
ایشیا کپ میں پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں تین بار آمنے سامنے آئیں اور تینوں ہی میچز سوریا کمار یادیو کی ٹیم نے جیتے۔ مگر دونوں کپتانوں کے درمیان ’نو ہینڈ شیک‘ سے شروع ہونے والے تنازعے اور انڈین ٹیم کی جانب سے ایشیا کپ کی ٹرافی وصول نہ کرنے کے معاملے نے بظاہر اس پورے ٹورنامنٹ کو متنازع بنا دیا۔پہلے میچ میں سوریا کمار نے اپنی ٹیم کی جیت انڈین مسلح افواج کے نام کی تھی جبکہ فائنل میں فتح کے بعد انھوں نے ایشیا کپ میں کھیلے گئے اپنے ساتوں میچوں کی فیس انڈین فوج کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔ اِسی فائنل مقابلے کے بعد اپنی پریس کانفرنس کے آخر میں پاکستانی کپتان سلمان علی آغا بھی یہ کہہ کر اپنی سیٹ سے اُٹھ گئے ’ہم (پاکستانی ٹیم) اپنی میچ فیس اُن شہریوں اور بچوں کو عطیہ کر رہے ہیں جو سات مئی کے انڈین حملے میں متاثر ہوئے تھے۔‘سبھی کو پہلے سے معلوم تھا کہ فائنل میچ تناؤ سے بھرپور ہو سکتا ہے۔ اس کا پہلا اشارہ تب ملا تھا کہ جب ٹاس کے وقت پاکستان اور انڈیا کے کپتانوں سے انھی کے ملکوں کے پریزنٹرز نے بات کی جو کہ کرکٹ کی تاریخ کا غیر معمولی واقعہ تھا۔ مبصرین کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا کہ ٹاس کے وقت وقار یونس نے سلمان آغا سے سوالات پوچھے جبکہ روی شاستری نے سوریا کمار سے۔تینوں میچز کے دوران گراؤنڈ پر کھلاڑیوں کی جانب سے منایا گیا مخصوص اور معنی خیز جشن اور اشارے یہ سوچنے پر مجبور کرتے رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے بیچ مقابلے جو ماضی میں دونوں ممالک میں کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے اور کرکٹ ڈپلومیسی کے لیے استعمال ہوا کرتے تھے، اب کشیدگی میں مزید اضافے کا عنوان کیسے بنے؟مگر ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے تھوڑا ماضی میں ہونے والی کرکٹ ڈپلومیسی میں جھانکتے ہیں۔جنرل ضیا کے انڈیا کے اچانک دورے سے واجپئی کا کھلاڑیوں کو ’دل جیتنے‘ کا پیغامکرکٹ ڈپلومیسی سے مراد یہ ہے کہ آپ دو ملکوں کے درمیان سفارتی تناؤ میں کمی کے لیے اِس کھیل کو استعمال کریں۔ مختلف ادوار میں پاکستان اور انڈیا کے سربراہان نے کرکٹ میچز کے ذریعے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔’کرکٹ اِن پاکستان: نیشن، آئیڈنٹٹی اینڈ پولیٹیکس‘ نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر علی خان کہتے ہیں کہ ماضی میں کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے درجہ حرارت کو کم کیا جاتا رہا ہے۔وہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یاد کرتے ہیں کہ سنہ 1987 میں پاکستان کے دورۂ انڈیا کے دوران جب جنرل ضیا الحق انڈیا گئے تھے تو اُس وقت سرحدوں پر فوجی دستے جمع ہو رہے تھے۔ ’ضیا الحق نے (انڈین وزیر اعظم) راجیو گاندھی سے بات چیت کی جس سے تناؤ میں کمی آئی۔‘’پھر 1999 میں شیو سنیا نے پاکستانی کھلاڑیوں کو دھمکی دی تھی۔۔۔ مگر اس کے باوجود یہ دورہ بہت کامیاب رہا تھا اور پاکستانی کرکٹرز کو انڈیا میں گرم جوشی سے ویلکم کیا گیا تھا۔‘دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر میں بی بی سی کے لیے کرکٹ کے متعدد ورلڈ کپس اور ایشیا کپس کی کوریج کرنے والے صحافی عبدالرشید شکور کہتے ہیں کہ ’ہمارے سامنے یہ مثالیں موجود ہیں۔ جنگیں پہلے بھی ہوئی ہیں، جہاز اور ٹینک پہلے بھی تباہ ہوئے ہیں لیکن کرکٹ چلتی رہی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ 1965 کی جنگ کے 18 سال بعد انڈیا کی ٹیم نے پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا تھا جبکہ 71 کی جنگ کے بعد پاکستان ہاکی کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا چاہتا تھا مگر انڈیا کے انکار کے بعد ورلڈ کپ سپین میں ہوا تھا۔ ’لیکن وہاں پر دونوں ٹیمیں کھیلیں ضرور۔۔۔ ہر حال میں کرکٹ، ہاکی اور دیگر کھیل جاری رہے ہیں۔‘شکور نے 1999 کی بھی مثال دہرائی کہ ’جب پاکستان کی ٹیم انڈیا گئی تھی اور سفارتکاری کے لیے شہریار خان کو مینیجر بنا کر بھیجا گیا تھا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ وہاں حالات بگڑنے نہ دیے جائیں۔ انھوں نے اس چیز کو کنٹرول کیا، حالانکہ فیروز شاہ کوٹلہ کی پچ کو کھودا گیا۔ سب اپنی جگہ ہوتا رہا مگر کرکٹ نہیں رُکی اور جب بھی میچز ہوئے تو گراؤنڈ شائقین سے بھرے ہوتے تھے۔‘انڈین ٹیم کی بغیر ٹرافی روانگی، ’کھیل کے میدان میں آپریشن سندور‘ کے تذکرے پر محسن نقوی کا جواب: ایشیا کپ کے فائنل کے بعد کیا ہوا؟وہ ’چھکا‘ جس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک ممکنہ جنگ ٹال دی’پاکستان نے ہی پاکستان کو روک دیا‘وقار یونس ہسرنگا کی طرح جشن کیوں نہیں منا سکتے؟ڈاکٹر علی خان کرکٹ ڈپلومیسی کے حوالے سے سنہ 2004 میں انڈیا کے دورۂ پاکستان کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُس وقت 20 ہزار انڈین شہری پاکستان آئے تھے اور انڈین سفیر نے کہا تھا کہ یہ لوگ ’پاکستانی سفیر بن کر واپس جائیں گے۔۔۔ واجپئی صاحب نے (اپنے کھلاڑیوں سے) کہا تھا کہ دل جیت کر واپس آنا۔‘وہ بتاتے ہیں کہ سنہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سنہ 2011 میں بھی ورلڈ کپ کے موقع پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی چندی گڑھ میں اپنے انڈین ہم منصب منموہن سنگھ سے ملاقات ہوئی تھی۔سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان کے صاحبزادے ڈاکٹر علی خان کا کہنا ہے کہ کرکٹ نے ہمیشہ پاکستان اور انڈیا کو یہ موقع دیا کہ وہ عام پڑوسیوں کی طرح مل سکیں۔ ’1996 کے ورلڈ کپ نے ثابت کیا تھا کہ پاکستان اور انڈیا مل کر کامیابی سے کام کر سکتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ 1965 میں اگرچہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ ہوئی تھی مگر اس کے بعد ’حنیف محمد اور منصور علی خان پٹودی ’ریسٹ آف دی ورلڈ‘ نامی ٹیم کے لیے ایک ساتھ کھیلے تھے اور انھوں نے مشترکہ بیان جاری کیا تھا کہ جنگ ہو گئی ہے مگر ہمیں کرکٹ فیلڈ پر امن ملا ہے۔‘لیکن ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ اب یہ سب صرف ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔Getty Imagesتینوں میچز میں پاکستان اور انڈیا کے کپتانوں نے ہاتھ نہیں ملائےایشیا کپ جسے ’نو ہینڈ شیک‘ اور ’سیاسی اشاروں‘ نے متنازع بنایااس ایشیا کپ کے تین میچز کے دوران پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ مقابلوں کی نوعیت میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ صرف دو سال قبل سری لنکا میں ایشیا کپ کے دوران پاکستانی فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی نے انڈین بولر جسپریت بمرا کو بیٹے کی پیدائش پر ایک تحفہ دیا تھا جس کی ویڈیو دونوں ہی ملکوں میں وائرل ہوئی تھی۔مگر رواں سال اپریل میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوا جس کا انڈیا نے پاکستان پر الزام عائد کیا جبکہ اسلام آباد نے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ مئی میں پاکستان اور انڈیا نے ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرون حملوں کے الزام لگائے اور ایک دوسرے کے جنگی طیارے مار گرانے کے بھی دعوے کیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے درمیان سیزفائر کا اعلان کیا تھا۔بظاہر ان واقعات کے اثرات کچھ ہی مہینوں بعد ایشیا کپ کے میچز میں صاف نظر آیا جس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب پاکستان اور انڈیا کے کپتانوں نے 14 ستمبر کے میچ سے قبل ہاتھ نہیں ملائے۔ پاکستان نے میچ ریفری اینڈی پائیکروفٹ کو اس کا قصوروار ٹھہرایا، جس کے بعد پاکستانی کپتان سلمان آغا نے پوسٹ میچ کانفرنس میں شرکت بھی نہیں کی۔دوسرے میچ سے قبل ایک غیر معمولی تعطل دیکھا گیا کیونکہ پاکستان نے آئی سی سی سے میچ ریفری کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا جس کو منظور نہیں کیا گیا۔ یہ میچ پی سی بی کے اس بیان کے بعد تاخیر سے شروع ہوا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اینڈی پائیکروفٹ نے معافی مانگ لی ہے۔دوسرے میچ میں صاحبزادہ فرحان کا جشن اور حارف رؤف کے باؤنڈری لائن کے قریب چھ صفر کے اشارے بھی سرخیوں کا حصہ بنے۔ تیسرے میچ میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا جب بمرا نے حارث رؤف کی وکٹ لینے کے بعد طیارہ گِرنے کا اشارہ کیا۔جہاں تینوں ہی میچز میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے ہاتھ نہیں ملائے وہیں اس ٹورنامنٹ کا اختتام اس نوٹ پر ہوا کہ انڈین ٹیم نے ایشیئن کرکٹ کونسل کے سربراہ محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔ڈاکٹر علی خان کا کہنا ہے کہ ایشیا کپ میں شمولیت سے قبل انڈیا پر دباؤ تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف میچز کا بائیکاٹ کریں۔ ’لیکن انڈین حکومت نے اس کے باوجود ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا جس پر ملک میں ناراضی ظاہر کی گئی تھی۔ ان کے پاس واحد راستہ یہی تھا کہ وہ اس ٹورنامنٹ کو خراب تعلقات کی عکاسی میں بدل دیں۔۔۔ یعنی اس کے ذریعے گذشتہ مہینوں ہونے والے واقعات کا بدلہ لیں۔‘اُن کی رائے ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے سے اس کے کیے کا بدلہ لینا چاہتے ہیں، اسی لیے ہمیں کبھی جہاز کے اشارے نظر آتے ہیں تو کبھی ٹرافی کی تقریب پر چپقلش۔Getty Imagesپاکستان کے سابق کپتان حنیف محمد کی انڈین سٹار سچن ٹینڈولکر کے ساتھ یادگار تصویرکرکٹ ڈپلومیسی کیوں بحال نہیں ہو پا رہی؟پاکستان میں کھیلوں کے سینیئر صحافی رضوان علی کا خیال ہے کہ ’کرکٹ اب بیک سٹیج پر جا چکی ہے۔ کسی کو یاد نہیں رہے گا کہ پاکستان اور انڈیا نے تین میچوں میں کیا کارکردگی دکھائی۔‘ان کی رائے ہے کہ بظاہر دونوں طرف حکام کھلاڑیوں کو ہدایات دے رہے ہیں کیونکہ ’کیمرے پر کھلاڑی ہی نظر آتے ہیں، آفیشنلز نہیں۔‘رضوان کہتے ہیں کہ ’دونوں طرف سے آگ برابر کی لگی ہوئی تھی۔‘جبکہ ڈاکٹر علی خان کہتے ہیں کہ کسی سطح پر جا کر دونوں طرف سیاسی قیادت کو اسے روکنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ان کی رائے ہے کہ اب کرکٹ ڈپلومیسی اس لیے ممکن نہیں ہو پا رہی کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی اپنے عروج پر ہے جو کرکٹ کے میدان کے علاوہ دیگر جگہوں پر بھی جھلکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا حل دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری سے جڑا ہے۔ جب تک وہ نہیں ہو گا تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ جنگ ہو چکی ہے، بندوقیں رُک چکی ہیں مگر ہم اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر ایک دوسرے کے خلاف بول رہے ہیں۔‘ان کا مؤقف ہے کہ انڈیا میں فی الحال کوئی یہ نہیں کہے گا کہ پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ ’تعلقات میں بہتری کے بعد ہی کرکٹرز کے رویے مثبت ہو سکیں گے۔‘ادھر رضوان کا خیال ہے کہ آئی سی سی کو چاہیے کہ کچھ عرصے کے لیے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچز کو مؤخر کر دے کیونکہ ’اگر آپ انھیں نیوٹرل وینیو پر بھی کھلائیں گے تو دونوں طرف سے بات چیت تو ہو گی۔۔۔ ہم اس جینٹلمینز گیم کو کتنا روندیں گے؟‘وہ اس رائے سے متفق ہیں کہ جب تک سیاسی و سفارتی سطح پر بات چیت نہیں ہوتی اور تناؤ میں کمی نہیں آتی تب تک پاکستان اور انڈیا کو آپس میں نہیں کھیلنا چاہیے۔جبکہ صحافی عبدالرشید شکور کہتے ہیں کہ کھیل اور سیاست کو کبھی ملایا نہیں جانا چاہیے کیونکہ ’اس کا نقصان کھیلوں کو ہی ہوتا ہے۔‘وہ کھلاڑیوں کو یہ یاد کرواتے ہیں کہ ’آپ اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، یہ نہ آئی پی ایل ہے اور نہ ہی پی ایس ایل۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں آپ کا برتاؤ پوری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔‘شکور اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ آئندہ پاکستان اور انڈیا کے مقابلوں کے لیے کوئی واضح پالیسی اور فارمولا ہونا چاہیے کہ ’کرکٹ کو جنگ کی بجائے کرکٹ ہی کے طور پر کھیلا جائے، اس میں سیاست نہ آئے۔‘انڈین ٹیم کی بغیر ٹرافی روانگی، ’کھیل کے میدان میں آپریشن سندور‘ کے تذکرے پر محسن نقوی کا جواب: ایشیا کپ کے فائنل کے بعد کیا ہوا؟’پاکستان نے ہی پاکستان کو روک دیا‘وہ ’چھکا‘ جس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک ممکنہ جنگ ٹال دیلٹل ماسٹر حنیف محمد: ’بڑے بھائی کا حکم تھا کہ ورلڈ ریکارڈ بنانا ہے‘وقار یونس ہسرنگا کی طرح جشن کیوں نہیں منا سکتے؟انڈین وزیراعظم کی ’لازوال محبت‘ کی داستان جس سے بہت سے لوگ لاعلم رہے