حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟


Getty Imagesامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظمبنیامین نتن یاہو نے غزہ کے لیے ایک نئے امن منصوبے پر اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے حماس کو تنبیہ کی ہے کہ وہ بھی اس منصوبے کو قبول کرے۔وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ اس مجوزہ امن منصوبے میں کہا گیا ہے کہ 72 گھنٹوں کے اندر حماس 20 زندہ یرغمالیوں اور دو درجن سے زائد یرغمالیوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کرے جس کے عوض غزہ میں فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس تجویز کے تحت اسرائیلی جیلوں میں موجود درجنوں غزہ کے باشندوں کو رہا بھی کیا جائے گا۔جنگ بندی کے مذاکرات سے واقف ایک فلسطینی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے 20 نکاتی مجوزہ منصوبہ حماس کے حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’قطری اور مصری حکام نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے وائٹ ہاؤس کا منصوبہ دوحہ میں حماس کے حکام کے حوالے کر دیا ہے۔‘اس سے قبل حماس کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ کسی بھی ایسی تجویز پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہو، لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی معاہدے میں فلسطینی مفادات کا تحفظ، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا کو یقینی بنانا اور جنگ کو ختم ہونا چاہیے۔ ہتھیار چھوڑ دینے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حماس کے سینیئر اہلکار نے کہا کہ ’جب تک اسرائیلی قبضہ جاری ہے مزاحمت کے ہتھیار ایک سرخ لکیر ہیں۔‘اس منصوبے کے تحت آئندہ غزہ پر حکومت کرنے میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔گذشتہ روز ٹرمپ اور نتن یاہو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اہم ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کو ’امن کے لیے ایک تاریخی دن‘ قرار دیا ہے۔لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے یہ تنبیہ بھی کی کہ اگر حماس اس منصوبے پر راضی نہیں ہوتی تو نتن یاہو کو ’حماس کے خطرے کو ختم کرنے کا کام سرانجام دینے‘ کے لیے امریکی حمایت حاصل ہو گی۔اس موقع پر نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرتی ہے یا اس پر عمل نہیں کرتی ہے تو اسرائیل ’کام تمام کر دے گا۔‘20 نکاتی مجوزہ امن منصوبہ کیا ہے؟وائٹ ہاؤس کی آفیشل ویب سائٹ پر اس مجوزہ منصوبے کو شیئر کیا گیا ہے۔غزہ دہشت گردی سے پاک علاقہ ہو گا اور یہ اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہیں ہو گا۔غزہ کو اس کے شہریوں کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جو پہلے ہی بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔اگر دونوں فریق، اسرائیل اور حماس، اس تجویز پر راضی ہو جاتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی فورسز یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ لائن پر واپس چلی جائیں گی۔ اس دوران، تمام فوجی کارروائیاں، بشمول فضائی اور توپخانے سے بمباری روک دی جائے گی، اور مکمل انخلا کی شرائط کے مکمل ہونے تک ہر طرح کی عسکری کارروائیاں روک دی جائیں گی۔اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ یرغمالیوں اور مر جانے والے یرغمالیوں کی لاشوں کو واپس کر دیا جائے گا۔تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل جیلوں میں موجود 250 فلسطینی قیدیوں کے علاوہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد حراست میں لیے گئے غزہ کے 1700 قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں تمام خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ہر اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کے بدلے اسرائیل غزہ کے 15 مقتولین کی باقیات واپس کرے گا۔تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بعد، حماس کے وہ ارکان جو پرامن بقائے باہمی کا وعدہ کریں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے انھیں عام معافی دی جائے گی۔ حماس کے وہ ارکان جو غزہ سے جانا چاہیں انھیں ان ممالک تک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا جو انھیں وصول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔اس معاہدے کی منظوری کے بعد فوری طور پر غزہ کے لیے مکمل امداد بھیجی جائے گی۔ امداد کی مقدار کم از کم 19 جنوری 2025 میں ہونے والے انسانی امداد کے معاہدے کے مطابق ہو گی، جس میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی (پانی، بجلی، سیوریج)، ہسپتالوں اور بیکریوں کی بحالی، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری مشینری کا غزہ داخلہ شامل ہے۔غزہ کی پٹی میں امداد کا داخلہ اور تقسیم دونوں فریقوں، اسرائیل اور حماس، کی مداخلت کے بغیر اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں، اور ہلال احمر کے علاوہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ہو گی۔ اس کے علاوہ کسی ایسی تنظیم کو بھی امدادی کارروائیوں کی اجازت نہ ہو گی جو کسی بھی فریق کے ساتھ کسی بھی طرح سے وابستہ ہو۔ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھولنا 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے تحت نافذ کردہ اسی طریقہ کار سے مشروط ہو گا۔غزہ میں ایک ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کی عارضی عبوری حکومت قائم کی جائے گی، جو غزہ میں عوامی خدمات اور بلدیاتی ادارے چلانے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ کمیٹی اہل فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہو گی۔ اس کمیٹی کی نگرانی ایک نیا بین الاقوامی عبوری ادارہ ’بورڈ آف پیس‘ کرے گا، جس کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ اس بورڈ میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے جبکہ دیگر اراکین اور سربراہان مملکت کا اعلان بھی کیا جائے گا۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے فریم ورک کا تعین کرے گا اور اس وقت تک فنڈز کو سنبھالے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا مؤثر طریقے سے کنٹرول سنبھال نہیں لیتی اور اپنا اصلاحاتی پروگرام مکمل نہیں کر لیتی جیسا کہ صدر ٹرمپ کے 2020 کے امن منصوبے اور سعودی فرانسیسی منصوبے جیسی مختلف تجاویز میں بیان کیا گیا ہے۔غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹرمپ کے اقتصادی ترقی کا منصوبہ ایسے ماہرین کا پینل تیار کرے گا جنھوں نے مشرق وسطیٰ میں ترقی پذیر جدید شہروں میں سے کچھ کو بنانے مدد دی تھی۔ایک خصوصی اقتصادی زون کو ترجیحی ٹیرف اور رسائی کی شرحوں کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اور جو غزہ چھوڑنا چاہیں گے وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہوں گے اور وہاں واپس آنے کے لیے بھی۔ ہم لوگوں کو وہاں رہنے کی ترغیب دیں گے اور انھیں ایک بہتر غزہ کی تعمیر کا موقع فراہم کریں گے۔حماس اور دیگر دھڑے اس بات پر اتفاق کریں گے کہ غزہ کی حکمرانی میں براہ راست، بالواسطہ یا کسی بھی صورت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ تمام فوجی، دہشت گردی اور جارحانہ انفراسٹرکچر بشمول سرنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری کی سہولیات کو تباہ کر دیا جائے گا اور دوبارہ تعمیر نہیں کیا جائے گا۔ آزاد ماہرین کی نگرانی میں غزہ کو غیر فوجی زون بنانے کا عمل ہو گا، جس میں ہتھیاروں کو مستقل طور پر ناقابلِ استعمال بنایا جائے گا اور جس کی تصدیق ایک متفقہ عمل کے ذریعے کی جائے گی۔ اس عمل کو بین الاقوامی طور پر مالی اعانت سے چلنے والے بائ بیک اور دوبارہ انضمام کے پروگرام کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ نیا غزہ ایک خوشحال معیشت کی تعمیر اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔خطے میں موجود شراکت دار اس بات کی ضمانت فراہم کریں گے کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کریں گے اور یہ کہ نیو غزہ اس کے پڑوسیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔امریکہ اپنے عرب اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں فوری طور پر تعیناتی کے لیے ایک عارضی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) تیار کی جائے گی۔ آئی ایس ایف غزہ میں جانچ شدہ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور مدد فراہم کرے گا، اور اس معاملے میں اُردن اور مصر سے مشاورت کرے گا جنھیں اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔ یہ فورس طویل مدتی داخلی سلامتی کا حل ہو گی۔ آئی ایس ایف اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں محفوظ بنانے میں مدد دے گی۔ اس کام میں نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورسز بھی شامل ہو گی۔ کسی بھی طرح کے جنگی سازوسامان کو غزہ میں داخل ہونے سے روکنا اور غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے سامان کی تیز رفتار اور محفوظ منتقلی کو آسان بنانا بہت ضروری ہے۔ فریقین کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا جائے گا۔اسرائیل غزہ پر قبضہ یا اس کا اسرائیل کے ساتھ الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف کنٹرول سنبھالتی جائے گی، اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) پہلے سے طے شدہ سنگ میلوں اور ٹائم فریموں کی بنیاد پر وہاں سے انخلا کرتی جائے گی جس پر اسرائیلی فوج، آئی ایس ایف، ضامنوں اور امریکہ پر پہلے سے اتفاق ہو گا۔ اس مقصد یہ یقینی بنانا ہوا ہو گا کہ اسرائیل، مصر یا اس کے شہریوں کے لیے اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عملی طور پر، غزہ کی عبوری اتھارٹی کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت آئی ڈی ایف آہستہ آہستہ غزہ کا کنٹرول آئی ایس ایف کے حوالے کر دے گی۔ تاہم وہ اپنی وہ حفاظتی مقصد سے اس وقت تک اپنی موجودگی برقرار رکھے گی جب تک یہ یقینی نہیں بنا لیا جاتا کہ غزہ کے کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کے خطرے کا سبب نہیں بنے گا۔اگر حماس اس تجویز کو مسترد کرتا ہے یا اس کی منظوری میں تاخیر کرتا ہے تو اس اثنا میں اسرائیلی فوج دہشت گردی سے پاک علاقے آئِ ایس ایف کے حوالے کر دے گی اور وہاں یہ منصوبہ شروع کر دیا جائے گا۔ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل شروع کیا جائے گا تاکہ امن سے حاصل ہونے والے فوائد پر زور دے کر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت اور بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔جب غزہ کی دوبارہ ترقی اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اصلاحاتی پروگرام پر عمل کے ساتھ ہی بالآخر فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے لیے حالات سازگار ہو سکیں گے جسے ہم فلسطینی عوام کی خواہش کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے مذاکرات کروائے گا۔AFP via Getty Imagesعالمی رہنماؤں کا ردعملمقبوضہ مغربی کنارے پر حکومت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی نے امریکی صدر کی اس ضمن میں کوششوں کو ’مخلصانہ اور پرعزم‘ قرار دیا ہے۔اپنی خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں فلسطینی اتھارٹی نے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے، غزہ میں انسانی امداد کی مناسب فراہمی کو یقینی بنانے اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے ’امریکہ، خطے کی ریاستوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے اپنے مشترکہ عزم کی تجدید کرتی ہے۔‘برطانوی وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے اس منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کریں۔'انھوں نے مزید کہا کہ ’حماس کو اب اس منصوبے سے اتفاق کرنا چاہیے اور اپنے ہتھیار ڈال کر اور باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کر کے غزہ کے عوام کے مصائب کا خاتمہ کرنا چاہیے۔‘فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اس منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فرانس جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔‘میکرون نے کہا کہ ’اسرائیل اور حماس کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر خطے میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے تمام متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔‘پاکستان کی امریکہ سے قربت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ’ڈرائیونگ سیٹ‘ پر: ’ٹرمپ انھیں پسند کرتے ہیں جو وعدے پورے کریں‘حماس مخالف عسکری گروہ اور اسرائیل کی سہولت کاری: غزہ شہر کے وسط میں تین فلسطینوں کے سرعام قتل کی حقیقت کیا ہے؟غزہ میں’نسل کشی‘: کیا اسرائیل کو عالمی سطح پر ’جنوبی افریقہ جیسی تنہائی‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟اسرائیل غزہ میں ’نسل کشی کا مرتکب‘: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ اسرائیلی اقدامات پر فردِ جرم ہے‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کا بڑا ایکشن، مشہور ٹک ٹاکرز کے خلاف مقدمات درج

اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر حاجی پارو جو اپنی کاروباری سمجھ بوجھ پر افریقی ممالک میں تجارت کے ’بے تاج بادشاہ‘ بنے

ٹرمپ کا غزہ منصوبہ اور مبہم اصطلاحات میں فلسطینی ریاست کا ذکر: ایک اہم قدم جسے چند بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے

حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟

اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر حاجی پارو جو اپنی کاروباری سمجھ بوجھ کی بنیاد پر افریقی ممالک میں تجارت کے ’بے تاج بادشاہ‘ بنے

پاکستانی وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل غزہ جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے کی ابتدا سے ہمارے ساتھ ہیں، انھوں نے 100 فیصد اس کی حمایت کی: صدر ٹرمپ

اسرائیلی وزیر اعظم نے دوحہ حملے پر معافی مانگی اور آئندہ قطر کو نشانہ نہ بنانے کا وعدہ کیا ہے: قطر

ٹرمپ کی سربراہی میں قیامِ امن بورڈ کی تشکیل، حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری اور اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟

سیاسی اشارے اور متنازع فیصلے: پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ تعلقات میں بہتری کے بجائے ’جنگ کا تسلسل‘ کیسے بنے؟

ٹرمپ اور نتن یاہو کی ملاقات جاری، غزہ سے متعلق واشنگٹن کے 21 نکاتی امن منصوبے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

اسرائیل اور حماس، امن منصوبے سے کچھ ناخوش ہو سکتے ہیں: ترجمان وائٹ ہاؤس

سیالکوٹ میں احمدی برادری پر حملہ: ’لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہوا کہ علاقہ چھوڑ دیں ورنہ گھر جلا دیں گے‘

’شمع جونیجو نے پاکستانی وفد کا آفیشل بیج مستقل مشن کی درخواست پر وصول کیا‘

’تمھیں دوبارہ کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی:‘ جب بی بی سی کو ہیک کروانے کے لیے رپورٹر کو بھاری رشوت کی پیشکش ہوئی

’شمع جنیجو نے پاکستانی وفد کا آفیشل بیج مستقل مشن کی درخواست پر وصول کیا‘

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی