
Getty Imagesہمارے ارد گرد ایک ’پوشیدہ قاتل‘ موجود ہے۔ اور یہ اتنا عام ہے کہ ہم یہ محسوس ہی نہیں کر پاتے کہ یہ ہماری زندگیوں کو مختصر کرتا چلا جا رہا ہے۔یہ دل کے بیماریوں سمیت ذیابطیس کی وجہ بنتا ہے اور نئی تحقیق کے مطابق دماغی صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔آپ کے خیال میں یہ کون ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہے ’شور‘۔ اور انسانی جسم پر اس کے اثرات سماعت کو نقصان پہنچانے سے کہیں زیادہ ہیں۔یونیورسٹی آف لندن کی پروفیسر شارلیٹ کلارک کے مطابق یہ ’عوامی صحت کا بحران ہے۔‘ لیکن یہ ایک ایسا بحران ہے جس کے بارے میں ہم بات نہیں کرتے۔میں نے اس بات کی تحقیق کی کہ شور کب خطرناک ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے میں نے پروفیسر شارلیٹ سے ملاقات کی۔ پھر ہم نے ایک آلے کی مدد سے یہ دیکھا کہ میرا جسم شور سننے کے بعد کیسے ردعمل دیتا ہے۔ یہ آلہ کسی سمارٹ گھڑی جیسا تھا جس نے میرے دل کی دھڑکن سمیت پسینے کو ناپا۔اس دوران مجھے ڈھاکہ یعنی بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں ٹریفک کا شور بھی سنایا گیا جو کافی تکلیف دہ تھا۔ یاد رہے کہ ڈھاکہ کو دنیا کا سب سے زیادہ شور والا شہر کہا جاتا ہے۔BBCجیسے جیسے یہ شور میرے کانوں میں جاتا رہا، میرے دل کی دھڑکن تیز ہونا شروع ہوئی اور مجھے زیادہ پسینہ آیا۔پروفیسر کلارک کا کہنا ہے کہ ’اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ٹریفک کا بے ہنگم شور دل کی صحت کو متاثر کرتا ہے۔‘لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پروفیسر کلارک کا کہنا ہے کہ ’جسم آوازوں پر ردعمل دیتا ہے۔‘ کوئی بھی آواز دماغ میں ایمگڈلا تک پہنچتی ہے جہاں ایک تجزیہ ہوتا ہے۔ یہ جسم کا وہ حصہ ہے جو خطرات کو بھانپ کر ردعمل کا فیصلہ کرتا ہے جیسا کہ جھاڑیوں میں کسی حیوان کی آواز۔پروفیسر کلارک کہتی ہیں کہ ’ایسے میں دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، اعصابی نظام بھی حرکت میں آتا ہے اور ایسے ہارمون خارج کرتا ہے جنھیں سٹریس ہارمون کہا جاتا ہے۔‘یہ سب کسی ہنگامی صورت حال میں تو ٹھیک ہے لیکن وقت کے ساتھ اس کے نقصانات بھی مرتب ہوتے ہیں۔پروفیسر کلارک کے مطابق ’زیادہ عرصے تک ایسے شور کی وجہ سے جسم ہر وقت ردعمل دیتا ہے جس سے ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر سمیت سٹروک اور ذیابطیس لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘اور یہ سب نیند میں بھی ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نیند کے دوران جسم شور سن نہیں پاتا لیکن ایسا نہیں ہے۔پروفیسر کلارک کا کہنا ہے کہ ’ہمارے کان بند نہیں ہوتے۔ ہم نیند میں بھی سن رہے ہوتے ہیں۔ اور جسم کا ردعمل بھی نیند کے دوران شور کی وجہ سے جاری رہتا ہے۔‘یاد رہے کہ شور وہ غیر ضروری آوازیں ہوتی ہیں جن میں ٹریفک، ٹرینوں اور جہازوں کی آوازیں شامل ہیں لیکن ایسی آوازیں بھی شور کا حصہ ہوتی ہیں جنھیں ہم محظوظ ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔بارسیلونا، سپین، میں میری ملاقات کوکو سے ہوئی جو چوتھی منزل کے فلیٹ میں رہتی ہیں۔ ان کے دروازے پر تازہ لیموں بندھے ہوئے تھے۔ فلیٹ کی بالکونی سے شہر کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے اور یہ واضح تھا کہ کوکو اس شہر سے کیوں محبت کرتی ہیں۔ لیکن وہ اس کی ایک بڑی قیمت بھی ادا کر رہی ہیں اور انھیں اب ایسا لگنے لگا ہے کہ شاید ان کو یہ شہر ہی چھوڑنا پڑے۔کوکو نے مجھے بتایا کہ ’یہاں 24 گھنٹے شور ہوتا ہے۔‘ قریب ہی ایک پارک ہے جہاں سے ’کتوں کے بھوکنے کی آوازیں رات کو دو، تین، چار بجے بھی آتی ہیں۔‘ سامنے موجود حصے میں بچوں کی سالگرہ کی پارٹیوں سے لے کر آتش بازی اور پورا دن جاری رہنے والے موسیقی کے پروگرام ہوتے ہیں۔BBCکوکو دو مرتبہ چھاتی میں درد کی شکایت کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہو چکی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ شور ہی ہےایسے میں وہ اکثر اپنے فون پر گانے اونچی آواز میں لگا لیتی ہیں جس سے کھڑکیاں تک ہلنے لگتی ہیں۔ ان کا گھر کام کے بعد ایک پرسکون پناہ گاہ ہونا چاہیے لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’شور مایوسی لاتا ہے اور مجھے رونا آتا ہے۔‘کوکو دو مرتبہ چھاتی میں درد کی شکایت کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہو چکی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ ’یہ شور ہی ہے‘ جو ان کی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یقینی طور پر میں جسمانی تبدیلی محسوس کرتی ہوں۔‘محقق ڈاکٹر ماریا فوراسٹر کے مطابق بارسیلونا میں ٹریفک کے شور کی وجہ سے ایک سال کے عرصہ میں 300 ہارٹ اٹیک اور 30 اموات ہو چکی ہیں۔ انھوں نے عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شواہد کا جائزہ بھی لیا ہے۔یورپ بھر میں شور کو 12 ہزار اموات سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لاکھوں افراد کی نیند کو بھی متاثر کرتا ہے جس کے انسانی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ڈاکٹر ماریا سے میری ملاقات بارسیلونا کی ایک مصروف شاہراہ پر واقع کیفے میں ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ دل کی صحت کے لیے 53 ڈیسیبل تک کی آواز اہم ہے، ’اس سے زیادہ آواز ہو تو خطرات بڑھ جاتے ہیں۔‘اور یہ ہندسہ دن کے اوقات کے لیے ہے، ’رات میں اس سے بھی کم ہونا چاہیے کیوں کہ نیند کے لیے خاموشی کی ضرروت ہوتی ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’شور کے اثرات اب اس سطح پر ہیں جہاں ماحولیاتی آلودگی کے خطرات ہیں لیکن ان کو سمجھنا مشکل ہے۔‘BBCڈاکٹر ماریا نے بتایا کہ دل کی صحت کے لیے 53 ڈیسیبل تک کی آواز اہم ہے، ’اس سے زیادہ آواز ہو تو خطرات بڑھ جاتے ہیں‘ہم سمجھتے ہیں کہ کیمیائی ذرات جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ شور جیسی چیز ہماری صحت کو کتنا نقصان پہنچاتی ہے۔ایسے میں ٹریفک کا شور ایک ایسی چیز ہے جس کے اثرات سب سے زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ سب کو ہی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بارسیلونا انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ کی ڈاکٹر نیٹلی مجھے اپنے ساتھ شہر کے مرکز لے گئیں۔ ساؤنڈ میٹر نے 80 ڈیسیبل ریکارڈ کیا۔ ہم ایک گلی میں چلے گئے جہاں شور 50 ڈیسیبل پر آ گیا۔ لیکن یہ گلی کچھ مختلف ہے۔ یہ ایک مصروف شاہراہ ہوا کرتی تھی لیکن اب یہاں پیدل چلنے والوں کے لیے مختص راستے سمیت کیفے اور باغیچے ہیں۔واضح رہے کہ کچھ آوازیں انسانی جسم کو پرسکون بھی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر نیٹلی نے کہا کہ ’یہاں بلکل خاموشی نہیں ہے لیکن آواز اور شور کی ایک مختلف شکل ہے۔‘بارسیلونا میں ایسے 500 مقامات بنانے کا منصوبہ تھا لیکن صرف چھ ہی تعمیر ہو سکے۔ ڈاکٹر نیٹلی کے مطابق تحقیق سے ثابت ہوا کہ شہر کا شور پانچ سے دس فیصد تک کم کرنے سے سالانہ 150 اموات روکی جا سکتی ہیں۔شہری آبادیاںشور کے خطرات شہری آبادیوں میں اضافے کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ڈھاکہ، جو دنیا میں تیزی سے بڑھنے والے شہروں میں سے ایک ہے، میں ٹریفک کا مسلسل شور رہتا ہے۔مومن رحمان کو ڈھاکہ میں ’تنہا ہیرو‘ کا خطاب مل چکا ہے کیوں کہ وہ اس مسئلے کے خلاف خاموش احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ہر دن دس منٹ کے لیے وہ کسی مصروف سڑک پر پیلے رنگ کا پلے کارڈ اٹھا کر ہارن بجانے والے ڈرائیور حضرات کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔BBCمومن رحمان کو ڈھاکہ میں ’تنہا ہیرو‘ کا خطاب مل چکا ہےانھوں نے یہ کام اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں صرف ڈھاکہ میں نہیں، پورے ملک سے ہارن کا شور ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘’پرندے، درخت یا دریا تو شور نہیں کرتے، صرف انسان ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔‘ اور یہی سے سیاسی کارروائی کا آغاز بھی ہوتا ہے۔سیدہ رضوانہ بنگلہ دیش حکومت میں ماحولیات کی مشیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی شور کے صحت پر اثرات سے پریشان ہیں۔اب ایک مہم کے تحت ہارن بجانے کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ رضوانہ کا کہنا ہے کہ ’یہ کام ایک یا دو سال میں تو ہونا مشکل ہے لیکن شہر کا شور کم ضرور کیا جا سکتا ہے اور جب لوگوں کو محسوس ہو گا کہ کم شور میں وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں تو ان کی عادتیں تبدیل ہوں گی۔‘BBCمجھے اب اپنی زندگی میں شور سے دور کچھ وقت گزارنے کی اہمیت کا احساس ہو چکا ہےشور کا حل مشکل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے اب اپنی زندگی میں شور سے دور کچھ وقت گزارنے کی اہمیت کا احساس ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش کے ڈاکٹر مسرور عبدالقدیر کہتے ہیں کہ یہ ایک ’خاموش قاتل اور سست رفتار زہر‘ ہے۔بنگلہ دیش سے سلمان سعید کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ