|
|
1300 سال قبل مرنے والی ایک لڑکی کا چہرہ فیشل ریکنسٹرکشن کی جدید
ٹیکنالوجی کے ذریعے ظاہر کر دیا گیا ہے۔
اس لڑکی کا ڈھانچہ 2012 میں کیمبرج شائر کے علاقے ٹرمپنگٹن میں ایک لکڑی کے
بستر پر دریافت کیا گیا۔ ان کے گلے میں سونے اور گارنٹ کا ایک کراس بھی تھا۔
فیشل ریکنسٹرکشن کے ذریعے تیار کردہ یہ تصویر کیمبرج یونیورسٹی کی ایک
نمائش کا حصہ بنے گی۔
ڈاکٹر سیم لیگٹ نے کہا ہے کہ بطور ماہر آثار قدیمہ ’مجھے بِنا چہرے کے
لوگوں کی عادت ہے‘ تو یہ جاننا ’بہت اچھا تھا کہ وہ کیسی نظر آتی ہوں گی۔‘
فرانزک فنکار ہیو موریسن نے یہ تصویر تیار کرنے کے لیے نوجوان خاتون کی
کھوپڑی کی پیمائش اور کاکیشیائی نسل کی خواتین میں ٹشو کی گہرائی کے ڈیٹا
کا استعمال کیا۔
|
|
|
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی بائیں آنکھ دائیں آنکھ کے مقابلے
ذرا نیچے تھی، قریب نصف سینٹی میٹر۔ ان کی زندگی میں یہ کافی قابل غور چیز
رہی ہوگی۔‘
7ویں صدی کی نوجوان خاتون کی ہڈیوں اور دانتوں کے خصوصی جائزے نے ان کی
قلیل مدتی زندگی کے بارے میں بہت کچھ عیاں کیا ہے۔
ان کی پیدائش الپس کے قریب ہوئی شاید جنوبی جرمنی میں ہوئی۔ سات سال کی عمر
میں انھیں کیمبرج شائر میں اس فلیٹ میں منتقل کیا گیا۔
انگلینڈ آمد پر ان کی غذائی عادات میں بھی تبدیلی آئی۔
ڈاکٹر لیگٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پروٹین کی مقدر میں کمی
آئی۔ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ وہ ٹرمپنگٹن کے مقابلے جنوبی جرمنی میں گوشت اور
دودھ سے بنی اشیا کا زیادہ استعمال کر رہی تھیں۔‘
کیمبرج یونیورسٹی نے گذشتہ سال اینگلو سیکسن بادشاہوں پر اپنی تحقیق شائع
کی تھی جس میں بتایا گیا کہ وائکنگز کی آمد سے قبل اکثر بادشاہ سبزی خور
تھے۔
|
|
محققین کو سابقہ جائزوں سے معلوم تھا کہ وہ موت سے قبل ایک نامعلوم بیماری
میں مبتلا تھیں۔
ڈاکٹر لیگٹ نے اس ڈھانچے کے آئسوٹوپک جائزے میں کیمبرج یونیورسٹی کی مدد کی
جس کے بعد اسے ایڈنبرگ یونیورسٹی منتقل کر دیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان کی طبیعت شاید بہت خراب تھی۔ وہ بہت دور سفر کر کے
ایسی جگہ آئی تھیں جس کے بارے میں انھیں زیادہ کچھ معلوم نہ تھا۔ خوراک بھی
الگ تھی۔ یہ ضرور ان کے لیے خوفناک ہوگا۔‘
برطانیہ میں اس طرح بستر پر دفنانے کے صرف 18 کیسز ملے ہیں۔ سونے اور گارنٹ
کراس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ مسیحی تھیں اور ان کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔
ڈاکٹر لیگٹ نے کہا ہے کہ یورپ میں بیڈ پر دفنانے کی تحقیق سے پتا چلتا ہے
کہ ایسا پُرتعیش زندگی گزارنے والی خواتین کے چھوٹے گروہ کے ساتھ ہوتا تھا
جو ساتویں صدی کے تین چوتھائی حصے میں مرکزی یورپ کے پہاڑی حصے سے کیمبرج
تک پھیلا ہوا تھا۔‘
|
|
ممکن ہے کہ نوجوان خاتون کو دلہن بنا کر یا پھر ایلی ایبے کے قریب خانقاہ
میں شمولیت کے لیے لایا گیا ہو۔ ’وہ یورپ بھر میں پھیلے ایلیٹ گروہ میں
شامل تھیں جو ابتدائی طور پر گرجا گھروں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔‘
ڈاکٹر لیگٹ کا کہنا ہے کہ ’وہ تاریخ کو زندہ کرنے کی عمدہ مثال ہیں۔‘
انھیں جس مقام پر دفن کیا گیا تھا، وہاں نوادرات ملے ہیں جن میں ’ٹرمپنگٹن
کراس‘ شامل ہے۔ نمائش میں بستر مرگ کا سجا ہوا ہیڈ بورڈ بھی دکھایا جائے گا۔
اس نمائش کا مقصد کیمبرج شائر میں ہزاروں سالوں سے بسنے والے لوگوں کی
زندگیوں کی ایک جھلک پیش کرنا ہے۔
14 اپریل 2024 تک یونیورسٹی آف کیمبرج کے آثار قدیمہ کے میوزیم میں ’بینیتھ
اوور فیٹ‘ نامی نمائش میں برطانیہ کی قدیم دیہی تہذیب سے جڑے مٹی کے برتن،
ٹیکسٹائل اور دیگر نوادرات بھی دکھائے جائیں گے۔
|
|
|
Partner Content: BBC Urdu |