
Getty Imagesمشہور کہانی ہے کہ تیس کی دہائی میں جب اردو کے مشہور شاعر جوش ملیح آبادی مالی بحران سے پریشان ہو گئے تو وہ مشہور وکیل تیج بہادر سپرو کا خط لے کر پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ کے وزیر خارجہ کے ایم پانیکر کے پاس پہنچے۔پانیکر کو لکھے خط میں تیج بہادر سپرو نے کہا تھا کہ وہ مہاراجہ سے جوش ملیح آبادی کے لیے باقاعدہ پینشن طے کرنے کو کہیں۔پانیکر جوش کو مہاراجہ کے پاس لے گئے اور سفارش کی کہ ان کے لیے 75 روپے ماہانہ پینشن مقرر کی جائے۔پانیکر اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’مہاراجہ میری طرف متوجہ ہوئے اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تم ایک جنوبی ہندوستان کے رہنے والے ہو، اس لیے تم اس شاعر کی عظمت کو نہیں سمجھ پاؤ گے۔ جب ہم سب بھول جائیں گے، لوگ انھیں کالیداس کی طرح یاد کریں گے۔ اتنے بڑے آدمی کے لیے اتنی چھوٹی پینشن میری حیثیت کے مطابق نہیں، اس لیے میں نے جوش کو تاحیات 250 روپے پینشن دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘اگر پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ صرف ایک سخی بادشاہ ہوتے جو شاہانہ خرچ کرتے تو سوانح نگاروں کو ان میں اتنی دلچسپی نہ ہوتی۔ان کے سوانح نگار نٹور سنگھ اپنی کتاب ’دی میگنیفیسنٹ مہاراجہ، دی لائف اینڈ ٹائمز آف مہاراجہ بھوپندر سنگھ آف پٹیالہ‘ میں لکھتے ہیں کہ 'مہاراجہ کی دلکشی ان کی ہمہ جہتی شخصیت میں تھی۔ وہ ایک مہاراجہ، ایک محبِ وطن، ایک انسان دوست، ایک کھلاڑی، ایک سپاہی، موسیقی کے دلدادہ، ایک سخت گیر والد، کرکٹ کے کھیل کو پسند کرنے والے ہوشیار سیاستدان تھے۔'مہاراجہ بھوپندر سنگھ 12 اکتوبر 1891 کو پیدا ہوئے۔ بچپن میں انھیں پیار سے 'ٹکا صاحب' کہا جاتا تھا۔ وہ صرف نو سال کے تھے جب ان کے والد راجندر سنگھ کی وفات ہوئی۔اس سے پہلے ان کی والدہ جسمیت کور کی بھی وفات ہو چکی تھی۔ صرف 10 سال کی عمر میں ان کے حصے میں پٹیالہ کی تخت نشینی آئی۔ملکۂ وکٹوریہ کی موت کی وجہ سے ان کی تاج پوشی کی تقریب تقریباً ایک سال کے لیے ملتوی کر دی گئی۔بھوپندر سنگھ کے بالغ ہونے تک پٹیالہ کا انتظام وزرا کی ایک کونسل کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔ سنہ 1903 میں برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ پنجم کا شاہی دربار دہلی میں منعقد ہوا۔اس وقت بھوپندر سنگھ کی عمر 12 سال تھی۔ وہ اس تقریب میں شرکت کے لیے اپنے چچا کے ساتھ ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے دہلی پہنچے، جہاں انھوں نے ایک تقریر کی۔سنہ 1904 میں انھیں ایچیسن کالج لاہور میں تعلیم کے لیے بھیج دیا گیا۔ معاونین پر مشتمل ٹیم ان کی دیکھ بھال کے لیے لاہور گئی، حتیٰ کہ ان کے جوتے کے تسمے بھی ان کے نوکر باندھا کرتے تھے۔مکمل بالغ ہونے کے بعد انھیں اختیارات سونپ دیے گئے۔ ان کی تاجپوشی میں وائسرائے لارڈ منٹو نے شرکت کی۔اس دوران انھوں نے پرتعیش زندگی گزاری اور اپنا سارا وقت پولو، ٹینس اور کرکٹ کھیل کر گزارا۔انھوں نے پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ میجر ولی کے ساتھ مل کر انھوں نے فوجیوں کو بھرتی کرنے کی مہم شروع کی اور ایک دن میں 521 افراد کو فوج میں بھرتی کروایا۔ڈاکٹر دلجیت سنگھ اور گرپریت سنگھ ہریکا سوانح عمری ’مہاراجہ بھوپندر سنگھ، پٹیالہ ریاست کے عظیم حکمران' میں لکھتے ہیں کہ ’مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے جنگ کے لیے برطانوی حکومت کو 1.5 کروڑ روپے دیے، جو کہ اس زمانے میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔‘اس کے علاوہ ریاست پٹیالہ نے جنگ کے دوران 60 لاکھ روپے الگ سے خرچ کیے تھے۔ 8ویں پٹیالہ اونٹ کور کے لیے دو اونٹ اس کے علاوہ انھوں نے 247 خچر، 405 گھوڑے، 13 موٹر کاریں بھی برطانوی فوج کو دیں۔انھوں نے شملہ ہل سٹیشن میں اپنی رہائش گاہوں 'راک ووڈ' اور 'اوکوور' کو ہسپتالوں میں تبدیل کر دیا تھا۔Getty Imagesہٹلر اور مسولینی سے ملاقاتبھوپندر سنگھ ایک طویل قامت اور طاقتور شخص تھے۔ ان کی ہمدردیاں جدوجہد آزادی کے دوران انگریزوں کے ساتھ تھیں، لیکن پنجابی، خاص طور پر سکھ کسی دوسرے بااثر رہنما کی عدم موجودگی میں انھیں اپنا نمائندہ سمجھتے تھے۔انھیں اپنے انداز اور فیشن پر فخر تھا، خاص طور پر اس شاہی انداز پر جس سے وہ اپنی پگڑی باندھتے تھے۔ وہ پنجابی زبان کے بہت بڑے حامی تھے اور انھوں نے اسے درباری زبان بنانے کی پوری کوشش کی۔پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور مہاراجہ بھوپندر سنگھ کے پوتے امریندر سنگھ کے سوانح نگار خشونت سنگھ اپنی کتاب 'کیپٹن امریندر سنگھ دی پیپلز مہاراجہ' میں لکھتے ہیں کہ ’بھوپندر سنگھ پنجابی زبان کے اتنے بڑے فین تھے کہ ان کے مشورے پر ریمنگٹن ٹائپ رائٹر کمپنی نے ایک گرومکھی ٹائپ رائٹر بنایا، جس کا نام بھوپندر سنگھ تھا۔'وہ ہندوستان کے پہلے شخص تھے جن کے پاس اپنا ہوائی جہاز تھا، جو وہ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں برطانیہ سے لائے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے پٹیالہ میں ایک رن وے بھی بنایا تھا۔اپنی زندگی کے دوران انھیں دنیا کے دو بڑے آمروں بینیٹو مسولینی اور ہٹلر سے ملنے کا موقع ملا۔ہٹلر نے انھیں جرمنی میں بنی ایک درجن لگنوز پستول اور ایک سفید مے بیک کار تحفے میں دی۔Getty Imagesدنیا کی نایاب چیزیں جمع کرنے کا شوق ہےبھوپندر سنگھ جب بھی لندن گئے، ان کے دورے کو برطانوی پریس میں وسیع کوریج ملی۔ ڈیلی میل نے اپنے 3 اگست 1925 کے شمارے میں لکھا کہ 'مہاراجہ دنیا کے سب سے اونچے کرکٹ گراؤنڈ کے مالک ہیں۔ وہ چاندی کے باتھ ٹب میں نہاتے ہیں اور ان کا ہوٹل انھیں روزانہ 3000 گلاب بھیجتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ 200 سوٹ کیس لے کر آئے ہیں۔'ہندوستان کے 560 حکمرانوں میں سے صرف 108 حکمران توپوں کی سلامی لینے کے حقدار تھے۔ حیدرآباد، بڑودہ، کشمیر، میسور اور گوالیار کے بادشاہوں کو 21 توپوں کی سلامی ملتی تھی۔ بھوپندر سنگھ جہاں بھی گئے، انھیں 17 توپوں کی سلامی دی گئی۔بھوپندر سنگھ کو کتابیں، کاریں، قالین، کپڑے، کتے، زیورات، مخطوطات، تمغے، پینٹنگز، گھڑیاں اور پرانی شرابیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ ان کے زیورات کارٹیئر سے بنوائے گئے تھے اور اس کی گھڑیاں رولیکس کمپنی سے خصوصی آرڈر پر بنوائی گئی تھیں۔ اس کے سوٹ 'سیویل رو' سے سلائے گئے تھے اور جوتے 'لابز' سے خریدے گئے تھے۔جان لارڈ اپنی کتاب 'مہاراجاز' میں لکھتے ہیں کہ 'ان کے پاس کل 27 رولز رائس کاریں تھیں، جن کی دیکھ بھال کمپنی کی طرف سے بھیجے گئے ایک انگریز نے کی تھی۔'Getty Imagesپٹیالہ پیگ کا آغاز ہوامہاراجہ بھوپندر سنگھ کی سخاوت کے قصے ہر جگہ مشہور تھے۔ انھوں نے غریبوں کے لیے کام کرنے والی یونیورسٹیوں اور تنظیموں کو دل کھول کر چندہ دیا۔دیوان جرمانی داس، جو مہاراجہ کے وزیر تھے اپنی کتاب 'مہاراجہ' میں لکھتے ہیں کہ 'مدن موہن مالویہ جیسے بڑے لیڈر جب مہاراجہ سے بنارس یونیورسٹی کے لیے رقم کی درخواست کرتے تھے، تو وہ 50 ہزار روپے کا چیک لے کر جاتے تھے۔'مہاراجہ کے مقام پر پینے اور کھانے کا ایک طے شدہ پروٹوکول تھا۔ پٹیالہ پیگ کی اصطلاح بھی اسی جگہ سے ہی شروع ہوا۔نٹور سنگھ لکھتے ہیں کہ 'اس کا مطلب تھا کہ پانی یا کوئی مشروب ڈالے بغیر ایک گلاس میں چار انچ وہسکی پینا۔ مہاراجہ کو وہسکی سے زیادہ شراب پسند تھی۔ انھیں ہر قسم کی شراب کا علم تھا۔ ان کی شراب کا مجموعہ شاید ہندوستان میں سب سے بہتر تھا۔'سونے اور جواہرات کی پلیٹ میں کھانابھوپندر سنگھ کے محل میں 11 کچن تھے، جن میں روزانہ کئی سو لوگوں کے لیے کھانا پکایا جاتا تھا۔دیوان جرمانی داس لکھتے ہیں کہ 'رانیوں کو سونے کی تھالیوں اور پیالوں میں کھانا پیش کیا جاتا، ان کو پیش کیے جانے والے پکوانوں کی کل تعداد 100 تھی۔ رانیوں کو چاندی کی تھالیوں میں کھانا کھلایا گیا، انھیں 50 قسم کے کھانے پیش کیے گئے، دیگر خواتین کو پیتل کی پلیٹوں میں کھانا پیش کیا گیا۔ مہاراجہ کے پکوانوں کی تعداد اس سے زیادہ نہیں تھی۔ اسے پیش کیے گئے پکوانوں کی تعداد 150 سے کم نہیں تھی۔‘خاص مواقعوں پر جیسے مہاراجہ، مہارانیوں اور شہزادوں کی سالگرہ، ضیافتوں کا اہتمام کیا جاتا تھا، جس میں 300 لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔اس ضیافت میں اطالوی، ہندوستانی اور انگریز ویٹروں نے کھانا پیش کیا جاتا۔ کھانے اور شراب کا معیار سب سے اوپر ہوتا۔ ضیافت کے بعد ایک میوزیکل پروگرام ہوتا، جہاں ہندوستان کے مختلف حصوں سے بلائے گئے رقاص مہاراجہ کو محظوظ کرتے۔ اس قسم کی پارٹی عموماً صبح ختم ہوتی تھی۔کرکٹ کا جنونمہاراجہ بھوپندر سنگھ کرکٹ کو جنون کی حد تک پسند کرتے تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخر میں عظیم کرکٹر رنجی مہاراج کے والد مہاراجہ راجندر سنگھ کے اے ڈی سی ہوا کرتے تھے۔ سنہ 1898 میں جب وہ پٹیالہ آئے، تب تک وہ ایک کرکٹر کے طور پر مشہور ہو چکے تھے، لیکن نواں نگر کے بادشاہ کے طور پر ان کی پہچان ختم ہو چکی تھی۔وہ سب سے پہلے جودھ پور کے مہاراجہ سر پرتاپ سنگھ کے پاس گئے۔ اس نے اسے خط لکھا اور پٹیالہ کے مہاراجہ کو بھیج دیا۔ 1911 میں، 20 سال کی عمر میں، بھوپندر سنگھ نے انگلینڈ جانے والی پہلی کرکٹ ٹیم کی قیادت کی۔نٹور سنگھ لکھتے ہیں کہ 'پٹیالہ میں کرکٹ میں بھی پروٹوکول کی پیروی کی جاتی تھی۔ ایک بار اس وقت کے تیز ترین گیند باز محمد نثار بغیر پگڑی کے موتی باغ محل پہنچے۔ وہ سکھ نہیں تھے، نہ ہی وہ پٹیالہ کے رہنے والے تھے، بلکہ وہ مہاراجہ کی ٹیم کے رکن تھے۔ جیسے ہی بھوپندر سنگھ نے انھیں دیکھا، وہ فوراً دو انچ پیچھے ہٹ گئے۔'رنجیت سنگھ کی سلطنت کیسے اندرونی سازشوں کے باعث انگریزوں کے ہاتھ چلی گئی؟سیتا دیوی کا مہاراجہ بڑودہ سے شادی کے لیے قبول اسلام اور شاہی خزانے سے بھرے طیارے میں یورپ کا سفرکیا گھوڑے، ہاتھی، دولت اور سیکس سکینڈلز ہندوستانی مہاراجوں کی واحد پہچان تھی؟رنجیت سنگھ کی زندگی میں آنے والی اہم خواتین'رانجی ٹرافی' کا نام بھوپندر سنگھ نے دیا تھاایک بار وہ لالہ امرناتھ سے ناراض ہو گئے۔ اس نے نثار سے کہا کہ اگر وہ اپنے باؤنسر سے لالہ کے سر پر مار سکتا ہے تو اسے بڑا انعام ملے گا۔لالہ کے بیٹے راجندر امرناتھ اپنی سوانح عمری 'لالا امرناتھ لائف اینڈ ٹائمز' میں لکھتے ہیں کہ 'جب نثار نے پورے اوور تک امرناتھ پر باؤنسر پھینکے تو امرناتھ نثار کے پاس گئے اور کہا کہ 'کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ گیند کو کیوں اچھال رہے ہو؟' نثار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا 'امر، مہاراجہ پٹیالہ نے کہا ہے کہ میں تمھیں جتنی بار ماروں گا، اتنے سو روپے ملیں گے۔'امرناتھ کا جواب تھا کہ تمھاری گیند لگنے کے بعد کون بچ پائے گا؟مہاراجہ لالہ امرناتھ کو ہمیشہ 'چھوکرا' کہتے تھے۔ ایک بار انھوں نے امرناتھ سے کہا کہ 'لڑکے، تمھیں ہر رن کے بدلے میں میں سونے کا سکہ دوں گا'۔ امرناتھ نے سنچری بنائی اور پھر انھیں انعام بھی دیا گیا۔راجندر امرناتھ لکھتے ہیں کہ 'جب 1932 میں قومی کرکٹ ٹورنامنٹ کو نام دینے کی بات آئی تو کچھ لوگ اسے ویلنگٹن ٹرافی کا نام دینا چاہتے تھے۔ بھوپندر سنگھ نے سب سے پہلے ٹرافی کا نام رنجی کے نام پر رکھنے کا مشورہ دیا۔ یہی نہیں، اس ٹرافی کو بنانے کے لیے انھوں نے بڑی رقم بھی عطیہ کی تھی۔ ان کی کوششوں سے ہی بمبئی کا مشہور بریبورن سٹیڈیم بنایا گیا تھا۔'گاما پہلوان کا اعزازمہاراجہ بھوپندر سنگھ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ مہاراجہ نے مشہور پہلوان گاما کو سرپرستی دی۔ گاما نے 1910 میں جان بل ورلڈ چیمپیئن شپ جیتی۔باربرا ریمساک اپنی کتاب 'دی نیو کیمبرج ہسٹری آف انڈیا، دی انڈین پرنسز اینڈ دیر سٹیٹس' میں لکھتی ہیں کہ '1928 میں پٹیالہ میں گاما پہلوان کا ایک میچ منعقد کیا گیا، جسے 40 ہزار تماشائیوں نے دیکھا، اس میچ میں گاما نے پولش پہلوان اسٹینسلاؤس زیبسزکو کو شکست دی، جیسے ہی گاما نے مہاراج سنگھ کو شکست دے دی، اور گاما نے اپنے اعزاز کو چھین لیا۔ اسے ولی عہد کے ہاتھی پر بٹھا کر ایک گاؤں تحفے میں دیا گیا اور اس کے لیے وظیفہ مقرر کیا گیا۔'ان کی موت کے بعد پٹیالہ میں واقع ان کے محل موتی باغ پیلس کو اب نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسپورٹس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔بینائی سے محرومیجب بھوپندر سنگھ اپنے ساتویں غیر ملکی دورے سے واپس آئے تو ان کی صحت بری طرح بگڑ چکی تھی۔بیرون ملک رہتے ہوئے انھیں تین مرتبہ دل کے دورے پڑے۔ اپنے آخری ایام میں وہ اپنی بینائی کھو چکے تھے۔دیوان جرمانی داس لکھتے ہیں کہ 'مہاراجہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گھر کی خواتین کو ان کے نابینا ہونے کا علم ہو۔ ان کے قریبی معاون مہر سنگھ آخر تک ان کی داڑھی اور پگڑی بناتے رہے۔ وہ پہلے کی طرح آئینے کے سامنے بیٹھے رہتے تاکہ ان کے گھر کی خواتین اور دیگر افراد یہ سمجھیں کہ وہ اندھے نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے نوکر بھی ان کی آنکھوں کے سامنے کوہل لگاتے رہے۔وہ آخر تک سفید ریشمی شیروانی پہنتے رہے۔ صرف ان کے ڈاکٹروں، ان کے وزیر اعظم اور ان کے کچھ خاص خادموں کو معلوم تھا کہ مہاراجہ اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ان کا علاج کرنے کے لیے پیرس سے فرانسیسی ڈاکٹروں کو بلایا گیا۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں انجیکشن لگایا گیا جس سے ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔کے ایم پانیکر لکھتے ہیں کہ 'بستر مرگ پر بھی ان کی طاقت اور توانائی قابل دید تھی۔ اپنی موت کے دن بھی انھوں نے دس انڈوں کا آملیٹ کھایا تھا۔ جب میں ان کی موت سے تین دن پہلے ان سے ملنے گیا تو ان کو ان کی بیویوں نے گھیر لیا تھا۔ اس حالت میں بھی وہ شاہی لباس پہنے ہوئے تھے، ان کے گلے میں موتیوں کا ہار اور ان کے گلے میں بان کی پٹی تھی۔'انھیں دیکھنے والوں میں مہاتما گاندھی کے ڈاکٹر بی سی رائے بھی شامل تھے جو 1947 کے بعد مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔تئیس مارچ 1938 کو دوپہر 12 بجے مہاراجہ بھوپندر سنگھ کومے میں چلے گئے۔ آٹھ گھنٹے اسی حالت میں رہے اور پھر اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔اس وقت ان کی عمر صرف 47 سال تھی۔ ان کی لاش کو گن کیریج پر رکھ کر آخری رسومات کے لیے لے جایا گیا۔ تقریباً 10 لاکھ لوگ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے۔کیا گھوڑے، ہاتھی، دولت اور سیکس سکینڈلز ہندوستانی مہاراجوں کی واحد پہچان تھی؟دنیا کے سب سے مشہور ہیرے کی کہانی جس میں بدشگونی بھی شامل ہےسیتا دیوی کا مہاراجہ بڑودہ سے شادی کے لیے قبول اسلام اور شاہی خزانے سے بھرے طیارے میں یورپ کا سفرآخری سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ ملکہ وکٹوریا کے گہرے دوست کیسے بنے؟وہ مسلمان لڑکی جس کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کوڑے کھانے پڑےرنجیت سنگھ کی سلطنت کیسے اندرونی سازشوں کے باعث انگریزوں کے ہاتھ چلی گئی؟