|
|
یورپی ملک نیدرلینڈز میں ماہرین آثار قدیمہ نے چار ہزار سال پرانا ایک
مذہبی مقام اور ایک ٹیلے پر بنا ہوا ایسا اجتماعی مقبرہ دریافت کیا ہے، جس
میں سے ساٹھ کے قریب مردوں، عورتوں اور بچوں کی قدیم جسمانی باقیات بھی ملی
ہیں۔
آرکیالوجی کے ڈچ ماہرین کے مطابق مذہبی اہمیت کی ہزاروں برس پرانی یہ جگہ
کئی چوکور گڑھوں اور چند ایسے ٹیلوں پر مشتمل ہے، جنہیں ماضی میں مذہبی
رسومات کے علاوہ مردوں کی تدفین کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
اس تاریخی مقام کی دریافت نیدرلینڈز میں ٹِیل (Tiel) نامی ایک ایسی جگہ پر
ہوئی، جو شہر دی ہیگ سے 72 کلومیٹر یا 45 میل دور واقع ہے۔ ٹِیل نامی قصبے
کی بلدیاتی انتظامیہ نے اس دریافت کے بعد اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یہ
نیدرلینڈز میں اپنی نوعیت کی آج تک کی اولین مصدقہ دریافت یے۔
بعد ازاں ٹِیل کی مقامی انتظامیہ نے فیس بک پر اپنے پیج پر یہ بھی لکھا، ''آثار
قدیمہ کے شعبے میں یہ ایک شاندار دریافت ہے۔‘‘
|
|
|
'نیدرلینڈز کا سٹون
ہَینج‘
ڈچ میڈیا نے اس سائٹ کی دریافت کے بعد اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے 'نیدرلینڈز
کا سٹون ہَینج‘ قرار دیا ہے۔
ماہرین کی رائے میں ٹِیل میں یہ سائٹ مذہبی اہمیت کا حامل ایک قدیمی مقام
ہے، جو انگلینڈ میں دریافت شدہ اور بڑے بڑے پتھروں کو کھڑا کر کے بنائے گئے
اس دائرے جیسا ہے، جو اب دنیا بھر میں مشہور ہے اور سٹون ہَینج
(Stonehenge) کہلاتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس جگہ کو ہزاروں برس قبل خاص طور پر اس پہلو
سے تعمیر کیا گیا تھا کہ اسے سال بھر کے دوران سورج کو آنے والے سب سے
زیادہ اور سب سے کم زوال کے ساتھ مربوط بنایا اور سمجھا جا سکے۔
سورج کو ہر سال آنے والے سب سے زیادہ اور سب سے کم زوال کو سادہ لفظوں میں
یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ انہی کے باعث ہر سال اکیس جون کو سال کا طویل ترین
دن اور اکیس دمسبر کو سال کی طویل ترین رات وجود میں آتے ہیں۔‘
|
|
ٹِیل میں نئی دریافت کی خاص بات
ماہرین آثار قدیمہ کو ڈچ قصبے ٹِیل میں جو سائٹ ملی ہے، اس کی خاص بات یہ
بھی ہے کہ اس کا ایک حصہ ایک ایسا ٹیلہ بھی ہے، جس کے نیچے سے ماہرین کو
تقریباﹰ 60 مردوں، عورتوں اور بچوں کی بہت پرانی جسمانی باقیات بھی ملی ہیں۔
اس بات اور دیگر شواہد کی روشنی میں ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ
جگہ ماضی میں قربانی کے لیے منعقد کیے جانے والے اجتماعات، مذہبی رسومات،
خوشی کی تقریبات اور مردوں کی تدفین کے لیے بھی تقریباﹰ 800 سال تک استعمال
ہوتی رہی تھی۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کھدائی کے دوران ماہرین کو اس قدیمی مقام کا علم
تو 2017ء میں ہی ہو گیا تھا مگر اس کی غیر معمولی اہمیت اور انفرادیت کی
تصدیق اب ہوئی ہے۔
ایک ملین اشیاء کی دریافت
ٹِیل کی مقامی انتظامیہ کے مطابق، ''یہاں دریافت ہونے والی ہر شے زیر زمین
اور گہرائی میں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ پوشیدہ ہی رہی تھی۔‘‘
ماہرین اب تک کھدائی کے دوران وہاں سے تاریخی باقیات اور قدیمی نمونوں کے
طور پر تقریباﹰ ایک ملین تک اشیاء نکال چکے ہیں۔ ان میں شیشے کی گولیوں
جیسے دانوں والی ایک تسبیح نما چیز بھی شامل ہے۔
یہ جگہ کم از کم بھی تقریباﹰ چار ہزار سال پرانی ہے، اس کا اندازہ یوں
لگایا گیا کہ اس سائٹ سے ملنے والی اشیاء اور قدیمی نمونوں میں سے کچھ کے
بارے میں اندازہ یہ ہے کہ وہ ڈھائی ہزار سال قبل از مسیح کے زمانے کے ہیں۔ |
|
Partner Content: DW Urdu |