
Getty Imagesپاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ کے علاقے بابزئی کے پہاڑوں میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے ایک مبینہ ڈرون حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کا معاملہ اب بھی زیر بحث ہے۔وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ مردان کے علاقے کاٹلنگ میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں ’ان ہی افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جو شدت پسند تھے۔‘یاد رہے کہ جمعے کی رات کو مردان کے علاقے کاٹلنگ میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی ہوئی جس میں عام شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ مقامی افراد کا دعوی ہے کہ یہ کارروائی ڈرون کی مدد سے کی گئی تاہم اب تک پاکستان فوج کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت نے کہا ہے کہ ’کاٹلنگ میں عسکریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران عام شہریوں کی اموات پر تمام پہلوؤں سے انکوائری کی جائے گی جس کے بعد صوبائی حکومت موقف دے گی۔‘تاہم پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا کا کہنا تھا کہ مردان کے علاقے کاٹلنگ میں کارروائی سے متعلق ’زیادہ تفصیلات میرےعلم میں نہیں۔‘انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کی بریفنگ میں پاکستان کے آرمی چیف نے بات کرتے ہوئے وضاحت سے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ملک میں عسکریت پسندوں اور شدت پسندوں کی کمین گاہوں کوختم کریں گے۔رانا ثنا کا کہنا تھا کہ مردان کے علاقے کاٹلنگ میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہوا ہے، ’وہاں پر شدت پسند تھے، مثبت اور قابل اعتماد اطلاعات کی بنیاد پر کارروائی کی گئی اور جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان ہی لوگوں کی ہوئی ہے جو شدت پسند تھے، اگر شدت پسند اپنے بیوی بچوں کو ساتھ رکھیں اور عسکریت پسند کارروائیوں کی تیاری کریں تو ان پر حملہ تو کیا جائے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جو عسکریت پسندوں کی بالواسطہ حمایت ہو، کسی بھی شدت پسند تک پہنچنے کے لیے کسی نکتہ نظر کی کوئی اہمیت نہیں، نہ اس کی پروا کرنی چاہیے۔‘صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے اس کارروائی میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’اس علاقے میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر ایک انسداد دہشت گردی کارروائی کی گئی اور بعدازاں موصول معلومات کے مطابق کارروائی کے مقام کے اطراف میں بعض غیر مسلح خواتین اور بچے موجود تھے جن کی ہلاکت کا افسوس ہے۔‘بیرسٹر سیف کی جانب سے جاری بیان میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد اور ان کی شناخت نہیں بتائی گئیاور نہ ہی پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کی جانب سے اس متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری کیا گیا۔تاہم بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو ٹائپ ڈی ہسپتال کاٹلنگ کے میڈیکل سپرانٹینڈنٹ لقمان نے بتایا تھا کہ ’لاشوں میں دو خواتین اور ایک نو عمر لڑکے سمیت سات مرد شامل ہیں جنھیں بظاہر بلاسٹ برن انجریز آئی تھی اور ان کے جسم جھلسے ہوئے تھے۔‘بعدازاں سنیچر کو مقامی افراد نے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں سوات ایکسپریس ہائی وے پر رکھ کر احتجاج کیا تھا جس کے بعد مقامی عمائدین حکام نے مذاکرات کیے مقامی افراد کے مطابق حکام کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج، ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو شہدا پیکج دینے اور آئندہ اس قسم کی کارروائیاں نہ کرنے کے مطالبات تسلیم کرنے پر یہ احتجاج ختم کیا تھا۔ادھر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی اس متعلق جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ کاٹلنگ میں عسکریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران عام شہریوں کی اموات پر تمام پہلوؤں سے انکوائری کی جائے گی۔ان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’کاٹلنگ میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کا واقعہ قابل مذمت ہے۔ تاہم مکمل انکوائری رپورٹ آنے پر ہی صوبائی حکومت اپنا موقف دے گی۔‘جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سلمان اکرم راجا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ’کاٹلنگ مردان کے سانحے پر پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی، کور و پولیٹیکل کمیٹی غمزدہ اور یک زبان ہیں۔ بے گناہ بچوں، عورتوں اور مردوں کی موت کی جواب طلبی ہو گی۔ یہ کہنا کہ یہ اموات جنگ کی دھند میں ہو گئیں قابل قبول جواز نہیں۔ عمران خان صاحب نے ہمیشہ ایسے اندھے حملوں کی مذمت کی ہے۔‘آئیڈیاز 2024: پاکستان کے شہپر تھری اور کاما کازی ڈرونز کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟فوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیںانڈیا کو ملنے والے میزائل بردار امریکی ’پریڈیٹر ڈرون‘ کی کیا خصوصیات ہیں؟اس کارروائی میں ڈرون کے استعمال پر باضابطہ سرکاری موقف نہیں تاہم اس کے باوجود یہ بات بھی موضوع بحث ہے کہ پاکستان کے پاس کون سے ڈرورنز ہیں اور ان کی کیا خصوصیات یا صلاحتیں ہیں۔بی بی سی کی ایک حالیہ تحریر میں چند افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی تھی کہ شدت پسندوں کے خلاف ’پاکستان اب روایتی فضائی حملوں کے بجائے زیادہ سمارٹ طریقے سے اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ڈرون کی مدد سے کارروائیاں زیادہ موثر اور کم نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں، کیونکہ یہ خاص اہداف پر فوکس کرتے ہیں اور غیر متعلقہ نقصان نہیں ہوتا۔‘ایسی ہی ایک کارروائی کی ویڈیو، جو سوشل میڈیا کی مدد سے منظر عام پر آئی، میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے شمالی وزیرستان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شدت پسندوں کے مبینہ ٹھکانے پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا۔یہ حملہ اس قدر مہارت کے ساتھ کیا گیا کہ کمرے کی چھت پر راکٹ کے داغنے کا نشان بھی موجود تھا اور حملے میں اس کمپاؤنڈ کے باقی کسی حصے کو نقصان نہیں پہنچا۔اسی طرح ایک اور ویڈیو جو ڈرون کیمرے کے ذریعے بنائی گئی، میں چند مبینہ شدت پسندوں کو ایک پگڈنڈی پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو اس قدر واضح ہے کہ ان کے چہرے بھی شناخت کیے جا سکتے ہیں۔ پھر انھیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور ڈرون ہی کے ذریعے میزائل فائر کیے جاتے ہیں۔بعدازاں فوج کے میڈیا ونگ سے مبینہ طور پر منسلک ایکس اکاونٹ نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ اس حملے میں یہ چاروں افراد ہلاک ہوئے۔BBCپاکستان کی ڈرون صلاحیتپاکستان کی تینوں مسلح افواج اس وقت مختلف اقسام کے ڈرونز استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں خاص طور پر ایسے چھوٹے ڈرونز ہیں جو پاکستان میں ہی اپنے وسائل سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ان کی دوسری قسم جدید اور بڑے ڈرونز کی ہے جو ترکی اور چین سمیت چند دیگر ممالک سے خریدے جا رہے ہیں۔ انھیں میڈیم ایلٹیٹیوڈ لانگ اینڈیورنس (میل) ڈرونز کہا جاتا ہے۔یہ ڈرونز طویل دورانیے تک فضا میں پرواز کر سکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ایمیونیشن یا گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس وقت پاکستان آرمی کئی مقاصد کے لیے کاونٹر ٹیررازم آپریشنز میں مختلف قسم کے ڈرونز کو استعمال کر رہی ہے:نگرانی اور جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز شدت پسندوں کے ٹھکانوں اور نقل و حرکت کی نگرانی کرتے ہیں اور معلومات فراہم کرتے ہیں۔الیکٹرانک وارفیئر سے منسلک ڈرونز شدت پسندوں کے مواصلاتی نیٹ ورکس کا سراغ لگانے، بلاک کرنے، اور نگرانی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہونے والے یہ ڈرونز انتہائی مہارت سے کسی مخصوص ہدف کو ایسے نشانہ بناتے ہیں کہ مطلوبہ ہدف کے علاوہ نقصان انتہائی کم ہو۔ یہ لڑاکا طیاروں اور جنگی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کی جانے والی فضائی کارروائی کے مقابلے میں انتہائی موثر ہیں، خاص طور پر ایسی صورت میں جب نشانہ کوئی ایک عمارت، حتی کہ محض ایک کمرہ ہی کیوں نہ ہو۔اس کے علاوہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ڈرون طیاروں کو ایک فلائیٹ پیکج یعنی مکمل جنگی حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے ’ایئربورن ارلی وارننگ سسٹم‘ کہا جاتا ہے جو کہ فضا میں ایک مکمل فارمیشن ہوتی ہے۔ اس میں کچھ ڈرونز ٹارگٹ کا سراغ لگاتے ہیں، ڈیٹا کو لنک کے ذریعے جنگی جہاز اور کمانڈ سینٹرز تک پہنچایا جاتا ہے جو ٹارگٹ کو لاک کرتے ہیں اور اسی طیارے یا کسی اور طیارے یا ڈرون کو اٹیک کی کمانڈ دی جاتی ہے۔عسکری ذرائع کے مطابق پاکستان کے پاس انسداد دہشت گردی کی جنگ میں یہ تمام ڈرونز نہ صرف موجود ہیں بلکہ استعمال بھی ہو رہے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس 300 کے قریب ڈرون طیارے موجود ہے جس میں ملک میں بنائے گئے اور دیگر ممالک سے خریدے گئے ڈرونز شامل ہیں۔دفاعی امور کے تجزیہ کار راہل بیدی نے گذشتہ برس بی بی سی کے دہلی سے نامہ نگار شکیل اختر سے بات کرتے ہوئے پاکستان کی ڈرون صلاحتیوں کے متعلق بتایا کہ پاکستان ترکی اور چین سے ڈرونز درآمد کرتا ہے جبکہ اس نے جرمنی اور اٹلی سے بھی ڈرون خریدے ہیں۔BBCشہپر ٹو اور شہپر تھری ڈرونپاکستان نے براق اور شہپر جیسے بعض ڈرونز خود بھی بنائے ہیں۔سنہ 2022 میں گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفینس سلوشنز (جی آئی ڈی ایس) نے ’شہپر ٹو‘ ڈرون متعارف کروایا تھا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ایک ہزار کلومیٹر تک پرواز کر کے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہدف کو لیزر بیم سے لاک کر کے اس کو میزائل کی مدد سے تباہ کر سکتا ہے۔پاکستان نے گذشتہ برس آئیڈیاز 2024 میں مزید خوبیوں اور خصوصیات کا حامل 'شہپر تھری' ڈرون پیش کیا تھا۔جی آئی ڈی ایس کے چیف ایگزیکٹو اسد کمالنے اس بارے میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا ’شہپر تھری گیم چینجنگ پیشرفت ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’شہپر ٹو اسلحے کے ساتھ بارہ سے 13 گھنٹے اور بغیر اسلحے کے 20 گھنٹے تک پرواز کرتا ہے لیکن شہپر تھری 35 ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز بھر سکتا ہے اور 30 گھنٹے فضا میں رہ سکتا ہے۔‘اسد کمال کے مطابق ’یہ بڑا جہاز ہے جو مختلف نوعیت کے آٹھ ہتھیار لے کر جا سکتا ہے جبکہ شہپر ٹو صرف چار ہتھیار لے کر جا سکتا تھا۔‘ریڈیو پاکستان کے مطابق اس ڈرون میں گولیوں، بموں اور میزائلوں سمیت جدید اسلحہ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔جی آئی ڈی ایس کے چیف ایگزیکٹو اسد کمالکے مطابق ’شہپر تھری‘ تمام موسموں میں کارگر ہے اور اس میں موجود کیمرہ دن اور رات کے اوقات میں دیکھ سکتا ہے۔’اس میں ایک یہ فیچر بھی ہے کہ جو بھی چیز گرمی پیدا کرتی ہے جیسے انسان، جانور یا گاڑیاں تو یہ ڈرون ان کا باآسانی سراغ لگا لیتا ہے۔‘ان کے مطابق اس میں ہدف کو نشانہ بنانے کا موثر نظام موجود ہے جس کے تحت یہ پہلے ہدف پر لیزر مارتا اور اس کو لاک کر لیتا ہے اور جب یہ میزائل فائر کرتا ہے تو میزائل لیزر کو فالو کرتے ہوئے بڑی مہارت سے اس چیز کو تباہ کر دیتا ہے۔اسد کمال نے کہا کہ ’شہپر تھری‘ خود کار نظام کے تحت کسی خطرے کی صورت میں اپنے سٹیشن پر واپس بھی آ سکتا ہے جبکہ اس کی رینج 2500 کلومیٹر ہے۔ان کے مطابق ’آپ اس کو خود کنٹرول کر سکتے ہیں، یہ لائیو فیڈ دے رہا ہوتا ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بالکل خاموشی سے دشمن کی ایئر سپیس میں کام کرے تو آپ اس میں وے پوائنٹ فیڈ کر دیتے ہیں تو پھر خود مختار طریقے سے فالو اور سرویلنس کرتا اور اس کو ایچ ڈی میں ریکارڈ کرتا ہے۔‘اس کے علاوہ پاکستان کے پاس ترک ساختہ جدید ’بیراکتر‘ ڈرونز ٹی بی ٹو اور ایکنجی ہیں جبکہ اس نے چین سے ’وینگ لونگ ٹو‘ اور ’سی ایچ 4‘ جیسے ڈرون بھی حاصل کیے ہیں۔پاکستان آرڈیننس فیکٹری کی جانب سے پہلے ’ابابیل‘ کے نام سے سرویلنس ڈرونز بنائے گئے تھے جنھیں جنگی مقاصد کے لیے مسلح کیا گیا تھا۔BBCہائبرڈ کاپٹر ڈرونآئیڈیاز 2024نمائش میں ہائبرڈ ہیگزا کاپٹر ڈرون بھی پیش کیا گیا جس کا 180 ایکس زوم کیمرہ اور فلائٹ ٹائم پانچ گھنٹے ہے۔کاپٹر ڈرون ہیلی کاپٹر کی طرح فضا میں اڑان بھرتا ہے اور اسے رن وے کی ضرورت نہیں ہوتی۔پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے اسلحہ ڈیزائنر محمد سلمان علی خان کے مطابق ان کی کمپنی تین قسم کے ڈرون پر کام کر رہی ہے جس میں سب سے پہلے سرویلنس ڈرون، پھر حملہ آور ڈرون اور تیسرا کمیا کازی ڈرون شامل ہیں۔’سرویلنس ڈرون میں عام طور پر بیٹری استعمال کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی پرواز تیس سے پینتیس منٹ ہوتی ہے لیکن کاپٹر ڈرون کی پرواز کا دورانیہ چار سے پانچ گھنٹے تک بڑھ گیا۔‘پاکستان کے کاپٹر ڈرون میں تھرمل امیج کیمرہ بھی ہے جو دشمن کے جسم کے درحہ حرارت کا پتہ لگا کر اس کی نشاندہی کرتا ہے۔پاکستان کا کمیاکازی ڈرونکمیاکازی ڈرونز کو ’خودکش ڈرونز‘ بھی کہا جاتا ہے جن کو فرنٹ لائن کے پیچھے کئی میل تک اڑایا جا سکتا ہے۔ کسی ہدف کو تلاش اور شناخت کرنے اور اس کو نشانہ بنانے سے پہلے یہ ڈرون فضائی حدود میں انتظار کرتے ہیں۔گذشتہ برس آئیڈیاز 2024 نمائش کے دوران پیش کیے جانے والے پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے تیار کردہ کمیا کازی ڈرونز ہدف سے ٹکرا کر نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ایک سے ڈیڑھ فٹ کے اس ڈرون میں چھوٹے راکٹ بھی لگائے جا سکتے ہیں۔'پاکستان کی مختلف اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے ان چھوٹے کمیاکازی ڈرونز میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ جہاں جیمرز لگے ہوتے ہیں وہاں یہ فائبر آپٹکس کے ذریعے کام کرتے ہیں اور اپنا ہدف حاصل کرتے ہیں۔اس ڈرون کی رینج تین کلومیٹر اور اونچائی 100 میٹر تک ہے۔ اس کے آگے کیمرہ بھی نصب ہے جس سے لائیو فیڈ موصول ہوتی رہتی اور اس کو ٹارگٹ کے مطابق کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔آئیڈیاز 2024 میں ووٹ ٹیک ایئرو سپیس نامی پاکستانی کمپنی کی جانب سے ’ٹینک بسٹر‘ کے نام سے ایک کمیا کازی ڈرون بھی متعارف کروایا جو دو کلو گرام اسلحہ لے کر 1500 میٹر تک پرواز بھر سکتا ہے اور اس کی رینج 20 کلومیٹر تک ہے۔اس کے علاوہ آئیڈیاز 2024 میں نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن نے کاؤنٹر آئی ای ڈی ڈرون بھی متعارف کروایا، جو بم یا بارودی سرنگ کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ ڈرون 25 میٹر کے فاصلے سے آئی ڈی کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔این آر ٹی سی نے حملہ آور رائفل بردار ڈرون بھی اس نمائش میں متعارف کروایا، جس میں دو مارٹر رکھنے کی صلاحیت ہے۔ اس میں مصنوعی ذہانت کا فیچر بھی موجود ہے، جس کے ذریعے ہدف کا پیچھا کر کے اس کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔یہ ڈرون 45 منٹ تک پرواز کرسکتا ہے۔جہاں نگرانی اور حملوں کے لیے نت نئی خصوصیات کے ساتھ ڈرونز بنائے جا رہے ہیں وہاں ان کے توڑ کی بھی کوششیں جاری ہیں۔نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن نے مختلف نوعیت کے ڈرونز جیمر بھی بنائے ہیں۔ این آر ٹی سی کےمطابق ڈیٹکٹ اینڈ ڈیفیٹ ٹاور اینٹی ڈرونز سسٹم کمرشل ڈرونز کے ساتھ ساتھ ملٹری ڈرونز کے لیے بھی کافی موثر ہے۔ اس کی رینج دس کلومیٹر تک ہوتی ہے اور یہ 360 ڈگری میں ڈرونز کا سراغ لگاتا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ اور ڈرون صلاحیت سے متعلق ساؤتھ ایشین وائسز کی ویب سائٹ پر گذشتہ برس اکتوبر کے اوائل میں شائع ایک مضمون میں دفاعی تجزیہ کار زوہیب الطاف اور نمرہ جاوید نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھاتھا کہ ’پاکستان کی فضائیہ ڈرون اور روایتی ذرائع کے اشتراک سے انڈیا کے ایس – 400 اور پرتھوی کے جدید فضائی دفاعی نظام کو موثر طریقے سے ٹارگٹ کر کے انڈیا کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کر سکتی ہے۔‘کئی دفاعی تجزیوں کے مطابق پاکستان دنیا میں چوتھا یا پانچواں ڈرون پاور مانا جاتا ہے۔ ان کے پاس بہت جدید قسم کے ڈرون ہیں اور ان کے ڈرون فضائیہ، فوج اور کچھ حد تک بحریہ میں بھی شامل کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی ڈرون صلاحیت بڑھ رہی ہے اور اس کی توجہ اس صلاحیت میں مسلسل اضافہ کرنے پر ہے۔آئیڈیاز 2024: پاکستان کے شہپر تھری اور کاما کازی ڈرونز کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟پاکستان میں تیار کردہ ’شہپر ٹو‘ جنگی ڈرون کن صلاحتیوں کا حامل ہے؟فوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟پاکستان اور انڈیا کی ’ڈرون ریس‘: وہ یو اے ویز جو جنوبی ایشیا میں ’عسکری طاقت‘ کو نئی شکل دے رہے ہیںآئیڈیاز 2024: پاکستان کے شہپر تھری اور کاما کازی ڈرونز کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟