں مار گرایا گیا تھا۔ پاورز کے بغل میں ان کا ترجمان ہے، جس کے سامنے ان کے وکیل میخائل گرینوف بیٹھے ہوئے ہیںپاوور کی عمر اس وقت 30 سال تھی۔ان کا تعلق کینٹکی، امریکہ سے تھا اور ان کے والد کوئلے کے کان کن تھے۔ انھوں نے 1950 میں امریکی فضائیہ میں شامل ہونے سے پہلے کیمسٹری اور حیاتیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔سنہ 1956 میں انھیں سی آئی اے نے دشمن کے علاقے میں یو-2 جاسوس طیارے اڑانے کے لیے بھرتی کیا تھا۔یہ یو-2 طیارے 70,000فٹ کی بلندی پر پرواز کر سکتے تھے، جو مبینہ طور پر سوویت دفاعی رینج سے اوپر تھا۔ پھر بھی جہاز پر نصب جدید ترین کیمرہ نیچے موجود فوجی تنصیبات کی تفصیلی تصاویر لے سکتے تھے۔یکم مئی 1960 کو پاورز پاکستان کے شہر پشاور سے روانہ ہوئے اور سوویت یونین کو پار کرکےناروے پہنچنے کے لیے مختصر پرواز کی۔انھوں نے اپنی یادداشت ’آپریشن اوور فلائٹ' میں لکھا ہے کہ 'منصوبے کے مطابق یہ راستہ ہمیں روس میں اس سے کہیں زیادہ اندر تک لے جاتا جہاں ہم پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔‘لیکن سوویت حکام نے پچھلی یو-2 پروازوں کا پتا لگایا تھا اور ہر قیمت پر اسے روکنے کے لیے پرعزم تھے۔سوویت روس نے مگ 19لڑاکا طیاروں کو متحرک کیا اور ان سے ایس 75ڈووینا میزائل داغے گئے۔مشن کے چار گھنٹے بعد پاورز کے طیارے کو روسی شہر سوردلوفسک (اب یکاترینبرگ) کے قریب ان میں سے ایک میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سے جہاز کے ایک پر تباہ ہوگیا اور یہ طیارہ اپنی دُم کے بل زمین کی طرف گرنے لگا۔پاورز کے بیٹے گیری پاورز جونیئر نے بی بی سی کے ویٹنس ہسٹری پوڈ کاسٹ میں اس واقعے کا احوال سُنایا ہے۔'انھوں (پاورز) نے باہر نکلنے کے بارے میں سوچا۔ یہ وہ پہلا کام ہے جس کی پائلٹس کو تربیت دی جاتی ہے کہ کیسے کسی ایسے طیارے سے باہر نکلا جائے جو تباہ ہونے والا ہو۔ لیکن انھیں احساس ہوا ہے کہ اگر وہ باہر نکلتے ہیں تو اس کوشش میں ان کی ٹانگیں کٹ سکتی ہیں۔'' یو-2 کا کاک پٹ بہت چھوٹا، بہت تنگ، بہت کمپیکٹ ہے۔ باہر نکلنے کے لیے آپ کو ایئر فریم کو صاف کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہونا ضروری ہے، ورنہ آپ اپنے جسم کا ایک حصہ کھو سکتے ہیں۔'Getty Imagesامریکی پائلٹ فرانسس گیری پاورز کی تصویر جس میں انھوں نے 6 مارچ 1962 کو سینیٹ کی آرمڈ سروسز سلیکٹ کمیٹی، واشنگٹن ڈی سی کے سامنے یو-2 جاسوس طیارے کے واقعے کی سماعت کے دوران ایک ہوائی جہاز کا ماڈل تھام رکھا تھا پراسرار گولی، ملزم کی ہلاکت اور سازشی نظریات: جان ایف کینیڈی کا قتل جس کے حوالے سے شکوک آج بھی موجود ہیںامریکہ کی پہلی خاتون جاسوس جنھوں نے صدر لنکن کے قتل کے منصوبے کو ناکام بنایاماسکو کو 20 سال تک امریکہ کے اہم راز فراہم کرنے والے ایف بی آئی جاسوس گرفتار کیسے ہوئے؟فوجی صدر کا قاتل غدار یا انقلابی؟ جب ایک انٹیلیجنس سربراہ کو پھانسی دیے جانے کے بعد بھی معاملہ سلجھ نہ سکااس کے بعد پاورز نے طیارے کی ایجیکٹر سیٹ کا استعمال نے کرنے کا فیصلہ کیا اور کنوپی کھول کر نکلنا چاہا۔گیری جونیئر کا کہنا ہے کہ ’جیسے ہی کنوپی کھلی ان کا آدھا جسم جہاز سے باہر نکل گیا اور وہ یو-2 کے ڈیش بورڈ پر جہاز کے خود کو تباہ کرنے والے بٹن تک پہنچنے سے قاصر ہو گئے۔‘’ان کے چہرے پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا، ان کا آدھا جسم جہاز میں اور آدھا جہاز سے باہر تھا۔ وہ اسی حالت میں جہاز کے ساتھ گھومتے ہوئے زمین کی طرف گِر رہے تھے۔ اسی دوران کبھی وہ بے ہوش ہوجاتے تھے تو کبھی ہوش میں آ جاتے تھے۔‘بہرحال پاورز کسیطرح یو-2 سے آزاد ہوگئے اور وہ سوردلوفسک کے مضافات میں موجود کھیتوں میں پیراشوٹ کے ذریعے اتر گئے۔ لیکن نیچے اترتے ہوئے انھوں نے ایک سیاہ کار کو نیچے سڑک پر اپنا پیچھا کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ریاستی سکیورٹی حکام نے جلد ہی انھیں حراست میں لے لیا۔ ان کے قریب ہی یو-2 طیارے کا ملبہ بھی موجود تھا، جس میں ان کا کیمرہ بھی نصب تھا۔اب امریکی حکومت کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ پاورز بچ گئے ہیں یا نہیں اور یو-2 طیارہ تباہ ہوگیا تھا یا نہیں۔ایسے میں امریکی محکمہ خارجہنے ایک فرضی سٹوری جاری کیجس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاورز ترکی کے اوپر سے پرواز کر رہے تھے اور ناسا کے لیے موسم کے پیٹرن کا مطالعہ کر رہے تھے جب وہ حادثاتی طور پر سوویت فضائی حدود میں داخل ہو گئے۔اس کہانی میں ایک یو-2 طیارے کی تصاویر بھی شامل تھیں جن پر جلد بازی میں ناسا کا لوگو شامل کیا گیا۔ لیکن مشن کو خفیہ رکھنے کے بجائے جلد بازی میں کی جانے والی یہ کوشش کے سبب انھیں شرمندگی اُٹھانی پڑی۔یو ایس ایس آر کے وزیر اعظم نکیتا خروشیف نے دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ پاورز زندہ اور صحت مند ہیںاور ان کا کیمرہ اور تصاویر بازیاب کر لی گئی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ جاسوس تھے۔امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے اعتراف کیا کہ انھوں نے جھوٹ بولا تھا اور کہاکہ امریکہ کو اپنے دشمن پر نظر رکھنے کا حق حاصل ہے۔اس واقعے کے رونما ہونے کا وقت بہت اہم تھا کیونکہ دونوں ممالک کے سربراہ فرانسیسی اور برطانوی حکومتوں کے سربراہان کے ساتھ پیرس میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے والے تھے۔یہ پانچ سالوں میں پہلا سربراہی اجلاس تھا جس میں سوویت اور امریکی رہنماؤں نے شرکت کرنا تھی اور یہ امید تھی کہ اس سے آہنی پردے کے پار دوستی کو فروغ ملے گا۔تاہم پاوورز کی ناکامی نے اسے ناممکن بنا دیا تھا۔17 مئی کو بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’خروشیف نے بات چیت شروع ہونے سے پہلے امریکہ سے جاسوسی کرنے پر معافی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو دوبارہ سوویت فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کرنے کا وعدہ کرنا چاہیے اور اس واقعے کے ذمہ داروں کو سزا دینی چاہیے۔ امریکی صدر آئزن ہاور نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا، جس کے نتیجے میں یہ اجلاس تعطل کا شکار ہو گیا۔ دونوں فریق اب کانفرنس کی ناکامی کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے۔ 'پاوورز کو بھی اس سفارتی تباہی کی کچھ ذمہ داری اٹھانی پڑی۔Getty Imagesپاورز نے این بی سی چینل فور کے لیے ہیلی کاپٹر پائلٹ کے طور پر کام کیا اور 1977 میں اس وقت ہلاک ہو گئے جب ان کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیاسخت میڈیا کوریجاگست میں جب ماسکو میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا، تب تک بی بی سی کی کوریج میں شائستہ لہجہ دیکھا جا رہا تھا، تاہم اس مجموعی میڈیا کوریج میں تنقید کا عنصر بھی شامل تھا۔ایک رپورٹر ایئن میک ڈوگل نے پاوورز کو 'حیرت انگیز طور پر ایک سادہ لوح شخص' قرار دیا۔'ایک خوفزدہ شخص جس کی پیٹھ دیوار سے لگی ہوئی ہے، جو اپنا کام نہیں کر سکا۔۔۔ جو بہت بہادر نہیں تھا۔۔۔ اور جس نے واضح طور پر اپنے روسی وکیل دفاع کی تجاویز پر عمل کیا۔'خوش قسمتی سے پاورز کو دو سال بعد 1962 میں رہا کر دیا گیا تھا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سوویت ریڈیو نے ان کی رہائی کو 'پاوورز کے والدین اور رشتہ داروں کی درخواست کا جواب اور جرم کے ایماندارانہ اعتراف کی وجہ سے 'رحمدلانہ اقدام' کے طور پر پیش کیا۔دراصل پاورز کو امریکی حراست میں موجود کے جی بی ایجنٹ ولیم فشر عرف روڈولف ابیل کے بدلے گھر بھیجا گیا تھا۔قیدیوں کے اس تبادلے کی تفصیلات 2015میں ریلیز ہونے والی سٹیون سپلبرگ کی فلم برج آف سپائیز کا موضوع تھا۔سنہ 1962 میں جاسوسی کے ماہر برنارڈ نیومین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ سوویت یونین کو امریکہ کے مقابلے میں اس تبادلے سے زیادہ فائدہ ہوا۔'ابیل ایک انتہائی تربیت یافتہ اور باعلم جاسوس تھے، جبکہ 'کیپٹن پاورز ایک بہت اچھے پائلٹ تھے لیکن جاسوسی کے نقطہ نظر سے انھیں صرف بٹن دبانا تھا۔'Getty Imagesامریکی فضائیہ کے کیپٹن فرانسس گیری پاورز کے پوتے لنڈسے بیری 15 جون 2012کو آرلنگٹن میں پینٹاگون کے ہال آف ہیروز میں ایک تقریب کے دوران ایئر فورس چیف آف سٹاف جنرل نورٹن شوارٹز نے سلور اسٹار ایوارڈ سے نوازا۔ کیپٹن پاورز کو ماسکو کی لوبیانکا جیل میں تقریبا دو سال تک سخت تفتیش کے دوران امریکہ کے ساتھ 'غیر معمولی وفاداری' پر بعد از مرگ سلور سٹار سے نوازا گیاکچھ میڈیا کوریج اس سے بھی زیادہ سخت تھی کیونکہ بہت سے امریکی مبصرین پاورز کو بزدل اور شاید غدار کے طور پر دیکھ رہے تھے۔گیری جونیئر کا کہنا تھا کہ ’اداریے اس وقت لکھے گئے جب وہ جیل میں تھے۔ امریکی اور برطانوی پریس میں شائع ہونے والے ان اداریوں میں بنیادی طور پر کہا گیا تھا کہ وہ وفاداری بدل چکے ہیں۔انھوں نے طیارے کو صحیح لینڈ کیا اورسارے راز سوویت والوں کے سامنے اُگل دیے۔ یا یہ کہ انھوں نے احکامات پر عمل نہیں کیا تھا۔۔۔ یہ سب آدھے سچ، غلط فہمیاں اور کچھ سراسر جھوٹ تھے۔‘’سازشی نظریات ان حقائق کے گرد گھومتے ہیں کہ پاورز نے جان بوجھ کر یو-2 کے خود کو تباہ کرنے کا بٹن نہیں دبایا اور یہ کہ انھوں نے خود کو مارنے کے بجائے خود کو گرفتار کر وا لیا۔‘گیری جونیئر کا کہنا تھا کہ ’میرے والد جس طرح کے شخص تھے، وہ اس بات سے پریشان نہیں ہوئے۔‘’انھیں پرواہ نہیں تھی کہ دوسرے لوگوں کیا سوچتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے تھا یا کیا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘امریکی حکام نے پاورزکی ساکھ بحال کرنے کے لیے بھی کچھ کوششیں کیں۔سنہ 1962 میں سینیٹ کی آرمڈ سروسز سلیکٹ کمیٹی میں پیشی کے بعد متعدد سینیٹرز نے ان کی بہادری کو سراہا اور 1965 میں انھیں سی آئی اے کے انٹیلی جنس سٹار سے نوازا گیا۔طلاق اور دوسری شادی کے بعد انھوں نے لاک ہیڈ کے لیے پائلٹ کے طور پر کام کیا، پھر لاس اینجلس ٹیلی ویژن نیوز سٹیشنکے این بی سی چینل فور کے لیے ہیلی کاپٹر پائلٹ کے طور پر کام کیا۔ وہ یہ کام کرتے ہوئے 1977 میں اس وقت ہلاک ہو گئے جب ان کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا۔گیری جونیئر اس وقت صرف 10 سال کے تھے لہٰذا وہ اپنے والد کے مشن کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے تھے۔انھوں نے اس سارے معاملے پر تحقیق کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی اور بالآخر 1996 میں ورجینیا میں سرد جنگ میوزیم کی مشترکہ بنیاد رکھی تاکہ پاورز اور ان جیسے دیگر لوگوں کی کہانیوں کو محفوظ کیا جاسکے۔گیری جونیئر کا کہنا تھا کہ 'بچپن سے میں یہ جانتے ہوئے بڑا ہوا تھا کہ میرے والد کو سوویت یونین میں گولی مار دی گئی تھی، کے جی بی نے انھیں قید کر دیا تھا اور بالآخر ایک سوویت جاسوس کے ساتھ ان کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔''ایک بچے کی حیثیت سے یہ سب نارمل تھا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس کے بارے میں ہم بات کرتے تھے۔ میں سوچا کرتا تھا کہ سب کے والد اس طرح کے حالات سے گزرے ہیں۔'پراسرار گولی، ملزم کی ہلاکت اور سازشی نظریات: جان ایف کینیڈی کا قتل جس کے حوالے سے شکوک آج بھی موجود ہیںامریکہ کی پہلی خاتون جاسوس جنھوں نے صدر لنکن کے قتل کے منصوبے کو ناکام بنایاماسکو کو 20 سال تک امریکہ کے اہم راز فراہم کرنے والے ایف بی آئی جاسوس گرفتار کیسے ہوئے؟فوجی صدر کا قاتل غدار یا انقلابی؟ جب ایک انٹیلیجنس سربراہ کو پھانسی دیے جانے کے بعد بھی معاملہ سلجھ نہ سکادوسری جنگ عظیم کی وہ جاسوس جن سے نازی ’ڈرتے‘ تھےسابق سی آئی اے اہلکار نے چین کے لیے جاسوسی کیہمالیہ کے پراسرار تفریحی مقام پر قتل: اگاتھا کرسٹی کی کہانی بالی وڈ میں