
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس چیئرمین سینیٹر ناصر محمود کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں سرکاری رہائش گاہوں کے غیرقانونی قبضوں، کرایوں کی عدم ادائیگی، وفاقی سرکاری ملازمین ہاؤسنگ اتھارٹی (FGEHA) کے منصوبوں اور مستقلہ اسٹیٹ مری سے متعلق امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں سینیٹر خالدہ عتیب، حسنہ بانو، بلال احمد خان، سیف اللہ ابڑو، شہادت اعوان اور ہدایت اللہ خان سمیت وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس، وزارتِ قانون اور FGEHA کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
سینیٹر شہادت اعوان کے سوال پر بتایا گیا کہ اسلام آباد میں 10 سرکاری رہائشی یونٹس اب بھی ریٹائرڈ افسران کے قبضے میں ہیں جن میں سے زیادہ تر رول 15(2) آف AAR-2002 کے تحت ہیں۔ کمیٹی نے وزارت کی وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے معاملہ مزید تحقیقات کے لیے مؤخر کردیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ کشمیر پوائنٹ مری کی 38 کنال پر مشتمل کونسٹنٹیا اسٹیٹ کا اصل ریکارڈ کمشنر راولپنڈی کو مل گیا ہے تاہم ملکیت کی قانونی تصدیق ابھی باقی ہے۔
وزارت نے بتایا کہ غیر قانونی قابضین کے خلاف کارروائی کے لیے وزارت قانون سے مشاورت جاری ہے۔ چیئرمین نے جائیداد کی حفاظت کے لیے فوری طور پر باڑ اور سکیورٹی اقدامات تیز کرنے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں سامنے آیا کہ وزارتِ قانون نے وفاقی لاج، لاہور کا 6 کروڑ 77 لاکھ روپے کا کرایہ 2021 سے 2025 تک ادا نہیں کیا۔
چیئرمین نے واضح احکامات دیے کہ تین ماہ میں کرایہ ادا نہ ہوا تو متعلقہ عمارت خالی کرائی جائے گی۔ اسی طرح وفاقی کالونی، لاہور میں پنجاب پولیس کے غیرقانونی قائم کردہ تھانے کے معاملے پر کمیٹی نے فوری طور پر جاری کردہ انخلا کا نوٹیفکیشن پیش کرنے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کابینہ فیصلے کے تحت پی ڈبلیو ڈی کے 3,178 ملازمین مختلف اداروں کو منتقل کیے گئے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ پنشن، جی پی فنڈ اور گریچویٹی کے معاملات 31 دسمبر 2025 تک ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیے جائیں۔
ڈی جی FGEHA نے بتایا کہ جی 13 اور جی 14 کے کمرشل پلاٹ اوپن بولی کے ذریعے نیلام ہوتے ہیں۔ پلاٹ 33 سالہ لیز پر دیے جاتے ہیں جس میں 99 سال تک توسیع ممکن ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ جی ٹو جی معاہدے کے تحت G-13/1 میں فیول اسٹیشن کے بدلے 15 کنال گرین بیلٹ کی ترقی وزارت دفاع اپنے CSR کے تحت کرے گی۔
چیئرمین سینیٹر ناصر محمود نے واضح کیا کہ کمیٹی کسی بھی تاخیر، بے ضابطگی یا غیرقانونی قبضہ برداشت نہیں کرے گی۔ تین ماہ میں پیش رفت رپورٹ لازمی جمع کرائی جائے۔ عمل نہ ہوا تو سرکاری املاک واگزار کروا دی جائیں گی۔