کیا ٹوائلٹ سیٹ سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟


Getty Imagesجب آپ ایک ایسی ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھتے ہیں جسے دوسرے لوگوں نے بھی استعمال کیا ہے تو آپ ضرور سوچتے ہوں گے کہ بیماریاں پھیلانے والے جراثیمباتھ روم میں کتنی دیر تک زندہ رہتے ہیں؟جب آپ عوامی بیت الخلا میں قدم رکھتے ہیں تو کراہیت کا زبردست احساس ہوتا ہے۔ٹوائلٹ سیٹ اور فرش پر پیشاب کے چھینٹے دکھائی دینا، تیز بُو۔۔۔یہ سب واقعی آپ کے حواس پر حملہ کر سکتا ہے۔آپ دروازہ تو شاید اپنی کہنی سے کھول سکتے ہیں، اپنے پاؤں سے فلش کر سکتے ہیں، یا پوری سیٹ کو ٹوائلٹ پیپر میں لپیٹ سکتے ہیں لیکن کیا صرف سیٹ پر بیٹھنے سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟ یا کچھ لوگ چیزوں کو چُھونے سے بچنے کے لیے جو حربے استعمال کرتے ہیں وہ مکمل طور پر غیر ضروری ہیں؟ جانتتے ہیں کہ اس بارے میں مائیکروبائیولوجسٹ کا کیا کہنا ہے۔وہ بیماریاں جو شاید نہیں لگیں گییونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں پبلک ہیلتھ اینڈ مائیکرو بائیولوجی کی پروفیسر جل رابرٹس کہتی ہیں کہ ’ہاں، (آپ کو ٹوائلٹ سیٹ سے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں)، لیکن خطرہ بہت کم ہے۔‘جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (ایس ٹی ڈی) کو ہی لے لیں۔ زیادہ تر بیکٹیریا اور وائرس جو ان کا سبب بن سکتے ہیں، گونوریا سے کلیمیڈیا تک، کسی جاندار کے جسم کے باہر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ٹوائلٹ سیٹ جیسی ٹھنڈی، سخت سطح پر ان کا رہنا تو دور کی بات ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایس ٹی ڈی کی اکثریت صرف جنسی اعضا کے براہ راست رابطے اور جسمانی سیال کے تبادلے کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔جل رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’کوئی بہت ہی بدقسمت ہو گا کہ وہ سیٹ پر موجود کسی اور کے تازہ جسمانی سیال کو فوری طور پر ہاتھ سے یا ٹوائلٹ پیپر کے توسط سے جنسی اعضا میں منتقل کر دے۔‘لہٰذا اگرچہ محتاط رہنا اور حفظان صحت کے طریقوں کو برقرار رکھنا اچھا ہے، جن میں ایسے بیت الخلا سے گریز کرنا شامل ہے جو واضح طور پر آلودہ ہیں، لیکن یہ ایسی چیز نہیں ہے جو آپ کی نیندیں اڑا دے۔رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’اگر ٹوائلٹ سیٹس آسانی سے ایس ٹی ڈی منتقل کر سکتیں، تو ہم انھیں ہر عمر کے گروپوں اور ایسے لوگوں میں بھی کثرت سے دیکھتے جنھوں نے کبھی کوئی جنسی سرگرمی کی بھی نہ ہو۔‘رابرٹس کا کہنا ہے کہ اسی طرح آپ کو ٹوائلٹ سیٹ سے ایسی بیماری لگنے کا امکان بھی نہیں جو خون کے ساتھ منتقل ہوتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے تو آپ ٹوائلٹ سیٹ پر اگر کسی کا خون دیکھیں تو اس سے بچیں۔ لیکن کسی بھی صورت جنسی سرگرمی یا آلودہ سوئیوں والے انجکشن کے علاوہ کسی بھی ایسی بیماری کے جراثیم آپ کے جسم میں داخل نہیں ہو سکتے جو صرف خون کی وجہ سے منتقل ہوتی ہیں۔‘رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’اس بات کا بھی امکان نہیں ہے کہ آپ کو ٹوائلٹ سیٹ سے کسی دوسرے شخص کے پیشاب کی نالی کا انفیکشن (یو ٹی آئی) لگ جائے۔‘رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’آپ کو یو ٹی آئی صرف اس صورت میں لگے گی جب آپ ٹوائلٹ سیٹ سے پیشاب کی نالی میں فضلہ منتقل کریں گے لیکن اس کے لیے بڑی مقدار میں فضلے کی ضرورت ہو گی۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آپ اپنے فضلے کو صاف کرتے ہوئے اسے اپنے جنسی اعضا کے بہت قریب لے جائیں اور یو ٹی آئی پیدا کریں۔‘Getty Imagesبستر پر موجود تکیہ جس پر ’ٹوائلٹ سیٹ سے 17 ہزار گنا زیادہ جراثیم‘ ہو سکتے ہیں: تکیے اور چادریں کتنے عرصے بعد بدل لینی چاہییں؟ٹوائلٹ میں اپنی ’پوزیشن‘ کا خیال رکھیں’قاتل فنگس‘ کیا ہے؟ جان لیوا فنگل انفیکشن سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے اس سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟کون سی بیماریاں لگ سکتی ہیںالتبہ طویل عرصے تک رہنے والی جنسی طور پر منتقل شدہ بیماریوں کے معامل میں کچھ استثنیٰ موجود ہے کیوں کہ ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) مختلف سطحوں پر ایک ہفتے تک زندہ رہ سکتا ہے۔نیواڈا کی تورو یونیورسٹی میں مائیکروبائیولوجی اور امیونولوجی کی پروفیسر کیرن ڈوس کہتی ہیں کہ ’یہ وائرس بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں بہت مضبوط پروٹین شیل ہوتے ہیں جو انھیں ماحول میں طویل ’شیلف لائف‘ فراہم کرتے ہیں۔‘ڈوس کا کہنا ہے کہ ایچ پی وی ہینڈ سینیٹائزرز کے خلاف بھی مزاحمت کرتا ہے اور اس کے سخت، حفاظتی پروٹین شیل کو تباہ کرنے کے لیے 10 فیصد بلیچ کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے باوجود، یہ وائرس صرف اس صورت میں آپ کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں جب آپ کسی زخم یا خراش کے ساتھ ایسی آلودہ ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھیں۔ایچ پی وی عام طور پر صرف جنسی عمل کے دوران جلد کے جلد سے رابطے کے ذریعہ منتقل ہوتا ہے۔امریکہ میں آن لائن ہیلتھ کیئر سروس کمپنی ’ٹریٹڈ ڈاٹ کام‘ کے کلینیکل سربراہ ڈینیئل اٹکنسن کا کہنا ہے کہ اسی طرح نظریاتی طور پرجینیٹل ہرپیز‘ نامی وائرس میں مبتلا کوئی شخص ٹوائلٹ سیٹ پر وائرس چھوڑ سکتا ہے اور اس کے بعد استعمال کرنے والے افراد کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے خصوصا اگر بعد میں آنے والے شخص کی جلد کٹی ہوئی ہو یا ان میں قوت مدافعت کم ہو۔لیکن اٹکنسن کہتے ہیں کہ ’اس کا امکان نہیں ہے۔‘Getty Imagesتو کیا مجھے ٹوائلٹ سیٹ کو ڈھانپنا چاہیے، یا کوشش کرنی چاہیے کہ میں اسے چھوُ ہی نہ پاؤں؟ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے اسے کاغذ سے ڈھانپنا، یا ٹوائلٹ سیٹ کور کا استعمال کرنا، عوامی بیت الخلا کا استعمال کرنے کا سب سے صاف طریقہ محسوس ہوسکتا ہے۔تاہم ٹوائلٹ پیپر کی ایک پرت یا ٹوائلٹ کور ممکنہ طور پر آپ کو جراثیم سے نہیں بچائے گا۔وجہ یہ ہے کہ یہ سب سوراخ دار مواد سے بنے ہیں لہذا وہ جراثیم کو آپ کے جنسی اعضا میں داخل ہونے اور چھونے سے نہیں روک سکتے ہیں۔اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی ویکسنر میڈیکل سینٹر میں پیٹ کی صحت کی کلینیکل ماہر سٹیفنی بوبنگر کے مطابق ہوا میں معلق رہ کر حاجت کرنا ممکنہ طور پر فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔جب عورتیں پیشاب کرنے کے لیے بیت الخلا کے اوپر جسم معلق کرتی ہیں، تو وہ ’پیلوک فلور‘ اور ’پیلوک گریڈل‘ کے پٹھوں کو آپس میں جکڑ دیتی ہیں جس سے مثانے سے پیشاب کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، جس سے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے اور غیر ضروری دباؤ ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خواتین اس عمل میں اپنے پورے مثانے کو خالی نہیں کر پاتی ہیں، جس سے بعض اوقات پیشاب کی نالی میں انفیکشن بھی ہوسکتا ہے۔Getty Imagesاصل مسئلہ کیا ہے؟باتھ روم میں بیماریوں کے لگنے کا خطرہ عام طور پر ٹوائلٹ سیٹ کے ساتھ آپ کے جنسی اعضا کے رابطے سے نہیں ہوتا۔رابرٹس کہتی ہیں کہ ’اس کے بجائے یہ آپ کے ہاتھوں کے ٹوائلٹ سیٹ کو چھونے اور آپ یا دوسرے لوگوں کے جسمانی مادوں کے چھوٹے ذرات سے بیکٹیریا یا وائرس سے آلودہ ہونے سے ہوتا ہے اور پھر آپ ان گندے ہاتھوں سے اپنے چہرے اور منہ کو چھوتے ہیں۔‘رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’خطرہ آپ کے جسم کو نہیں بلکہ آپ کے منہ کو آپ کے ہاتھوں سے ہے۔‘پہلے تو ٹوائلٹ سیٹ پر پھینکے گئے فضلے کے دھبوں میں ایسچیریچیا کولی، سالمونیلا، شیگیلا، سٹیفیلوکوکس یا سٹریپٹوکوکس جیسے جراثیم شامل ہوسکتے ہیں جو پیٹ میں جانے سے معدے کی تکالیف جیسے متلی، قے اور اسہال کا باعث بن سکتے ہیں۔فضلے میں نورو وائرس بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ انتہائی متعدی جراثیم آسانی سے آلودہ سطحوں کے ساتھ ساتھ کھانے یا مشروبات کے ذریعے یا کسی ایسے شخص کے ساتھ براہ راست رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے جو بیمار ہے۔یہ انتہائی مزاحمت رکھتا ہے۔ کچھ سطحوں پر یہ دو ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے اور اس کا تھوڑا سا حصہ کسی کو بہت زیادہ بیمار کر سکتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس وائرس کے 10 سے 100 ذرات کسی کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ایک مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ کووڈ 19 اور ایڈینو وائرس کے پیتھوجین یعنی بیماری پھیلانے والے جراثیم جو زیادہ تر متاثرہ افراد میں سردی یا فلو جیسی علامات کا باعث بنتا ہے، یا ان لوگوں میں زیادہ شدید بیماری کا باعث بنتا ہے جو عمر رسیدہ یا مدافعتی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان کے مقابلے میں باتھ روم میں آلودہ سطحوں کو چھونے سے لوگوں کے نورو وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔پھر بھی اس طریقے یعنی ٹوائلٹ سیٹ سے بیمار ہونے کا اصل خطرہ کم ہو سکتا ہے۔رابرٹس کا کہنا ہے کہ ’باتھ روم زمانہ قدیم سے فضلے سے آلودہ نہیں ہوتے کیونکہ انھیں باقاعدگی سے صاف کیا جاتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے مائیکرو بائیولوجی کے طالب علم مختلف ماحول کی سطحوں سے جراثیموں اکھٹے کرتے ہیں انکی کمپیوٹر لیب میں جتنی مقدار میں جراثیم ہوتے ہیں وہ ٹوائلٹ کے مقابلے میں ناقابل بیان حد تک زیادہ ہوتے ہیں۔یونیورسٹی آف ایریزونا میں وائرولوجی کے پروفیسر چارلس گربا کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ایک مطالعے کے دوران پایا کہ امریکہ میں گھر وں کے باتھ روم میں عوامی بیت الخلا کی نسبت زیادہ جراثیم ہوتے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’زیادہ تر جگہوں پر گھر کے مقابلے میں پبلک ریسٹ روم میں ٹوائلٹ استعمال کرنا زیادہ محفوظ ہے۔ ‘گیربا سروے کے مطابق زیادہ تر مقامات پر صفائی کرنے والا عملہ دن میں کئی بار عوامی بیت الخلا صاف کرتا ہے جبکہ زیادہ تر گھرانے ہفتے میں صرف ایک بار اپنے باتھ روم کی صفائی کرتے ہیں۔گیربا کی لیبارٹری کے مطابق گھریلو باتھ روم کے لیے مثالی صفائی کا شیڈول ہر تین دن میں ہونا چاہیے۔Getty Images’ٹوائلٹ کی چھینک‘ سے ہوشیار رہیںاگرچہ زیادہ تر لوگ اپنے ہاتھوں کو توقع سے کہیں کم دھوتے ہیں اس لیے امید ہے کہ آپ عموماً ٹوائلٹ استعمال کرنے کے بعد اپنے ہاتھ اپنے منہ میں نہیں ڈالتے ہیں۔تاہم باتھ روم میں بیماری کا شکار ہونے کا ایک اور طریقہ ہے۔ٹوائلٹ کے غبار میں داخل ہونا۔ یعنی جب آپ ٹوائلٹ کو فلش کرتے ہیں تو بول کے اندر موجود جراثیم ہوا میں چلے جاتے ہیں اور باتھ روم کی فضا میں پھیل جاتے ہیں اور اگر آپ اب تک وہاں ہیں تو آپ پر بھی۔ریاضیاتی نمونوں سے پتہ چلتا ہے کہ ٹوائلٹ بول میں موجود ذرات کا 40سے 60 فیصد حصہ ماحول میں پھیل سکتا ہےگیربا کہتی ہیں کہ ’کچھ لوگ اسے ٹوائلٹ کی چھینک کہتے ہیں۔‘مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ بیکٹیریا کلوسٹریڈیم ڈیفیسل، جو ایک ایسا ایک پیتھوجین ہے جو طب کی دنیا میں عام ملتا ہے اور اسے ماحول سے ختم کرنا انتہائی مشکل ہوسکتا ہے، یہ ٹوائلٹ کے فلش ہونے کے بعد ہوا میں دور دور تک سفر کرسکتا ہے۔یہ سانس کے ذریعے بھی جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔گیربا کا کہنا ہے کہ یہ خطرہ صرف ٹوائلٹ سیٹس پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ٹوائلٹ کے ڈھکن، دروازوں کے کنڈیوں، ٹوائلٹ فلش، سنک ہینڈل اور تولیہ لٹکانے کی جگہوں پر بھی ہو سکتا ہے جنھیں آپ براہ راست اپنے ہاتھوں سے چھوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے زیادہ جراثیم‘ جس سطح پر ہوتے ہیں وہ دراصل فرش ہے۔بدقسمتی سے باتھ روم میں اکثر بیماری پھیلانے والے اضافی جراثیم یا پیتھوجینز بھی ہوتے ہیں جو ضروری نہیں کہ کسی کے پیشاب یا پاخانے کی وجہ سے ہوں بلکہ یہ تو صرف چھینکنے اور کھانسنے کے ساتھ بھی پھیل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلو وائرس کبھی کبھی باتھ روم کی سطحوں پر پایا جا سکتا ہے۔Getty Imagesبیت الخلا میں بیماریوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟کسی بیت الخلا میں کسی بھی گندی چیز سے بچنے کے لیے آپ بہت سے عام فہم اقدامات کرسکتے ہیں چاہے وہ گھر پر ہو یا پبلک ٹوائلٹ۔برطانیہ کی لافبورو یونیورسٹی میں پانی کی حفظان صحت کی انجینئر الزبتھ پیڈی چیزوں کو کم سے کم چھونے کا مشورہ دیتی ہیں۔پیڈی کہتی ہیں کہ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ٹوائلٹ مینوفیکچررز باتھ روم کو محفوظ بنانے کے لیے بغیر چُھوئے کام کرنے والے فلشنگ نظام، سوپ ڈسپنسر، ہینڈ ڈرائر اور بہت کچھ ڈیزائن کر سکتے ہیں۔گیربا کا کہنا ہے کہ بظاہر بیت الخلا میں اڑتے جراثیم سے بچنے کے لیے ڈھکن کو فلش کرنے سے پہلے بند کرنا ایک بہتر انتخاب لگتا ہے، لیکن ’ڈھکن بند کرنے اور اسے کھولنے سے اس میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔‘ان کی 2024کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ٹوائلٹ کے غبار میں موجود وائرس اطراف سے نکل سکتے ہیں، یہاں تک کہ جب ڈھکن نیچے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈھکن ٹوائلٹ سیٹس پر مکمل طور پر فٹ نہیں ہوتے اور عوامی بیت الخلا میں زیادہ پریشر والے فلش ہوتے ہیں تاکہ کم پانی استعمال ہو۔دراصل پیڈی کا خیال ہے کہ باتھ روم مینوفیکچررز کو بیت الخلا سے ڈھکن کو مکمل طور پر ہٹا دینا چاہیے، تاکہ لوگ ڈھکن اور پھر غلطی سے ٹوائلٹ سیٹ کو چھونے سے بچ سکیں۔پیڈی کہتی ہیں کہ ’اس سلسلے میں زیادہ مؤثر اقدامات ہو سکتے ہیں، جیسے ٹوائلٹ بولزکے سامنے ایسی ڈھال بنانا جو بول اور سیٹ کے درمیان حائل ہو۔‘ایئر سپرے بھی ہیں جو باتھ روم میں ہوا اور سطحوں کو صاف کرنے میں مؤثر ثابت ہوئے ہیں، ان سے بیت الخلا کی ’چھینکوں‘ سےپھیلنے والے جراثیموں کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ایک اور آپشن یہ ہے کہ فلش کریں اور پھر فوری طور پر باتھ روم سے نکل جائیں۔ گیربا کہتی ہیں کہ ’میں عام طور پر فلش کرتی ہوں اور دوڑ لگا دیتی ہوں۔‘وہ کسی اور شخص کے بعد عوامی بیت الخلا میں جانے سے پہلے 10 منٹ انتظار کرنے کی بھی سفارش کرتی ہیں۔رابرٹس کہتی ہیں کہ ٹوائلٹ میں اپنا فون استعمال نہ کریں۔ ’آپ کا فون پہلے ہی غیر معمولی طور پر گندا ہے کیونکہ آپ اسے ہر جگہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ، ہر جگہ رکھ دیتے ہیں اور اسے ہر وقت چھوتے ہیں۔‘اگر آپ اسے بیت الخلا میں لاتے ہیں تو آپ اسے آس پاس موجود جراثیم کو چھونے کا خطرہ مول لیں گے اور پھر آپ اپنے ہاتھ دھونے کے بعد بھی انھیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔گیربا کا کہنا ہے کہ سب سے آسان کام جو آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ باتھ روم جانے کے فورا بعد اپنے ہاتھ دھوئیں۔ امریکہ میں بیماریوں کے کنٹرول کے مراکز 20سیکنڈ کے لیے ہاتھ دھونے کا مشورہ دیتے ہیں۔گربا کا کہنا ہے کہ ’ہر پانچ میں سے صرف ایک شخص اپنے ہاتھ مناسب طریقے سے دھوتا ہے۔ لہٰذا عوامی بیت الخلا میں کسی بیماری کے لگنے سے بچنے کے لیے، اپنے ہاتھ دھوئیں۔‘اس کے باوجود ہینڈ سینیٹائزر لگانے کا ایک اضافی اقدام بھی شامل کریں کیونکہ یہ امتزاج صرف ہاتھ دھونے کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ محفوظ بناتا ہے۔اور کوشش کریں کہ بیت الخلا میں چھپے ہوئے جراثیم کا خوف آپ کی نیند نہ اڑائے کیونکہ شاید یہ اتنا زیادہ نہیں جتنا آپ سوچ رہے ہیں۔وضاحت:اس کالم کے اندر تمام مواد صرف عام معلومات کے لیے فراہم کیا گیا ہے اور آپ کے اپنے ڈاکٹر یا کسی دوسرے طبی پیشہ ور کے طبی مشورے کا متبادل نہیں۔ اگر آپ کسی بھی طرح سے اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں تو ہمیشہ اپنے معالج سے مشورہ کریں۔بستر پر موجود تکیہ جس پر ’ٹوائلٹ سیٹ سے 17 ہزار گنا زیادہ جراثیم‘ ہو سکتے ہیں: تکیے اور چادریں کتنے عرصے بعد بدل لینی چاہییں؟ٹوائلٹ میں اپنی ’پوزیشن‘ کا خیال رکھیں’قاتل فنگس‘ کیا ہے؟ جان لیوا فنگل انفیکشن سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟برتن دھونے والے سپونج پر ’انسانی فضلے کے برابر جراثیم‘: اسے صاف کیسے رکھا جائے اور کتنے عرصے بعد بدلا جائے؟انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے اس سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید سائنس اور ٹیکنالوجی

آپ کے فون میں کال کی سیٹنگز اچانک اور خودبخود کیسے تبدیل ہوئیں؟

خلائی مخلوق ہمیں اپنی مہمان نوازی کا موقع کب دے گی؟

کیا ٹوائلٹ سیٹ سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟

افغانستان میں ’لاوارث خواتین‘ کا قلعہ جس کے بارے میں مقامی لوگ بہت کم بات کرتے ہیں

’دُنیا کے سب سے اچھے جج‘ فرینک کیپریو: عدالت میں ’رحمدلی کی علامت‘ جو پاکستان میں بھی مشہور تھے

عصمت چغتائی: فحاشی کے مقدمے کا سامنا کرنے والی بےباک ادیبہ جنھوں نے موت کے بعد بھی دنیا کو چونکا دیا

پشاور سے امریکی جاسوس طیارے کی سوویت یونین تک پرواز جس نے دو دشمن ممالک کو مزید تلخیوں کی طرف دھکیل دیا

اکبر کی ’مریم الزمانی‘: ہندوستان کی سب سے بڑی خاتون تاجر جنھیں نقصان پہنچانا پرتگالیوں اور انگریزوں کو مہنگا پڑا

اکبر کی ’مریم الزمانی‘: ہندوستان کی سب سے بڑی تاجر خاتون جنھیں نقصان پہنچانا پرتگالیوں اور انگریزوں کو مہنگا پڑا

ظہور رحمان: بشونئی میں متعدد افراد کی جانیں بچانے والے استاد جنھیں پانی بہا لے گیا

ظہور رحمان: بشنوئی میں متعدد افراد کی جانیں بچانے والے استاد جنھیں پانی بہا لے گیا

فطرت، یخ بستہ پانی میں غسل اور مشکلات سہنے کا فن: ’دنیا کی سب سے زیادہ خوش قوم‘ کی زندگی کا راز

لارڈ ماؤنٹ بیٹن: جب انڈیا کے پہلے گورنر جنرل کو کشتی پر نصب بم کی مدد سے قتل کر دیا گیا

ہفتے میں تین چھٹیاں صحت کے لیے فائدہ مند، پھر دنیا چار دن کا ورک ویک کیوں نہیں اپنا رہی؟

عرفان پٹھان کا متنازع انٹرویو اور شاہد آفریدی پر حاوی ہونے کا دعویٰ: ’لالہ کبھی پیچھے نہیں ہٹا‘

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی