انڈیا کا لیزر ہتھیار کے کامیاب تجربے کا دعویٰ: کیا انڈین فوج نے ’سٹار وارز‘ صلاحیت والی ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے؟


انڈیا میں حکام نے انتہائی طاقتور لیزر ہتھیار کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جدید ہتھیار چھوٹے میزائلوں، ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کو تتباہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔ انڈیا کے دفاعی تحقیق کے ادارے ’ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ (ڈی آر ڈی او) کا کہنا ہے کہ اِس کے سائنسدانوں نےاتوار کو جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے علاقے ’کرنول‘ میں اس نئے لیزر ہتھیار کا تجربہ کیا ہے۔ان کے مطابق اس کامیاب تجربے میں زمین پر موجود ایک ٹرک پر نصب لیزر ہتھیار کی مدد سے فضا میں پرواز کرنے والے ایک ڈرون کو طاقتور شعاعوں سے تباہ کر دیا گیا۔اس لیزر ہتھیار کو ’ایم کے ٹو‘ کا نام دیا گیا ہے۔’ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ کے مطابق اس تجربے میں 30 کلو واٹ کے لیزر کا استعمال کیا گیا ہے۔ انڈین سائنسدانوں کے مطابق اس تجربے میں انتہائی طاقتور لیزر سے آسمان میں ساڑھے تین کلومیٹر کی اونچائی پر اڑنے والے ایک فکسڈ ونگ ڈرون کو کامیابی سے تباہ کیا گیا۔اس ضمن میں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی طرف سے جاری کی گئی جس میں ڈرون کو آسمان میں اڑتے، پھر لیزر ہتھیار کا نشانہ بنتے اور بلآخر زمین پر گِرتے ہوئے دکھايا گیا ہے۔لیزر ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیار کیا ہے؟لیزر ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیار میں لیزر سے نکلنے والی شعاعوں کی پوری طاقت کو یکجا کر کے ایک ہی نکتے یا ہدف پر مرکوز کر دیا جاتا ہے جس کے باعث اس ہتھیار کی کسی شے کو تباہ کرنے کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ہدف کو کچھ ہی لمحے میں جلا کر خاک کر دیتی ہے۔لیزر ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیار فضا میں اڑتے ہوئے ہیلی کاپٹرز، سوارم ڈرونز اور ریڈارز وغیرہ تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس نوعیت کے ہتھیاروں کو زمین پر موجود موبائل گاڑیوں، بحری جہازوں اور جنگی طیاروں میں نصب کیا جا سکتا ہے لیکن اِن کو آپریٹ کرنے کے لیے بہت جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے، جو بہت طویل تجربوں کے بعد حاصل کی جاتی ہے۔لیزر بیسڈ ویپنز کو مستقبل کا ہتھیار کہا جاتا ہے۔ انڈیا کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اس کامیاب تجربے کے بعد وہ اب اگلے مرحلوں پر کام کریں گے۔پاکستانی جے ایف 17 یا انڈین تیجس، کون سا طیارہ زیادہ خطرناکافغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیاینٹی میزائل سسٹمز کو چکمہ دینے والے انڈیا کے ہائپرسونک میزائل میں ایسا خاص کیا ہےجوہری میزائلوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا انڈیا کا نیا انٹرسیپٹر میزائل کن خصوصیات کا حامل ہے؟حکام کا دعویٰ ہے کہ انڈیا اس کامیاب تجربے کے بعد چین، امریکہ اور روس جیسے اُن چند ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس جدید ترین لیزر ہتھیار موجود ہیں۔انڈیا کے دفاعی تحقیق کے ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ سمیر وی کامت نے خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کا تجربہ صرف اس ٹیکنالوجی کا مظاہرہ تھا۔انھوں نے کہا کہ ’اس کا ادارہ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر اور مزید طاقتور اور موثر صلاحیت والے لیزر ہتھیار بنائے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہم جنگی طیاروں اور بحری جہازوں میں نصب کرنے کے لیے اس ہتھیار کو چھوٹے سائز میں بنانے پر کام کر رہے ہیں۔‘یہ خیال کیا جاتا ہے کہ استعمال میں آسانی اور سسستا ہونے کے سبب ڈائریکٹڈ انرجی ویپن نظام رفتہ رفتہ روایتی ہتھیاروں اور میزائل دفا‏عی نظام کی جگہ لے لیں گے۔’یہ تجرباتی مظاہرہ تھا، اسے حقیقت کا رنگ دینے میں وقت لگ سکتا ہے‘ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ انڈین دفا‏عی سائنسدان ہائی انرجی مائیکرو ویو اور الیکٹرو مییگنیٹک پلس جیسی طاقتور توانائی پر مبنی دوسرے ہتھیاروں کی تیاری پر بھی کام کر رہے ہیں۔’ہم کئی طرح کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جن سے ہمیں سٹار وارز کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔ کل جو آپ نے دیکھا وہ سٹار وارز ٹیکنالوجی کا ہی ایک حصہ تھا۔‘انڈیا میں دفاعی ماہرین کا خیال ہے لیزر ہتھیار کا کامیاب تجربہ بلا شبہ ملک کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن دنیا کے کئی ممالک نے سو کلو واٹ تک کے لیزر ہتھیار ہی نہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر مائیکرو ویو ہتھیار بھی بنا لیے ہیں اور انھیں اپنی افواج میں شامل کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ انڈیا نے فی الحال 30 کلوواٹ کا تجربہ کیا ہے۔ماہرین کے مطابق انڈیا کو اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے ابھی برسوں کے تجربے اور تحقیق کی ضرورت ہو گی۔دفاعی تجزیہ کار اور جنگی امور کے ماہر پروین ساہنی کہتے ہیں ’ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے 30 کلو واٹ کے لیزر ہتھیار کے کامیاب تجربے کا دعوی کیا ہے۔ مگر فی الحال یہ ایک اعلان ہے۔ یہ عمل مکمل ہوا ہے کہ نہیں، اس کے بارے میں فی الحال کوئی آزادانہ تصدیق نہیں ہوئی ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر لیزر ہتھیاروں کی بات کی جائے تو 30 کلو واٹ کا ہتھیار ویسے تو کوئی بہت طاقتور ہتھیار نہیں ہے لیکن جیسا کہ حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس سے ڈرونز گرائے جا سکتے ہیں، وہ صحیح ہے۔‘پروین ساہنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’جہاں تک چین، امریکہ اور روسں کا سوال ہے تو وہ 100 کلوواٹ تک کے لیزر ہتھیار بنا چکے ہیں۔ یہ سب چیزیں خفیہ ہوتی ہیں اور تجربے کے مراحل میں ان کے بارے میں زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ ایسے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے بارے میں مختلف دفا‏عی ذرائع اور مضامینوغیرہ سے ہی پتہ چلتا ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس 80 سے 100 کلو واٹ طاقت والے لیزر ہتھیار ہیں تو وہ ان سے میزائل اور جنگی طیارے بھی گرا سکتا ہے۔‘لیزر اور مائیکرو ویو جیسے ڈائریکٹڈ انرجی ہتھیاروں پر تحقیق گذشتہ کئی عشروں سے ہو رہی ہے۔پروین ساہنی کہتے ہیں کہ لیزر ہتھیار صرف چین، روس، اور امریکہ کے پاس ہی نہیں بلکہ فرانس، برطانیہ اور اسرائیل جیسے ممالک کے پاس بھی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے دعوے کرنے کی ہماری ‏عادت ہے کہ ہم دنیا میں چوتھا یا پانچواں ملک بن گئے ہیں۔ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اتوار کے تجربے کو صحیح بھی مان لیا جائے تو وہ ایک تجرباتی مظاہرہ تھا۔ اس کو ہتھیار کی شکل دینے میں بہت وقت لگتا ہے۔‘لیزر ہتھیار کیا ہوتے ہیں اور ان کے حصول کی کوششیں کب شروع ہوئیں؟آج سے تقریباً 70 سال پہلے بین الاقوامی طاقتوں نے لیزر ہتھیار بنانے کی کوششیں شروع کی تھیں۔ایک ایسے ہتھیار کا خیال جو دشمن کے آلات اور ہتھیاروں کو محض سیکنڈوں میں جلا کر بھسم کر دے، سوویت اور امریکی فوج کے لیے بہت پُرکشش تھا۔ ایسے ہتھیار کو دفاعی اور جارحانہ دونوں طرز کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔لیکن دنیا کے لیے حقیقت میں ایسا ہتھیار بنانا بہت مشکل ثابت ہوا۔پہلے پہل امریکہ اور سوویت یونین دونوں سپر پاورز نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے ایسے لیزر ہتھیار تیار کر لیے ہیں جو دشمن کے اہداف کو باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن بعدازاں یہ سب محض باتیں ہی ثابت ہوئیں۔ان ہتھیاروں کے کچھ تجرباتی ماڈلز تیار کیے گئے لیکن جلد ہی فنڈز کی کمی اور دوسری وجوہات کی وجہ سے ان پر کام روک دیا گیا۔ان لیزر ہتھیاروں کی تیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ان لیزرز کو چلانے کے لیے درکار طاقتور توانائی کے ذریعہ کی ضرورت اور استعمال کے بعد لیزر کو ٹھنڈا کرنا تھا۔اس کے علاوہ موسم پر انحصار، ایک ساتھ کئی متحرک اہداف کو نشانہ بنانے میں مسائل اور اس ہتھیار میں استعمال ہونے والے آلات کی لاگت بھی اس ہتھیار کو حتمی شکل دینے کے راستے میں حائل چند بڑی رکاوٹیں تھیں۔گذشتہ صدی کے اواخر میں عالمی طاقتوں نے لیزر ہتھیار بنانے کے بجائے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل جیسے روایتی ہتھیاروں کو بہتر بنانے میں توجہ دینی شروع کر دی۔تاہم بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں پیدا ہونے والے چیلنجز بشمول روسی یوکرین جنگ کے بعد لیزر ہتھیاروں کے بارے میں دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔اس بڑھتی دلچسپی کی ایک وجہ اب جنگ میں استعمال ہونے والے سستے ڈرونز ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے سستے اور قابل تجدید ذرائع کی تلاش ہے۔کیونکہ یہ ڈرونز دوسرے روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں کافی سستے ہوتے ہیں اس لیے فوجیں انھیں بڑی تعداد میں استعمال کرتی ہیں اور ان کو نشانہ بنانے کے لیے طیارہ شکن میزائل استعمال کرنا کافی مہنگا پڑتا ہے۔ دوسری جانب مشین گنوں سے ان ڈرونز کو مار گرانے کی کوششیں اکثر بے سود ثابت ہوتی ہیں۔ایک طاقتور لیزر بیم کے مدد سے ان ڈرونز کو مار گرانا بظاہر ایک سستا اور قابل عمل حل نظر آتا ہے۔وہ ممالک جن کے پاس لیزر ہتھیار موجود ہیںدنیا میں چند ہی ممالک ایسے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس لیزر ہتھیار ہیں۔جن ممالک کے پاس مبینہ طور پر لیزر ہتھیار موجود ہیں ان میں امریکہ اور روس کے علاوہ چین، برطانیہ، جنوبی کوریا، جاپان اور اسرائیل شامل ہیں۔امریکی حکام کی جانب سے اینٹی میزائل لیزر کے علاوہ بحریہ اور فضائیہ کے لیے بھی یہ لیزر ہتھیار بنانے کی بات کی گئی ہے۔چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طیارہ شکن لیزر کے علاوہ لیزر رائفلز بھی بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔کئی سال پہلے روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے دعویٰ کیا تھا کہ روس نے ایک ایسا ہتھیار تیار کر لیا ہے جو لیزر کی مدد سے سٹیلائیٹ کو بھی اندھا کر سکتا ہے۔اسرائیلی فوج نے رواں سال آئرن بیم لیزر سسٹم کی پہلی کھیپ کا آرڈر دیا تھا۔ یہ ہتھیار 2025 کے آخر تک فوجیوں کو فراہم کیے جانے کی امید ہے۔ یہ طیارہ شکن نظام کئی کئی کلومیٹر کے فاصلے سے چھوٹے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جنوبی کوریا اور جاپان بھی ایٹمی میزائل اور اینٹی ڈرون لیزر سسٹم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔برطانیہ کو امید ہے کہ وہ اپنے ڈریگن فائر لیزر سسٹم کو 2027 سے پہلے عسکری سروس میں شامل کرلے گا۔ ڈریگن فائر لیزر 55 کلو واٹ لیزر بیم سسٹم ہے جو 37 الگ الگ چینلز سے مرکوز ہے۔ یہ ہتھیار تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دھات کی بنے ٹارگٹ کو جلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔رواں سال برطانوی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ڈریگن فائر کی جنگی جانچ کے لیے اس کی یوکرین کو منتقلی کا امکان مسترد نہیں کرسکتے ہیں۔پاکستانی جے ایف 17 یا انڈین تیجس، کون سا طیارہ زیادہ خطرناکافغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیاینٹی میزائل سسٹمز کو چکمہ دینے والے انڈیا کے ہائپرسونک میزائل میں ایسا خاص کیا ہےجوہری میزائلوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا انڈیا کا نیا انٹرسیپٹر میزائل کن خصوصیات کا حامل ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

اسلام آباد میں شدید ژالہ باری سے سینکڑوں گاڑیوں سمیت املاک کو نقصان: ’ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان سے گولے برس رہے ہوں‘

وہ سبزیاں اور پھل جن کے چھلکے پھینک کر آپ غلطی کر رہے ہیں

ہارورڈ یونیورسٹی 2.2 ارب ڈالر کی کٹوتی سمیت صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے؟

سستے پیٹرول کی جگہ نئی سڑک کا وعدہ: ’موٹروے بنے گی نہ ہی عوام کو فائدہ مل سکا‘

انڈیا کی جانب سے بنگلہ دیش کو دی گئی تجارتی راہداری کی سہولت کی واپسی: کیا یہ سیاسی محاذ آرائی کے بعد ایک تجارتی جنگ کی ابتدا ہے؟

چینی کارخانوں میں سستی مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چین کی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘

چین کی فیکٹریوں میں سستی ترین مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چینی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘

آئی پی ایل میں رنز کے انبار کے بعد بیٹ چیک کرنے کا فیصلہ: ’اب اس کھیل کو کرکٹ نہیں صرف بلے بازی کہنا چاہیے‘

’المن‘: من و سلویٰ کی یاد دلاتا وہ صحت بخش قدرتی رس جس کا تذکرہ بائبل میں بھی ملتا ہے

لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیں

سونے کے ذخائر، قیمتی پتھر اور دھاتیں: پاکستان میں ’کھربوں ڈالرز‘ کی معدنیات کہاں پائی جاتی ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟

کوہلی، ملائیکا سمیت بھارت کی مشہور شخصیات کالے رنگ کا پانی کیوں پیتی ہیں؟ جانیں اس کی دلچسپ خصوصیات اور قیمت

آئی پی ایل میں رنز کے انبار کے بیچ بلے بازوں کے بیٹ چیک کرنے کا فیصلہ: ’اب اس کھیل کو کرکٹ نہیں بیٹنگ کہنا چاہیے‘

کیلا بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں کیسے مدد کرتا ہے اور روزانہ کتنے کیلے کھانے چاہئیں؟ نئی تحقیق

120 کروڑ کا گھر اور 12 قیمتی گاڑیاں۔۔ ریکھا اور جیا بچن میں سے زیادہ امیر کون ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی