
BBCملا یعقوب تحریک طالبان کے بانی ملا عمر کے بڑے بیٹے ہیں اور افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہیں افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ دفاع ملّا یعقوب نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے ’سکیورٹی ادارے کمزور ہیں اور اس کمزوری کو چھپانے کے لیے وہ افغانستان پر الزامات عائد کرتے ہیں۔‘ملا یعقوب طالبان کے شریکِ بانی ملّا عمر کے بڑے بیٹے ہیں اور ماضی میں وہ تحریک طالبان کے عسکری کمیشن کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔بی بی سی افغان سروس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیرِ دفاع ملّا یعقوب نے مزید کہا کہ ’تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ (علیحدگی پسند) اپنی کارروائیاں پاکستان میں کرتے ہیں۔ وہ ڈیورنڈ لائن سے سینکڑوں کلومیٹر دور (پاکستان کے) بڑے شہروں میں حملے کرتے ہیں۔‘ملا یعقوب نے یہ باتیں اس سوال کے جواب میں کہیں جب اُن سے پوچھا گیا کہ پاکستان بارہا افغانستان پر یہ الزام عائد کر چکا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مسلح جنگجو پاکستان پر حملوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہیں۔ملا یعقوب نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’اگر وہ (ٹی ٹی پی، بلوچ عسکریت پسند) افغانستان سے داخل ہو رہے ہیں اور پاکستان کے اندر سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کر رہے ہیں، تو انھیں وہاں کیوں نہیں روکا جا رہا؟ چاہے وہ کار کا دھماکہ ہو، ٹارگٹ کلنگ ہو یا دھماکے، انھیں وہیں روکا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں اِس سے اُن کے سکیورٹی اداروں کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور اسے چھپانے کے لیے افغانستان میں الزام عائد کیا جاتا ہے۔‘یاد رہے کہ پاکستان بارہا افغان میں طالبان حکام کو متنبہ کر چکا ہے کہ پاکستان میں سرگرم کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم گروہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے شدت پسندی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے افغانستان کو اس ضمن میں ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔اسی طرح رواں برس کے دوران پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے دو مختلف واقعات میں 104 ایسے مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔طالبان حکومت کے وزیرِ دفاع ملا یعقوب کا مزید کہنا تھا کہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے اور پروپیگنڈا کرنے سے بہتر ہے کہ ’حقیقت کو تسلیم کیا جائے، تعاون بڑھایا جائے اور ان مسائل کے حل کے لیے اچھا منصوبہ بنایا جائے۔‘انھوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں خرابی نہیں چاہتے کیونکہ اس سے دونوں میں سے کسی ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔افغان وزیر دفاع کا کہنا تھا ’بدقسمتی سے (افغانستان اور پاکستان کے) تعلقات اتنے نارمل نہیں ہیں جتنے ہونے چاہییں اور میں اس صورتحال سے خوش نہیں ہوں۔‘Getty Imagesافغانستان میں گذشتہ ہفتے کو ہوئے ڈرون حملے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے اور طالبان حکام نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھاکیا نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ اب بھی افغانستان میں اپنا وجود رکھتی ہیں؟افغان وزیرِ دفاع سے جب پوچھا گیا کہ متعدد ممالک کو تشویش ہے کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ افغانستان میں اب بھی متحرک ہے اور بڑے حملے کرنے کی اہلیت رکھتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’یہ اُن (ممالک) کا دعویٰ ہو سکتا ہے جو کہ انھوں نے اپنے مقاصد کے لیے گھڑا ہو گا۔‘’میرے خیال میں وہ (ممالک) ان دعوؤں کا کوئی ثبوت یا وجہ فراہم نہیں کر سکتے۔ خدا کا شکر ہے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا افغانستان سے خاتمہ کر دیا گیا ہے۔‘’نہ صرف وہ گروپ جو افغانستان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ وہ گروپ بھی جو افغانستان کا استعمال کرکے دوسرے ممالک کے لیے خطرہ بن سکتے تھے، وہ گروپس اب یہاں موجود نہیں ہیں۔‘افغان وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ ’میں بہت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ افغان سرزمین کا ایک انچ بھی کسی ایسے گروپ کے کنٹرول میں نہیں ہے جو افغانستان یا کسی اور کے لیے کوئی خطرہ ثابت ہو سکے۔‘جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا القاعدہ کی کوئی ذیلی تنظیم افغانستان میں اپنا وجود رکھتی ہے؟ تو ملّا یعقوب نے جواب دیا کہ: ’جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور ان کی فوجیں یہاں آئیں تو اماراتِ اسلامیہ (افغانستان) اور القاعدہ کے درمیان تعلقات ختم ہو گئے تھے۔‘انھوں نے دعویٰ کیا کہ جن افراد کا تعلق مشرقِ وسطیٰ سے تھا، وہ واپس لوٹ گئے اور اب ’ہمارے پاس ان کی افغانستان میں موجودگی کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘ملّا یعقوب کے مطابق امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدے میں طالبان نے اتفاق کیا تھا کہ وہ القاعدہ سمیت کسی بھی تنظیم کو افغان سرزمین کا استعمال نہیں کرنے دیں گے۔’ہم اس معاہدے پر عملدرآمد کر رہے ہیں اور امریکی بھی ایسا کوئی ثبوت اب تک نہیں دے سکے ہیں کہ گذشتہ چار برسوں میں افغان سرمین کا استعمال اُن کے یا پھر اُن کے اتحادیوں کے خلاف کیا گیا ہو۔‘اگرچہ افغان وزیرِ دفاع القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی کو مسترد کرتے ہیں لیکن سنہ 2022 میں امریکہ نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو افغانستان کے دارالحکومت میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ملّا یعقوب کا کہنا تھا ’امریکہ نے یہ دعویٰ (ایمن الظواہری کو کابل میں مارنے کا) کیا تھا لیکن اس کی ہم (افغان حکام) نے تصدیق نہیں کی ہے۔ ہم نے اعلان کیا تھا کہ ہم اس کی تحقیقات کر رہے ہیں، میں تحقیقاتی ٹیم کا رُکن نہیں ہوں اور میرے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔‘’کوئی بھی ملک جسے یہ خدشہ ہو کہ افغانستان ان کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے وہ آئیں اور ہم سے بات کریں۔ میں پُراعتماد ہوں کہ ہم انھیں تسلی کروا دیں گے اور صورتحال کی وضاحت کر دیں گے۔‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں، اگر کچھ ممالک ہمارے خلاف مہم نہ چلائیں اور ہمارے کام میں رکاوٹ نہ ڈالیں، تو ہم آزادانہ طور پر کسی بھی خطرے کو روک سکتے ہیں، چاہے وہ افغانستان کو درپیش ہو یا افغانستان سے کسی دوسرے ملک کو۔ بیرونی تعاون کی ضرورت تبھی پڑے گی جب ہم اس کوشش میں ناکام رہتے ہیں۔۔۔ غیر ملکی مداخلت سے ایسے گروہوں کو تقویت ملتی ہے، کیونکہ وہ خود کو کسی نظریے کی بنیاد پر لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم افغانستان کی سلامتی کو مکمل طور پر یقینی بنا سکتے ہیں۔ اور ہم ہر ملک کو یقین دلاتے ہیں کہ انھیں افغان سرزمین سے درپیش کسی خطرے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘AFPامریکی حکام نے جولائی 2022 میں کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا’امریکہ کے ساتھ ویسے ہی تعلقات چاہتے ہیں جیسے چین اور روس سے ہیں‘اس سوال کے جواب میں کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد اب ملک کی مجموعی سکیورٹی صورتحال کو وہ کیسے دیکھتے ہیں؟ ملا یعقوب کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہت تسلی بخش ہے۔ میں ذاتی طور پر سکیورٹی کے بارے میں بہت پراعتماد ہوں۔ اگر آپ افغانستان کی سلامتی کا علاقائی ممالک سے موازنہ کریں تو مجھے لگتا ہے کہ آپ افغانستان کو اعلیٰ نمبر دیں گے۔ کبھی کبھار واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ایسے واقعات اُن ممالک میں بھی ہوتے ہیں جو انتہائی مضبوط سکیورٹی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک سنگین سکیورٹی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔سکیورٹی کے لحاظ سے یہاں صورتحال تسلی بخش ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس وقت افغان آرمی میں اہلکاروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک ہے اور وقت کے ساتھ افغانستان اپنی آرمی کو مضبوط کرے گا اور مزید وسعت دے گا۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا افغانستان عالمی منظر نامے میں چین اور روس کے ساتھ کھڑا ہے؟ ملا یعقوب کا کہنا تھا کہ ’ہماری پالیسی بڑی طاقتوں کے درمیان اپنا توازن برقرار رکھنا ہے۔ ہمیں ایک بلاک کے ساتھ اس طرح اتحاد نہیں کرنا چاہیے کہ ہم دوسرے کے خلاف کھڑے نظر آئیں۔ یہ ہماری پالیسی ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں چونکہ چین اور روس ہم سے تعلقات چاہتے ہیں، اس لیے ہم اُن کو انکار نہیں کر سکتے۔ ہم ایک آزاد ملک ہیں اور کسی بھی ریاست کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ہم امریکہ کے ساتھ بھی ایسے ہی تعلقات چاہتے ہیں جیسے ہمارے چین اور روس کے ساتھ ہیں، لیکن یہ اُن (امریکہ) کے اقدام پر منحصر ہے۔‘افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار جو ’القاعدہ سے وابستہ گروہوں نے بلیک مارکیٹ سے خریدے‘جنت، حوریں اور شدت پسندی: ایک افغان نوجوان کی کہانی جو ’فدائی‘ بننے کے قریب پہنچ گیا تھاافغان طالبان کا پاکستان پر ڈرون حملوں کا الزام: افغانستان نے کابل میں پاکستانی سفیر کو ڈیمارش جاری کیا، وزیر خارجہ کی تصدیقافغانستان میں ’لاوارث خواتین‘ کا قلعہ جس کے بارے میں مقامی لوگ بہت کم بات کرتے ہیں