
Novak et alان سات ڈھانچوں کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ 1,700 سال پرانے ہیںسائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کروشیا سے ایک اجتماعی قبر سے ملنے والے انسانی ڈھانچے 1,700 سال پرانے ہیں۔ایک نئے تحقیقی مقالے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سنہ 2011 میں کروشیا کے مشرق بعید میں رومن شہر مرسا، جو اب اوسیئک کے نام سے جانا جاتا ہے، میں کھدائی کے دوران ملنے والے تمام سات ڈھانچے مردوں کے ہیں، جو ممکنہ طور پر رومن فوج کا حصہ تھے۔ ایک اہم بات یہ کہ تمام انسانی ڈھانچے ’مکمل طور پر محفوظ‘ پائے گئے تھے۔مرسا کو پہلی صدی قبل مسیح کے دوران رومیوں نے فتح کیا تھا اور یہ ایک بڑی بستی بن گئی جو تجارت اور دستکاری کا ایک اہم مرکز بھی رہی۔اب یورپی آثار قدیمہ کے متعدد اداروں کے محققین نہ صرف اس بات کا تعین کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ یہ افراد کس دور سے تعلق رکھتے تھے اور یہ کہ ان کی موت کیسے ہوئی۔ مقالے کے مطابق قبر میں موجود افراد کی عمریں 36 سے 50 سال کے درمیان تھیں، جو دراز قد کے مالک تھے اور وہ جسمانی طور پر بہت ’مضبوط‘ تھے۔ وہ بنیادی طور پر سبزی خور تھے تاہم کچھ اپنی خوراک میں گوشت اور سمندری غذا یعنی مچھلی وغیرہ کا بھی استعمال کرتے تھے۔ ان سب ڈھانچوں میں مختلف طرح کے زخم دکھائی دیے، جن میں سے کچھ بھر گئے اور کچھ بھر نہیں سکے۔کچھ زخم کوئی مضبوط چیز کے لگنے سے آئے جبکہ دو ڈھانچوں کے زخم ایسے تھے کہ جن کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ممکنہ طور پر تیر یا نیزے کی نوک کی وجہ سے آئے تھے۔ یہ تمام افراد اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کسی نہ کسی طرح کی ’پھیپھڑوں کی بیماری‘ میں مبتلا تھے۔کیا حضرت عیسیٰ کا کفن کہلانے والے ’شراؤڈ آف ٹیورن‘ اور اس پر موجود انسانی پیکر کا معمہ حل ہوگیامقبرہ، مندر یا جنت کا راستہ: قدیم مصریوں کا وہ ’مقدس‘ راز جو اہرام کی تعمیر کی وجہ بناسمندر کی تہہ میں موجود ’انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خزانے‘ کی ملکیت کی جنگوہ شخص جس نے موئن جو دڑو کو ’حادثاتی طور پر دریافت‘ کیا لیکن ان کی خدمات کو کبھی تسلیم نہ کیا گیاڈی این اے کے تجزیے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ افراد مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی مقامی نہیں تھا۔تحقیق کے مطابق رومن سلطنت کا یہ خاص طور پر ایک پرتشدد دور تھا اور اس وقت مرسا کئی تنازعات میں گھرا ہوا تھا۔محققین کا خیال ہے کہ یہ افراد ممکنہ طور پر ’تیسری صدی کے بحران‘ میں مارے گئے تھے۔ یہ عرصہ غالباً 260 عیسوی میں مرسا میں ہونے والی جنگ کا بنتا ہے جب ’تخت کے مختلف دعویداروں کے مابین متعدد لڑائیاں ہوئیں۔‘تحقیق کے مطابق اجتماعی تدفین اور اجتماعی قبریں ’رومن سلطنت میں مرنے والوں کو دفن کرنے کا روایتی طریقہ نہیں تھا‘ اور زیادہ تر انتہائی سنگین حالات اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے واقعات کے بعد ہی ایسا کیا جاتا تھا۔ان انسانی ڈھانچوں کے اب مختلف زاویوں کو دیکھتے ہوئے محققین کا کہنا ہے کہ مٹی سے ڈھانپنے سے پہلے انھیں کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔واضح رہے کہ مرسا برسوں سے آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس علاقے میں مختلف قدیم تہذیب کے مقامات دریافت ہوئے ہیں۔سوویت اور نازی جبر کا شکار ڈھانچے کی کہانیپومپے کا گرم حمام اور دو انسانی ڈھانچے: قدیم روم میں مالک و غلام کی زندگی کا فرق جو آتش فشاں کی راکھ میں چُھپا تھاقتل، خود کشی یا طبعی موت۔۔۔ انڈیا میں ایک ہی گھر سے ملنے والے پانچ ڈھانچوں کا معمہ کیا ہے؟لندن کے دریائے ٹیمز سے پانچ ہزار سال پرانی انسانی ہڈی دریافتتین ہزار سال قدیم سونے کے بریسلیٹ کی چوری اور ہزاروں ڈالر میں فروخت: ’فرعون دور کا خزانہ ہمیشہ کے لیے گُم ہو گیا‘’موت کے دریا‘ میں اچانک ہلاک ہونے والے ہزاروں ڈائنوسارز کا قبرستان اور ’ہولناک واقعے‘ کے وہ راز جو تاحال افشا نہیں ہو سکے