تھانے میں پڑا سر، ادھ جلا شناختی کارڈ اور گرل فرینڈ کو کال: جب مشرف پر حملے میں ملوث شخص فضائیہ کی وردی میں فرار ہو گیا


Getty Imagesدسمبر 2003 پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے لیے مشکل تھا جب ان میں اور موت میں بس لمحوں کا وقفہ تھا۔ وہ بھی ایک مہینے میں دو بار۔14 دسمبر کے روز جنرل مشرف کے قافلے کو راولپنڈی میں آرمی ہاؤس جاتے ہوئے جھنڈا چیچی کے قریب ایک پل سے گزرے مشکل سے 30 ہی سیکنڈ ہوئے تھے کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔جنرل مشرف نے اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں لکھا کہ ’جیسے ہی میری تین ٹن وزنی آرمرڈ گاڑی ہوا میں اچھلی، میں فوراً سمجھ گیا کہ مجھے دہشت گردی کا سامنا تھا اور میں نشانے پر تھا۔‘2001 میں القاعدہ کے امریکہ پر ان حملوں کے بعد افغانستان میں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والی طالبان حکومت کی حمایت ترک کر کے پاکستان نے شدت پسند گروہوں کو سخت مشتعل کر دیا تھا۔’ورلڈ ٹیررازم: این انسائیکلوپیڈیا آف پولیٹیکل وائلنس فرام اینشنٹ ٹائمز ٹو دی پوسٹ 9/11 ایرا‘ میں جیمز سائمنٹ نے لکھا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ان حملوں کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بنیادی اتحادی بن گیا۔’مشرف حکومت نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکی کارروائیوں میں مدد دی۔ اس دوران میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات جاری رہے، جن میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا قتل اور اسلام آباد میں ایک چرچ پر حملہ شامل تھا۔‘مشرف حکومت نے پاکستان اور متنازع ہمالیائی خطے کشمیر میں کئی شدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کی اور ان کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا۔مشرف نے کہا کہ ’ہماری قوم کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ یہ خطرہ انتہا پسندوں سے ہے۔ ہمیں ان تمام عناصر کے خلاف پوری قوت سے لڑنا ہوگا۔‘Getty Imagesدسمبر 2003 پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے لیے مشکل تھادسمبر 2003 کے حملوں سے قبل بھی مشرف پر متعدد بار حملے کیے گئے جن میں 2002 اور 2003 کے دوران اسلام آباد اور کراچی میں کی جانے والی ناکام کوششیں شامل تھیں۔جیمز سائمنٹ کے مطابق سنہ 2003 میں القاعدہ نے پاکستانی حکومت کو کھلے عام دشمن قرار دے دیا اور اس کے بعد دسمبر 2003 میں جنرل مشرف پر دو قاتلانہ حملے ہوئے۔پہلے حملے کے بعد، مشرف کے مطابق، انھوں نے آرمی ہاؤس جا کر اپنی اہلیہ صہبا مشرف کو تسلی دی اور پھر فوراً دوبارہ پل پر واپس آئے۔انھوں نے لکھا کہ ’پل واقعی چیر کر رکھ دیا گیا تھا۔ اگر دھماکہ ایک سیکنڈ پہلے ہو جاتا، تو میری گاڑی عین اس جگہ سے 25 فٹ نیچے گر کر تباہ ہو جاتی۔’اسی شام صہبا اور مجھے اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں ایک شادی میں شرکت کرنا تھی۔ ہم لمحہ بھر بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوئے۔ ہم دونوں گئے۔‘دھواں، ملبہ اور انسانی جسموں کے چیتھڑےاس قاتلانہ حملے کی باتیں ابھی لوگوں کی زبان پر تھیں کہ 25 دسمبر 2003 کو ایک اور حملہ ہو گیا۔اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ایک کانفرنس سے خطاب کے بعد جنرل مشرف آرمی ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے تو قافلہ بھی پہلے سے بڑا تھا اور حفاظتی انتظامات بھی زیادہ سخت۔مشرف لکھتے ہیں کہ ’ہم اس پل سے گزرے جو پہلی واردات کے بعد اب بھی زیرِ مرمت تھا۔ دائیں طرف ایک پیٹرول پمپ تھا جس کے سامنے دو طرفہ سڑک کے درمیان یوٹرن کے لیے کھلے راستے پر ایک پولیس والا کھڑا تھا۔ سامنے سے آنے والی ٹریفک روک دی گئی تھی۔‘’سامنے سے آنے والی تمام گاڑیاں سیدھی ہماری طرف رُخ کیے کھڑی تھیں مگر ایک سوزوکی وین ترچھی کھڑی تھی جیسے وہ اسی کھلے راستے میں گھس کر ہماری طرف آنا چاہتی ہو۔‘ ’یہ نظارہ عجیب لگا تو میں فطری طور پر دائیں کندھے کے پیچھے مڑ کر وین کو دیکھنے لگا۔ پھر آگے دیکھنے کے لیے میں نے سر سیدھا ہی کیا تھا کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور میری گاڑی ایک بار پھر ہوا میں اچھلی۔‘’قیامت ٹوٹ پڑی۔ دھواں تھا، ملبہ تھا، انسانی جسموں کے چیتھڑے تھے، گاڑیوں کے پرخچے تھے۔ اچانک اندھیرا چھا گیا۔ ہم کچھ دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ وقت دوپہر کا تھا مگر یوں لگا جیسے شام ہو گئی ہو۔‘مشرف نے لکھا ’میرے شاندار ڈرائیور جان محمد نے فوراً بریک پر پاؤں رکھا۔ میں نے اپنا گلاک پسٹل نکالا، جو ہمیشہ میرے پاس رہتا ہے، اور جان محمد کو اردو میں چیخ کر کہا دَبا، دَبا۔۔۔! یعنی گاڑی بھگاؤ۔‘’اس نے ایکسلریٹر پورا دبایا مگر ہم بمشکل سو گز ہی گئے ہوں گے کہ ایک اور پیٹرول پمپ آیا۔ اچانک ایک اور خوفناک دھماکہ ہوا۔ ایک بار پھر قیامت ٹوٹ پڑی۔‘’پہلا دھماکہ ہمارے دائیں پچھلے حصے کی جانب سے ہوا تھا۔ یہ دوسرا دھماکہ ٹھیک دائیں اگلے حصے کے بالکل قریب سے آیا۔ کوئی بہت بڑی اور بہت بھاری چیز ونڈ سکرین سے آ ٹکرائی جس نے بلٹ پروف شیشے میں بڑا سا گڑھا ڈال دیا، تاہم شیشہ ٹوٹا نہیں۔‘ ’اگر شیشہ ٹوٹتا تو میرے ڈرائیور یا مجھ میں سے کسی کو ضرور لگتا، زاویہ کچھ ایسا تھا۔ میری گاڑی پھر سے اچھل گئی۔‘’ایک بار پھر انسانی اعضا، گاڑیوں کے حصے، ملبہ، دھواں، گرد اور بہت زیادہ شور۔ پھر اندھیرا چھا گیا۔ گہرا اندھیرا۔ ایسا لگا جیسے دوپہر میں آدھی رات اتر آئی ہو۔‘مشرف لکھتے ہیں ’میری گاڑی کے ٹائر پھٹ چکے تھے۔ اب ہم رِمز پر چل رہے تھے، مگر ایسی گاڑیاں اس حالت میں بھی پچاس ساٹھ کلومیٹر تک چلنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ جان محمد نے پھر بریک لگائی اور میں نے پھر چیخ کر کہا کہ ’دبا، دبا! ایکسلریٹر دباؤ۔ یہاں سے نکلتے ہیں۔‘’گاڑی جھٹکے کھاتی ہوئی رِمز پر چلنے لگی، کانوں کو چیرتا ہوا شور کرتی ہوئی، اور ہمیں آرمی ہاؤس تک لے آئی۔‘’صہبا نے، ظاہر ہے، یہ ہولناک دھماکے سن لیے تھے اور دوڑ کر برآمدے میں پہنچ گئی تھیں۔ جب انھوں نے پہلی گاڑی کو رِمز پر چلتے دیکھا جس سے دھواں نکل رہا تھا، کٹی پھٹی تھی، اور جس پر انسانی گوشت چپکا ہوا تھا، تو وہ چیخنے لگیں۔ وہ چیختی ہی چلی گئیں۔‘’وہ میری طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھیں۔ بھاگ کر گیٹ کی طرف دوڑ یں۔ میں نے پوچھا کہ کیا کر رہی ہو؟ کہاں جا رہی ہو؟ مگر وہ بس چیختی ہی چلی گئیں۔ میں ان کی بات نہیں سمجھ پا رہا تھا، سوائے اس کے کہ وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘'میں انھیں گھر کے اندر لے گیا، ان کے ساتھ بیٹھا اور کہا کہ مجھے دیکھو، میں ٹھیک ہوں۔ سب ٹھیک ہے۔ جب وہ آخرکار پرسکون ہوئیں تو میں باہر آیا۔‘’اگلی گاڑی سب سے زیادہ تباہ ہوئی تھی، خاص طور پر اس کا دایاں پچھلا دروازہ۔ وہ بھی رِمز پر تھی۔ کوئی عام گاڑی ہوتی تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی۔ گاڑیاں انسانی گوشت اور خون سے اٹی ہوئی تھیں۔ میرے پیچھے آنے والی سکواڈ کار بھی بہت خراب ہو چکی تھی۔’14 لوگ مارے گئے تھے۔ تین زخمی ہوئے تھے۔‘مشرف نے لکھا کہ ’پہلا خودکش بمبار سڑک کے درمیان نو انچ کی ڈیوائیڈر سے ٹکرایا اور پیچھے ہٹ گیا۔ شاید اس نے بموں سے لدی گاڑی کو ٹھنڈے انجن کے ساتھ چلانے کی کوشش کی تھی۔ اگر پولیس نے سامنے کی ٹریفک نہ روکی ہوئی ہوتی، تو خدا ہی جانتا ہے کہ کتنے اور لوگ مارے جاتے یا اپاہج ہو جاتے۔'بعد میں پتا چلا کہ ایک تیسرے خودکش بمبار کو سامنے سے حملہ کرنا تھا جہاں سڑک کے درمیان کوئی ڈیوائیڈر نہیں تھا۔ کسی وجہ سے وہ سامنے نہیں آیا۔ شاید اپنے دونوں ساتھیوں کا انجام دیکھ کر اس کے حوصلے پست ہو گئے، یا اسے لگا ہوگا کہ وہ مجھے مار چکے ہوں گے، لہٰذا وہ جان بچا کر بھاگ گیا ہو اگلے دن کسی اور جگہ حملے کے لیے۔‘’اگر وہ اپنا کام نہ چھوڑتا تو وہ تقریباً یقینی طور پر مجھے قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتا، کیونکہ تب تک میری گاڑی بہت خراب ہو چکی تھی اور بغیر کسی تحفظ کے تھی۔‘’یہ سب خدائے بزرگ و برتر کے فیصلے ہیں۔‘Getty Imagesمشرف کی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں تحقیقات کی تفصیل کے لیے ایک الگ باب مختص ہے۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ ’دوسرے حملے کے بعد ہمارے پاس صرف ایک بم سے اُڑا سر، ادھ جلا شناختی کارڈ اور تباہ شدہ موبائل فون ہی سراغ کے طور پر موجود تھے لیکن انھی سے حیرت انگیز نتائج نکلے۔‘’پہلے حملے (14 دسمبر 2003) کے بعد راولپنڈی کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تفتیش سونپی گئی۔ پل سے فون کے کی پیڈ کا ایک ٹکڑا ملا، جو ایک چینی ساختہ طویل فاصلے کے کورڈلیس فون کا حصہ تھا۔ ان کے مطابق ’ابتدا میں کچھ نہ ملا، پھر کوئٹہ کور کمانڈر کی اطلاع پر مشترکہ انٹیلی جنس کارروائی سے مشتاق گرفتار ہوا جس نے پورے منصوبے کی گرہیں کھول دیں۔ اس نے بتایا کہ پہلے حملے میں زیادہ تر پاکستانی فضائیہ کے نچلے درجے کے اہلکار شامل تھے، جنھیں پیسے یا نظریے کے نام پر بھرتی کیا گیا تھا۔‘’تقریباً 250 کلوگرام بارودی مواد کئی راتوں میں پل کے نیچے منتقل کر کے سرکٹ بنایا گیا۔ مشتاق نے بارود کو پھاڑا، لیکن جہاں بیٹھ کر اس نے ایسا کیا وہاں سے ہمارے قافلے کی پوزیشن اسے ٹھیک سے نظر نہیں آرہی تھی۔ یوں غلط جگہ چننے کی وجہ سے ہم بچ گئے۔ وہ 150–200 افراد کے ایک ایسے گروہ کا منصوبہ ساز نکلا جو افغان حکومت کے سربراہ ملا عمر کا حامی تھا اور عملی تعاون جیشِ محمد کر رہی تھی۔‘’25 دسمبر کو جب خودکش دھماکے ہوئے تو آواز جنرل کیانی کے گھر تک سنی گئی۔ وہ فوراً پہنچے اور علاقے کو بند کیا۔ پولیس سٹیشن کے صحن سے پہلے خودکش حملہ آور کا اڑا ہوا چہرہ ملا، جسے سی ایم ایچ کے پلاسٹک سرجن نے دوبارہ تیار کیا۔‘قریب سے ملا نیم جلا شناختی کارڈ اس سے مکمل طور پر میچ ہو گیا۔ نام محمد جمیل نکلا، رہائشی راولاکوٹ پاکستان کے زیر کے زیر انتظام کشمیر کا۔ تین بج کر تیس منٹ تک اس کے گھر پر چھاپے میں اہم مواد ضبط ہو چکا تھا، خاص طور پر اس کی ڈائریاں جن میں کوڈ، نام، پتے اور فون نمبرز درج تھے۔جمیل کا تعلق ایک شدت پسند تنظیم سے تھا، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کوٹلی علاقے میں عسکری تربیت حاصل کی تھی اور 2001 میں افغانستان گیا تھا، جہاں دو سال قید رہا۔ رہا ہوکر لوٹا تو انتہائی تلخ تھا اور افغانستان پر امریکی حملے کا بدلہ لینے کا عزم رکھتا تھا۔دوسرے خودکش حملہ آور کی لاش دور جا گری تھی۔ ’اس کا شناختی کارڈ جھوٹے نام سے تھا مگر اصل شناخت خلیق ثابت ہوئی۔ پولیس سٹیشن کی چھت سے ایک تباہ شدہ موبائل بھی ملا جس کی سم سلامت تھی۔ کال ریکارڈز سے ایک ’سپاٹر‘ ملا جس نے مرکزی ’کنٹرولر‘ کو اطلاع دی، اور پھر جب ہمارے قافلے نے مخصوص راستہ اختیار کیا تو کنٹرولر نے حملہ آوروں کو ’گو‘ کا حکم دیا۔‘25 دسمبر کے حملے کا نیٹ ورک بے نقاباگلی پیش رفت تب ہوئی جب جمیل کو خودکش وین بیچنے والا ڈیلر ملا۔ پھر صلاح الدین نامی شخص گرفتار ہوا، جو جھنڈا چچی سے پکڑا گیا اور القاعدہ کے نمایاں رہنماؤں ابو فراج اللبی اور ہادی العراقی کا رابطہ کار تھا۔صلاح الدین نے بتایا کہ ایس ایس جی کے دو جونیئر اہلکار ارشد اور ڈوگر اس کی مدد کر رہے تھے۔ ارشد نائب چیف آف آرمی سٹاف کی سکیورٹی ڈیوٹی سے پکڑا گیا۔ اس کے گھر سے راکٹ، ٹائمر والی گھڑیاں، بم بنانے کا سامان اور ڈیٹونیٹر برآمد ہوئے۔ وہ مذہبی نہیں بلکہ کرائے کا کارکن تھا۔دو جنوری 2004 کو راولپنڈی کے شکریال علاقے سے تیسری خودکش گاڑی پکڑی گئی جو چند دن بعد ہونے والی سارک کانفرنس پر حملے کے لیے تیار تھی۔اس سارے نیٹ ورک میں صلاح الدین، ارشد اور ابو فراج اللبی کا مضبوط تعلق سامنے آیا جبکہ اصل منصوبہ ساز امجد فاروقی نکلا جسے ستمبر 2004 میں نواب شاہ میں محاصرے کے دوران مار دیا گیا۔ وہ خودکش بیلٹ پہنے ہوا تھا۔ابو فراج اللبی کی گرفتاری (مئی 2005) پورے سلسلے کا اہم ترین موڑ تھا۔ وہ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد القاعدہ کا آپریشنل سربراہ تھا۔ اگرچہ پھل بہری کی وجہ سے اس کی شناخت آسان تھی، وہ مسلسل مقام بدل کر بچتا رہا۔ دو بار ایبٹ آباد میں بال بال بچ نکلا۔مشرف کے مطابق ’آخرکار مردان میں ایک آپریشن کیا گیا۔ یہاں تین اہل کار برقع پہن کر چھپے ہوئے تھے۔ مقررہ وقت پر اللبی پہنچا اور برقع پوش اہل کار نے اسے پکڑ لیا۔ اس کا محافظ زخمی حالت میں پکڑا گیا، جبکہ موٹر سائیکل سوار فرار ہوگیا۔‘وہ لکھتے ہیں کہ ’امریکی جنرل جان ابی زید اور صدر جارج بش کو میں نے ذاتی طور پر اس گرفتاری کی اطلاع دی جسے وہ انتہائی اہم کامیابی سمجھتے تھے۔‘فاروُقی کی ہلاکت اور اللبی کی گرفتاری کے بعد 25 دسمبر کے حملے کا پورا نیٹ ورک بے نقاب ہو گیا۔چند چھوٹے کردار باقی تھے۔ کیانی نے کیس منطقی انجام تک پہنچایا۔ جنرل کیانی اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی بن چکے تھے۔’ملزم پرویز مشرف بنام سرکار حاضر ہوں‘ضیاالحق کا خواب پورا ہونے میں 46 سال لگےجوگرز جن کے ذریعے بےنظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنے والے کا پتا چلاجب آئی ایس آئی سربراہ کو آرمی چیف بنانے کی کوشش میں وزارت عظمیٰ جاتی رہیمشرف لکھتے ہیں کہ ’پہلے حملے میں کلیدی کردار مشتاق 25 نومبر 2004 کو پاکستانی فضائیہ کے راولپنڈی بیس میں کمزور حفاظتی انتظامات کا فائدہ اٹھا کر غسل کے بہانے فرار ہو گئے۔‘’یہ کوئی عام جیل نہیں تھی بلکہ ایئر بیس تھا، جہاں سکیورٹی ڈھیلی تھی۔ مشتاق نے ڈیوٹی پر موجود گارڈ سے کہا کہ اسے نہانا ہے۔ جب وہ نہا کر باہر نکلا تو دیکھا کہ گارڈ سو رہا ہے۔ وہ ایک ایسی گیلری میں تھے جہاں ایئر فورس کے ٹیکنیشن اپنی اوور آل اُتار کر رکھتے تھے۔ مشتاق نے ایک اوور آل پہنی اور سوئے ہوئے گارڈ کے پاس سے گزر کر ایک کھڑکی کے راستے باہر نکل گیا۔‘’پاکستان ایئر فورس کی وردی میں ہونے کی وجہ سے وہ مرکزی گیٹ پر موجود گارڈز کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا، جنھیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ ان کا ایک اہم ترین قیدی یوں فرار ہو رہا ہے۔‘’جلد اور خاموشی سے نکلنے کے لیے مشتاق نے ایئر فورس کی وردی پہنے ہوئے ایک سائیکل سوار سے کہا کہ اسے بس اڈے پر چھوڑ دے۔ وہاں سے وہ پشاور چلا گیا۔ پشاور پہنچ کر اُس نے مبشر نامی شخص کو فون کیا، جس نے اسے نور جہاں نامی ایک آدمی (جو نام کے برخلاف مرد تھا) کے پاس بھیجا، جہاں وہ جنوری 2005 تک رہا۔’پشاور سے مشتاق لاہور گیا اور مبشر کے کزنز سے ملا، جنھوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ قریبی قصبے بھائی پھیرو میں نوخیز اور جاوید نامی دو بھائیوں کے پولٹری فارم پر کام کرلے۔ ’مشتاق نے انھیں بتایا کہ خفیہ ادارے اس کی تلاش میں ہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ کلیم نامی شخص سے ملا اور دونوں نے اسلام آباد میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنانے پر گفتگو ک بلکہ کچھ منصوبہ بندی بھی شروع کردی۔’اس کے بعد مشتاق نے رخ بدل لیا۔ وہ نوخیز اور مبشر کے ساتھ مل کر اسلام آباد ہائی وے کے علاقے میں میری ایک اور ٹارگٹڈ ہلاکت کی منصوبہ بندی کرنے لگا۔‘ آئی ایس آئی نے مشتاق کا تعاقب کیسے کیا؟ مشرف لکھتے ہیں کہ ’تمام انتظامات کر لیے گئے تھے، اور مشتاق 19 اپریل 2005 کو لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوا تاکہ 20 اپریل کو حملہ کرے۔ مگر آئی ایس آئی اس کے تعاقب میں تھے۔’آئی ایس آئی نے تین نمبر اور تین پتے خصوصی طور پر زیرِ توجہ رکھے تھے۔ کراچی میں مشتاق کی والدہ کا نمبر، گجرات میں اس کی گرل فرینڈ کا نمبر اور پشاور میں مبشر کا نمبر۔‘Getty Imagesمشرف لکھتے ہیں کہ ’پشاور پہنچتے ہی جب اُس نے پہلی کال مبشر کو کی تھی تو ہم ابھی اس کے پیچھے نہیں تھے۔ لیکن تقریباً چار ہفتے بعد جب اُس نے پشاور کے قریب باڑہ کے ایک پبلک کال آفس سے اپنی ماں کو فون کیا تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ وہ وہاں موجود ہے۔’چند دن بعد اس نے گجرات میں اپنی گرل فرینڈ کو فون کیا اور خوشی سے بتایا کہ ’میں فرار ہو گیا ہوں اور وہ مجھے دوبارہ کبھی نہیں پکڑ سکیں گے۔‘’اس کی گرل فرینڈ نے اسے بتایا کہ وہ اسے بھول کر کسی اور کے ساتھ تعلق بنا چکی ہے۔ مشتاق طیش میں آگیا اور دھمکی دی کہ وہ فوراً گجرات آ کر اپنے رقیب کو قتل کر دے گا۔ لیکن وہ گجرات نہ گیا اور پشاور ہی میں رہا۔ بعد میں لاہور اور پھر جنوری 2005 میں بھائی پھیرو چلا گیا۔‘’اب تک آئی ایس آئی کے پاس اس کا موبائل نمبر، اس کی سمز کے کوڈز، اور فون کا سراغ بھی تھا۔’ان دو کالز کے بعد آئی ایس آئی نے مشتاق کی نقل و حرکت اور پشاور میں اس کے ساتھیوں کے متعلق تفصیلات معلوم کرلیں۔ مشتاق بار بار سم بدلتا رہا۔ پھر وہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف سمیں استعمال کرنے لگا جن میں گجرات والی گرل فرینڈ بھی شامل تھی۔’آئی ایس آئی یہ سب جان چکی تھی اور اس کے پیچھے تھی، جب وہ لاہور سے اسلام آباد کے لیے نکلا۔ وہ سالم انٹرچینج پر پکڑا گیا۔ وہ بس کی آخری نشست پر گہری نیند میں تھا، اور اس کے جیب میں موبائل فون آن حالت میں تھا۔’جب آئی ایس آئی کے افسر نے اس سے اس کی شناخت پوچھی تو مشتاق نے جواب دیا کہ ’آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کون ہوں۔‘’14 اور 25 دسمبر 2003 حملوں کے الزام میں کل 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے دو کا تعلق فوج جبکہ چھ کا فضائیہ سے تھا جب کہ دیگر گرفتار افراد سویلین تھے۔امریکہ سے اقتصادی اور فوجی امداد کا ملناجیمز سائمنٹ کے مطابق اس کے بعد مشرف نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کیں اور فاٹا و بلوچستان میں آپریشن شروع کیا۔’سنہ 2004 میں پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی مگر یہ قدم سیاسی مذاکرات اور معاشی ترقی کے وعدوں کے ساتھ جوڑا گیا تاکہ خطے کے ناراض قبائل کو ساتھ رکھا جا سکے۔‘جیمز وائن برانٹ اپنی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ان حملوں کے باوجود مشرف اپنے راستے پر قائم رہے۔’اُن کی کوششوں کے صلے میں انھیں امریکہ سے اقتصادی اور فوجی امداد ملی جن میں امریکی اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ، غیر ملکی امداد میں اضافہ اور پاکستان کے بیرونی قرضوں کے ایک تہائی سے زیادہ حصے کی معافی یا اس کی دوبارہ شیڈولنگ شامل تھی۔‘’براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا۔ نقد رقوم کی آمد نے حکومت کو اپنے مالی معاملات بہتر بنانے، معاشی ترقی بڑھانے اور ہتھیار خریدنے میں مدد دی۔ اندرونی محاصل جمع کرنے کا نظام بھی بہتر ہوا اور خسارے کم ہوئے۔ مہنگائی میں جو کئی سالوں سے دوہرے اعداد میں چل رہی تھی، کمی آئی۔‘جوگرز جن کے ذریعے بےنظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنے والے کا پتا چلا’ملزم پرویز مشرف بنام سرکار حاضر ہوں‘ضیاالحق کا خواب پورا ہونے میں 46 سال لگےجب آئی ایس آئی سربراہ کو آرمی چیف بنانے کی کوشش میں وزارت عظمیٰ جاتی رہیجب ایک انگریز فوجی افسر نے پاکستان کے حق میں بغاوت کیسرداروں کے مطالبے اور جناح کے وعدے، جب قبائلی علاقوں کو انڈیا کی بجائے پاکستان میں شامل کیا گیا

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

وفاقی حکومت نے پہلے 20 ماہ کتنا قرض لیا، تفصیلات سامنے آگئیں

تھانے میں پڑا سر، ادھ جلا شناختی کارڈ اور گرل فرینڈ کو کال: جب مشرف پر حملے میں ملوث شخص فضائیہ کی وردی میں فرار ہو گیا

بونڈائی ساحل پر ’باپ اور بیٹے‘ کی فائرنگ سے 15 ہلاکتیں: حملہ آور باپ 1998 میں آسٹریلیا آیا تھا جبکہ بیٹا آسٹریلیا میں ہی پیدا ہوا تھا، وزیرِ داخلہ

بونڈائی ساحل پر فائرنگ سے 15 افراد ہلاک: مارے جانے والے حملہ آور کے پاس 2015 سے اسلحے کا لائسنس تھا، آسٹریلوی پولیس

بونڈائی ساحل پر فائرنگ سے 15 افراد ہلاک: حملے میں جان بوجھ کر یہودی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا، آسٹریلوی وزیرِاعظم

ڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰ

پاکستان نیوی کیڈٹ کالج اورماڑہ میں 9 ویں پیرنٹس ڈے کی پروقار تقریب

پنجاب کے میدانی علاقوں میں شدید دھند، متعدد موٹر ویز بند، فضائی آلودگی میں خطرناک اضافہ

آزادی یا موت، جیل سے عمران خان کا پیغام آچکا، سہیل آفریدی

فیض حمید کے بھائی نجف حمید کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع

نادرا کا فیملی ٹری مزید محفوظ بنانے کیلیے نیا اقدام

’اینٹی ڈرون اسلحہ سٹور میں محفوظ ہے‘: پاکستان میں تیار کردہ جیمنگ گن کی شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کی افواہ اور خیبر پختونخوا پولیس کی وضاحت

دہشت گرد اکاؤنٹس: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قوانین پر عملدرآمد کا الٹی میٹم

’سیکرٹ تھروٹلنگ:‘ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما ایلون مسک سے شکوہ کیوں کر رہی ہیں؟

سندھ میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ’ڈی ایس پی جوڑا‘، جس نے ہسپتال کے آئی سی یو میں شادی کی سالگرہ منائی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی